وسیع تر ملکی مفاد کا موسم: ایم کیو ایم بھی حکومت کو چھوڑ کر باضابطہ طور پر اپوزیشن سے مل گئی

نیوز ڈیسک

اسلام آباد – اسلام آباد میں سیاسی صورتحال نے ایک مرتبہ پھر پلٹا کھایا ہے، متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان نے متحدہ اپوزیشن کے ساتھ معاہدے پر دستخط کے بعد اسلام آباد میں پریس کانفرنس میں حکومت سے باقاعدہ علیحدگی کا اعلان کر دیا

تازہ پیش رفت کے بعد سینیٹر فیصل جاوید خان نے ٹوئٹر پر اعلان کیا ہے کہ وزیرِ اعظم عمران خان کا قوم سے خطاب مؤخر ہو گیا ہے. اُنہوں نے اس کی کوئی وجہ نہیں بتائی

واضح رہے کہ اس سے کچھ دیر قبل وزیرِ داخلہ شیخ رشید احمد نے وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد کہا تھا کہ عمران خان آج شام قوم سے خطاب کریں گے

متحدہ اپوزیشن کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ایم کیو ایم پاکستان کے کنوینر خالد مقبول صدیقی کا کہنا تھا ”اس معاہدے کی کوئی شق ہمارے سیاسی فائدے کے لیے نہیں، بلکہ ملک کے وسیع تر مفاد کے لیے ہے“

ان کا کہنا تھا ”اپنے سیاسی مفادات پر ہم نے پاکستان کے مفادات کو ترجیح دی ہے“

ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما کہنا تھا ”یہ ایک تاریخی موقع ہے، آج کے دن ہم ایسی سیاست کا آغاز کرنا چاہتے ہیں، جہاں کسی کو سیاسی انتقام کا نشانہ نہ بنایا جائے، آج کامیابی سے زیادہ امتحان کا دن ہے، چاہتے ہیں سیاسی اختلافات ختم کرکے آگے بڑھیں، آج قوم کو ایک امتحان کا سامنا ہے جس سے گزرنا ہے“

اس موقع پر بات کرتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کا کہنا تھا ”آج پاکستان کی تاریخ میں ایک اہم دن ہے، شاید دہائیوں میں ایسا موقع آیا جب پوری قومی سیاسی قیادت ایک پلیٹ فارم پر قومی جرگہ کی صورت میں موجود ہے“

انھوں نے کہا کہ جب ہم سب اکٹھے ہوئے تو آخری لمحات پر ایم کیو ایم کی طرف سے کہا گیا کہ بات بہت حد تک طے ہو چکی ہے اور ایک دو پوائنٹس باقی ہیں وہ بھی حل ہو جائیں گے

شہباز شریف کا کہنا تھا ”اس کے بعد آصف زرداری نے کہا کہ آئیں دوسرے کمرے میں بیٹھ کر بات کرتے ہیں اس کے بعد بیس منٹ پر معاملات طے ہو گئے“

اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے وزیراعظم عمران خان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ”وزیراعظم استعفیٰ دے کر نئی روایت قائم کرسکتے ہیں“

چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو کا کہنا تھا ”ایم کیو ایم پاکستان نے کراچی اور پاکستان کی ترقی کے لیے اچھا فیصلہ کیا، کراچی اور پاکستان کی ترقی کے لیے اب مل کر محنت کرنی ہے۔“

بلاول بھٹو کا کہنا تھا شہباز شریف صاحب نے بالکل ٹھیک کہا کہ وزیر اعظم استعفیٰ دیں۔ وزیر اعظم کے پاس اب کوئی آپشن نہیں رہا۔ وہ وزیر اعظم نہیں رہے۔ کل ہی سیشن ہے، کل ہی ووٹنگ رکھیں تاکہ آگے بڑھیں اور الیکشن اصلاحات، جمہوریت کی بحالی، معاشی بحران سے نکلنے کا راستہ نکلے۔ شہباز شریف جلد ہی وزیر اعظم منتخب ہوں گے۔‘

پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ’یہ فیصلہ نہ صرف سندھ اور کراچی بلکہ پورے ملک کے لیے ہے جس کے ثمرات پوری قوم کو پہنچیں گے۔‘

’ساڑھے تین سال قبل اس ڈرامے کا آغاز ہوا تھا اب اس کا خاتمہ قریب ہے، آج اس سیاسی ڈرامے کا ڈراپ سین ہوگیا۔ جن دوستوں نے ابھی تک فیصلہ نہیں کیا وقت ہے قومی دھارے میں شامل ہوں۔ ہمارے سامنے چیلنجز ہیں۔‘

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ’آج ایم کیو ایم اور بی اے پی کی وجہ سے ہماری تعداد 175 ہوگئی ہے۔‘

اس موقعے پر ایم کیو ایم اور متحدہ اپوزیشن کے درمیان طے پانے والے معاہدے پر دستخظ بھی کیے گئے

اس سے قبل بدھ کو تحریک انصاف کی کابینہ میں شامل دو وفاقی وزرا فروغ نسیم اور امین الحق نے استعفی دیا تھا۔
خیال رہے منگل کو رات گئے متحدہ اپوزیشن اور متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے درمیان معاہدہ طے پا گیا تھا، جس کا اعلان آج بدھ کو ہونا تھا

واضح رہے کہ گزشتہ رات گئے پارٹی نے اپوزیشن لیڈرز کے ساتھ ملاقات کی تھی، جس نے دارالحکومت میں کافی ہلچل مچادی تھی

ابتدائی طور پر خواجہ آصف، شیری رحمٰن، نوید قمر، ایاز صادق، اختر مینگل، وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور دیگر پر مشتمل اپوزیشن کا وفد آدھی رات سے کچھ پہلے پارلیمنٹ لاجز پہنچا تھا

انہوں نے ایم کیو ایم کے کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی اور دیگر رہنماؤں سے بات چیت کی تھی

ملاقات کے دران مشترکہ اپوزیشن نے کوشش کی کہ ایم کیو ایم فوری طور پر کسی فیصلے کا اعلان کردے، لیکن ایم کیو ایم پاکستان نے اتنی رات گئے کوئی حتمی بیان دینے سے گریز کیا تھا اور اعلان کیا تھا کہ وہ اگلے دن اپنے فیصلے کا اعلان کرے گی

ایم کیو ایم پی کے ترجمان نے کہا تھا کہ معاہدے کے مسودے کو حتمی شکل دے دی گئی ہے، پارٹی اپنے فیصلے کا اعلان اس وقت ہی کرے گی، جب اس کی توثیق رابطہ کمیٹی سے ہو جائے گی

ایم کیو ایم کی جانب سے اپنا وزن اپوزیشن کے پلڑے میں ڈالنے کے بعد وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں اپوزيشن کی پوزیشن خاصی مستحکم ہو گئی ہے

اندازوں کے مطابق حکمران اتحاد کے پاس ارکان کی تعداد 171 تھی، کیونکہ جماعت اسلامی کے واحد قانون ساز نے عدم اعتماد کے ووٹ میں غیر جانبدار رہنے کا انتخاب کیا ہے. دوسری جانب بلوچستان عوامی پارٹی کے اپنی صفوں میں شامل ہونے کے بعد اپوزیشن کے پاس 169 ارکان موجود تھے۔ اب ایم کیو ایم پی کے سات اراکین اپوزیشن کی جانب بڑھنے سے یہ غیر یقینی توازن آسانی سے جھک سکتا ہے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close