رنگین، دیدہ زیب اور خوبصورت ڈیزائن پر مبنی چارپائیاں بنانے والے کاریگر اعجاز بگٹی کے ہنر کی دھوم سوشل میڈیا سے ہوتی ہوئی اب مین اسٹریم میڈیا تک بھی پہنچ چکی ہے، کئی چینلز پر ان کے ہاتھ کے جادو سے تخلیق کی گئی چارپائیوں کے بارے میں رپورٹس بھی نشر ہو چکی ہیں
حال ہی میں پاکستان پیپلز پارٹی کی ایم این اے اور سابق وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کی صاحبزادی نفیسہ شاہ نے بھی اعجاز بگٹی کے ہاتھوں سے بنائی گئی چارپائیوں کی تصاویر ٹوئٹر پر شیئر کی ہیں اور ان کے ہنر کو سراہا ہے.اس حوالے سے اعجاز بگٹی کا کہنا ہے کہ نفیسہ شاہ نے میرے کام کو بین الاقوامی سطح پر اجاگر کرنے کی بھی یقین دہانی کروائی ہے۔
اعجاز بگٹی کا تعلق ضلع سانگھڑ کے قریب نذر محمد گاؤں سے ہے۔ اڑتالیس سالہ اعجاز بگٹی نے یہ فن 14 سال کی عمرمیں اپنے مرحوم والد محمد سلیم خان سےسیکھا جو چارپائی بُننے کے معروف کاریگر تھے
اعجاز بگٹی بتاتے ہیں کہ میں ایک پرائمری ٹیچر تھا، لیکن میں نے ملازمت سےریٹائرمنٹ لے لی ہے اور اب اپنا سارا وقت یہ چارپائیاں بنانے پر صرف کرتا ہوں. جس سے مجھے نہ صرف شہرت ملی ہے، بلکہ میں اپنے خاندان کی دیکھ بھال کرنے کے لئے معقول رقم بھی کما رہا ہوں
اُن کے تین بیٹے ہیں، جن میں سے ایک سرفراز علی اپنی تعلیم جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ نہ صرف اس کام میں ان کا ہاتھ بٹاتا ہے بلکہ یہ خاندانی ہنر بھی سیکھ رہا ہے
اعجاز بگٹی نے بتایا کہ انہیں پاکستان بھر سے چارپائیاں بنانے کے آرڈر ملتے ہیں، وہ خریداروں کی پسند کے مطابق چارپائی بنا کر فروخت کرتے ہیں
ان کے مطابق دیدہ زیب ڈیزائنوں سے سجی رنگارنگ چارپائیاں اٹھارہ سے بتیس ہزار روپے تک میں فروخت ہوتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ خام مال کی بڑھتی قیمتوں کے باوجود میں اپنے کام کو فروغ دینے اور معیاری چارپائیوں کی فراہمی کے لئے کم سے کم قیمت لینے کی کوشش کرتا ہوں، اب تک ہزاروں چارپائیاں بناچکا ہوں جن کے 200 منفرد ڈیزائن ہیں۔
اعجاز بگٹی نے کہا کہ یہ سندھ کی ثقافت کا ایک بہت بڑا حصہ ہے اور میں جدید طریقوں کا استعمال کرکے اس کو مزید فروغ دینا چاہتا ہوں
انہوں نے بتایا کہ مجھے 2018ع اور 2019ع میں ڈپٹی کمشنر صاحب کی طرف سے اپنے اس منفرد کام پر ایوارڈز بھی مل چکے ہیں، جبکہ میرا کام دیکھنے کے بعد سندھ کے وزیرثقافت سید سردارعلی شاہ نے بھی مجھ سے ملاقات کیلئے ایک ٹیم بھیجی تھی
اعجاز بگٹی کا کہنا ہے کہ چارپائیوں پرلکڑی کا کام حال ہی میں انتقال کرجانے والے مقامی بڑھئی استاد محمد ابراہیم لہڑی نے کیا، اب مجھے ہالا سے کچی لکڑی جمع کرنی ہے جو کہ ثقافت پرمبنی سجاوٹی ٹکڑوں اور دستکاری کے لئے مشہور ہے.