ملیر ایکسپریس وے : انسانوں کی بے دخلی اور ماحولیاتی تباہی کی قیمت پر؟

زہرہ تُنیو (ترجمہ: امر گل)

کراچی : پچھلے سال کے آخر میں، کراچی کے ضلع ملیر میں واقع مگسی گوٹھ کے ایک پینتیس سالہ چھوٹے درجے کے کسان، عبدالغفار نے دیکھا کہ سرکاری کارکنوں کا ایک گروپ اس کے محلے میں داخل ہوا ہے اور گھروں، فٹ پاتھوں اور گلیوں کے کونوں کو نشان زد کرنا شروع کر دیا ہے

غفار نے جب ریڈ کراس کے ان بڑے نشانات کے بارے میں دریافت کیا تو انہیں بتایا گیا کہ شہر میں ایک نئے ایکسپریس وے پراجیکٹ کی تعمیر شروع ہونے والی ہے

ان کے گاؤں کی گلی میں ایک کونے کی دکان کی دیوار پر X کے تازہ سرخ نشان کے مطابق، یہ ایکسپریس وے براہ راست متعدد گھروں اور دکانوں سے گزرے گا

غفار کا خاندان کئی دہائیوں سے مگسی گوٹھ میں مقیم ہے۔ سندھی زبان بولنے والوں کی یہ آبادی تقریباً پچاس سال پرانی ہے اور کراچی میں ملیر ندی کے دائیں کنارے پر واقع ہے اور پڑوس میں واقع دیگر گوٹھوں کے مقابلے میں نسبتاً نئی ہے، جو صدیوں سے یہاں آباد ہیں

ملیر ضلع، جسے اکثر "کراچی کی آکسیجن” کہا جاتا ہے، یہاں قدیم ترین سندھی اور بلوچ کھیتی باڑی کے لیے آباد ہیں۔ نیم کے ٹھنڈے درختوں اور زرعی زمین کے ٹکڑوں سے بھرے، دائیں کنارے کے رہائشی زیادہ تر اپنے چھوٹے فارموں سے موسمی فصلیں اگاتے اور بیچتے ہیں

دسمبر 2020 میں، پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرپرسن بلاول بھٹو نےایک تقریب میں ملیر ایکسپریس وے منصوبے کا سنگ بنیاد رکھا. یہ ایک پبلک پرائیویٹ منصوبہ ہے، جس پر تقریباً 160 ملین ڈالر لاگت آئے گی۔ 24.4 میل (39 کلومیٹر) طویل ایکسپریس وے براہ راست ان کمیونٹیز کے باغات اور گوٹھوں سے گزرے گا اور سندھ حکومت کی جانب سے جاری کردہ ایک سرکاری پروجیکٹ رپورٹ کے مطابق، شہر کے مضافات میں نئے ریئل اسٹیٹ ڈویلپمنٹ پراجیکٹس کو کراچی کے پوش اور متمول علاقوں سے جوڑ دیا جائے

گزشتہ سال، ملیر کے رہائشیوں، ماہرین ماحولیات اور صدیوں سے آباد مقامی لوگوں کے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والی انڈیجینس رائٹس الائنس جیسی تنظیموں نے ایکسپریس وے کی تعمیر کے خلاف احتجاج کیا، جس سے تعمیراتی ماحولیاتی لاگت کے بارے میں خدشات بڑھے، جس سے مقامی لوگوں کو بے گھر ہونا پڑے گا اور زرعی اراضی تباہی کا شکار ہو جائے گی

یہ مظاہرے کراچی میں موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں بڑے خدشات کی عکاسی کرتے ہیں، جو کہ 16 ملین نفوس پر مشتمل ایک بڑا شہر ہے، جسے ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک نے گذشتہ سال ان شہروں میں شامل کیا ہے، جو شدید گرمی کے حوالے سے سب سے زیادہ خطرے سے دوچار ہیں. یاد رہے کہ 2015 میں کراچی میں شدید گرمی کی لہر کے نتیجے میں تقریباً 1,200 اموات ہوئیں

موسمیاتی تبدیلی کے دیگر بڑے مظاہر، مثلاً سمندر کی سطح میں اضافہ، مون سون کی شدت اور سیلاب کے خطرات سے دوچار کراچی 2020 کے موسم گرما میں ایک ہی دن میں نو انچ پڑنے والی سب سے زیادہ بارش کا تکلیف دہ تجربہ بھی کر چکا ہے

دریں اثنا، پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں مسلسل اوپر کے نمبروں پر موجود ہے۔ اگرچہ پاکستان عالمی سطح پر گرین ہاؤس گیسوں کے 1 فیصد سے بھی کم اخراج کا ذمہ دار ہے، وہ یورپی یونین کے جوائنٹ ریسرچ سینٹر سے منسلک انسانی اور ترقیاتی تنظیموں کے کنسورشیم انفارم کے اس سال شائع کردہ رسک انڈیکس کے مطابق 191 ممالک میں بائیسویں نمبر پر ہے

پینتیس سالہ عبدالغفار اپنے چھوٹے سے زرعی باغ میں، جہاں ان کا خاندان گزشتہ پچاس سالوں سے موسمی فصلیں اگاتا ہے۔ کراچی میں ملیر ندی کے دائیں کنارے پر رہنے والے خاندان ملیر ایکسپریس وے کی تعمیر سے اپنے گھروں اور زرعی اراضی سے محروم ہو جائیں گے ، جو شہر کے زیادہ آمدنی والے علاقوں کو اس کے مضافات میں رہائشی منصوبوں سے جوڑ دے گا

جرمنی کے شہر بون میں قائم ایک غیر منافع بخش ماحولیاتی، تجارت اور پالیسی ساز تنظیم جرمن واچ کے مطابق، پاکستان 2000 اور 2019 کے درمیان شدید موسمی واقعات سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں آٹھویں نمبر پر ہے

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق، دنیا کے گرم ترین شہروں میں سے ایک، جیکب آباد بھی پاکستان میں ہی واقع ہے، جہاں درجہ حرارت اس حد تک پہنچ چکا ہے، کہ ماہرین کے مطابق ”یہ انسانی جسم سے زیادہ گرم ہے۔“ گزشتہ جون میں وہاں درجہ حرارت 125.6 ڈگری فارن ہائیٹ تک پہنچ گیا

تجزیہ کاروں کا اندازہ ہے کہ گزشتہ دہائی کے دوران پاکستان میں تقریباً 30 ملین ایسے پناہ گزین تھے، جو موسمیاتی تغیرات کی وجہ سے نقل مکانی پر مجبور ہوئے

ملیر ایکسپریس وے کے خلاف مظاہروں کے جواب میں، سندھ حکومت نے مختصر طور پر منصوبے کو ملیر ندی کے بائیں کنارے پر منتقل کرنے پر غور کیا، لیکن پھر مالی مجبوریوں اور حکومتی ضمنی پابندیوں کا حوالہ دیتے ہوئے اصل منصوبے کے مطابق ہی آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا۔ حکام کا دعویٰ ہے کہ ایکسپریس وے کا اصل منصوبہ کسی بھی مقامی کمیونٹی کو بے گھر نہیں کرے گا یا جنگلات کی غیر ضروری کٹائی کا سبب نہیں بنے گا

ایکسپریس وے کے پروجیکٹ ڈائریکٹر نیاز سومرو کہتے ہیں ”جیسا کہ قیاس کیا جاتا ہے کہ اگر پینتالیس یا اس سے زیادہ ایکڑ زرعی اراضی کو کسی ایسے منصوبے کے لیے قربان کرنا پڑے، جو شہر کے ہزاروں لوگوں کو سہولت فراہم کرے گا تو یہ ایک اچھا سودا ہے“

سومرو نے مزید کہا کہ سمو گوٹھ کے رہائشی، جو ملیر ندی کے کنارے آباد بہت سی بستیوں میں سے ایک ہے، ایکسپریس وے کی تعمیر کی وجہ سے اپنی کھیتی سے محروم ہو سکتے ہیں، لیکن انہیں علاقے میں متبادل زرعی زمین الاٹ کی جائے گی

انہوں نے غفار اور مگسی گوٹھ کے دیگر رہائشیوں کے خدشات پر بات کرتے ہوئے کہا ”ہم سائٹ کے دوروں کے دوران جن جگہوں کو نشان زد کرتے ہیں وہ ہمارے حوالے سے ہیں اور اس بات کی نشاندہی نہیں کرتے کہ کوئی بھی کمیونٹی بے گھر ہو جائے گی“

گزشتہ دہائی کے دوران کراچی میں ایکسپریس ویز، ہائی ویز اور سگنل فری کوریڈورز کی تعمیر میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ ماحولیاتی پالیسی کے مشیر داور نعمان نے کہا کہ اس ایکسپریس وے کی تعمیر کی وجہ سے جنگلات کی کٹائی اور سڑک کی تعمیر کے لیے درکار اسفالٹ کی بڑھتی ہوئی تہوں کے ساتھ ایسے اثرات کو جنم دے گا ، جس کی وجہ سے کراچی کا درجہ حرارت اس کے مضافات کے مقابلے میں نمایاں طور پر بڑھ جائے گا اور کراچی ”گرمی کا جزیرہ“ بن کر رہ جائے گا

ایکسپریس وے شہر کے جنوبی، زیادہ آمدنی والے علاقوں کو کراچی کے مضافات میں شہری ترقیاتی منصوبوں سے منسلک کرنے کے لیے تعمیر کیا جا رہا ہے، جبکہ زیر تعمیر ملیر ایکسپریس وے کے ساتھ رہنے والے تاریخی طور پر غریب ہیں اور وہ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت اور بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی کے سب سے بڑے نتائج بھگتیں گے۔ نعمان کا کہنا ہے کہ آپ ایکسپریس وے کی تعمیر سے قبل علاقے کی ہوا کے معیار کا بار بار جائزہ لیں اور ایکسپریس وے کے بننے اور آپریشنل ہونے کے بعد بھی یہ جائزہ لے کر اس کا تقابل کریں تو یقینی طور پر یہ فرق پریشان کن ہوگا، اس طرح یہ انسانی حقوق اور صحت عامہ کا مسئلہ بن جاتا ہے“

صدیوں سے آباد مقامی کمیونٹیز یا کم آمدنی والے طبقے کی آبادیوں میں سے سڑکوں، ایکسپریس ویز اور فری ویز کی تعمیر کراچی میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ لیاری ایکسپریس وے، جو پندرہ سال کی تعمیر کے بعد 2018 میں آپریشنل ہوا، جو شہر کے وسط سے دور کارگو گاڑیوں کی آمدورفت کے لیے بنایا گیا تھا۔ اس نے مہنگے ایکسپریس وے منصوبوں کی سہولت کے لیے کراچی کے رہائشیوں کی بڑے پیمانے پر نقل مکانی کی ایک مثال قائم کی

نومبر 2021 میں، سندھ ہائی کورٹ نے پراجیکٹ ری سیٹلمنٹ ڈائریکٹر کو ایکسپریس وے کے آپریشنل ہونے کے چار سال بعد اس کی تعمیر سے متاثر ہونے والے لوگوں کو زمین فراہم کرنے میں ناکامی پر توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا

ایکسپریس وے کے پروجیکٹ ڈائریکٹر نیاز سومرو کا دعویٰ ہے کہ ”لیاری ایکسپریس وے کے مقابلے میں، جس سے تیس ہزار سے زیادہ لوگوں کو نقل مکانی کرنی پڑی، ملیر ایکسپریس وے کے منصوبے کا اثر تین سو سے کم کمیونٹی تک محدود رہے گا“

ملیر ندی کے کنارے کے رہائشی تاریخی طور پر آمدنی کے ذریعے کے طور پر چھوٹے پیمانے پر کاشتکاری پر انحصار کرتے ہیں۔ کراچی اربن لیب کے سینئر محقق، محمد توحید کے مطابق، ان کی زمین کے ساتھ ہی پھیلی کنکریٹ کی پرتیں کھیتوں کو کسی بھی قسم کی کاشتکاری کے قابل نہیں چھوڑتیں۔ تعمیر ہونے پر، ایکسپریس وے ندی کے ساتھ ساتھ بیس بستیوں میں سے کم از کم بارہ زرعی کھیتوں کو نمایاں طور پر متاثر کرے گا

توحید کہتے ہیں ”اس منصوبے کے بارے میں جو کچھ ہم جانتے ہیں، اس کے مطابق اس سے ہونے والے ماحولیاتی نقصان کے باعث اس کی تعمیر جائز نہیں ٹھہرتی“

ایکسپریس وے پر اب تک ہونے والی تنقید پر تبصرہ کرتے ہوئے، سومرو نے کہا کہ اسے ان جگہوں پر بلند کیا جائے گا، جہاں مقامی کمیونٹیز رہائش پذیر ہیں، تاکہ اس کے انسانی اور ماحولیاتی اثرات کو کم سے کم کیا جا سکے

کراچی کے ضلع ملیر میں سمو گوٹھ میں زرعی اراضی اور باغات کو جلد ہی ایکسپریس وے کی تعمیر کے لیے بلڈوز کر دیا جائے گا، جس سے شہر کے زیادہ آمدنی والے علاقوں کو مضافات میں رہائشی منصوبوں سے ملایا جائے گا

لیکن انڈیجینس رائٹس الائنس کے جنرل سکریٹری حنیف دلمراد، جو کہ مقامی حقوق کے کارکنوں نے 2015ع میں بڑے پیمانے پر ہاؤسنگ پروجیکٹس کی تعمیر اور کراچی کی مقامی آبادیوں کی نقل مکانی کے خلاف مزاحمت کے لیے تشکیل دیا تھا، حکومت کے وعدوں پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے لیاری ایکسپریس وے کی متاثرہ کمیونٹیز کو دوبارہ آباد کرنے میں حکومت کی ناکامی کا حوالہ دیا اور ملیر میں مقامی زمینوں اور یادگاروں کو محفوظ رکھنے کے اس کے ارادے کی کمی پر تشویش کا اظہار کیا۔ دلمراد نے کہا، ”اگر حکومت باشندوں کو دوبارہ آباد کر بھی لے ، تو ان مساجد، مزارات اور ثقافتی اداروں کا کیا ہوگا جو یہاں کے لوگوں کے لیے تاریخی اہمیت رکھتے ہیں“

ایکسپریس وے کے لیے تعمیراتی کام فی الحال جاری ہے، اور رینیو الائنمنٹ پلان اور ماحولیاتی اثرات کے مطالعے کو ابھی شائع ہونا باقی ہے

توحید کے مطابق، شفافیت کا یہ فقدان اور سرکاری ریکارڈ کی عدم موجودگی ایسے منصوبے کے ماحولیاتی اثرات کا اندازہ لگانے کی کوششوں کو ناکام بنا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ "اکثر اوقات تعمیرات ایک منصوبے کے مطابق شروع ہو جاتی ہیں اور درمیان میں بغیر کسی سرکاری اعلان کے تبدیل ہو جاتی ہیں”

توحید نے مزید کہا کہ صوبے میں زیادہ تر سرکاری منصوبے اوپر سے نیچے کا طریقہ اختیار کرتے ہیں، اور شاذ و نادر ہی کمیونٹی کے ممبران کی رائے لی جاتی ہے

دلمراد نے بھی ایسی ہی تشویش کا اظہار کیا۔ ”ایسے منصوبوں کی تعمیر سے قبل مقامی کمیونٹیز اور علاقے کے رہائشیوں کو بھی شامل کرنا ہونا چاہیے نہ کہ صرف منتخب عہدیداروں کو“

انہوں نے اور دیگر کارکنوں نے کہا کہ منتخب عہدیداروں پر یہ عدم اعتماد بے بنیاد نہیں ہے۔ گزشتہ سال، صوبائی حکومت نے ورلڈ بینک کے ایک سو ملین ڈالر کے سالڈ ویسٹ ایمرجنسی اینڈ ایفیشنسی پروگرام (SWEEP) کے تحت شہر کی دو اہم سیوریج لائنوں اورنگی اور گجر آبی گزرگاہوں کے ساتھ ساتھ بڑے پیمانے پر بے دخلی اور مسماری کی، جو طویل عرصے سے پلاسٹک کے کچرے سے بھری ہوئی تھیں اور مون سون کے موسم میں بڑے پیمانے پر اربن فلڈ کی وجہ بنی تھیں“

سیوریج لائنوں کی صفائی اور انہیں چوڑا کرنے کے ساتھ ساتھ سرکاری اہلکاروں نے آبی گزرگاہوں کے دونوں طرف 30 فٹ چوڑی دو سڑکیں بنانے کا بھی اعلان کیا۔ دسمبر 2021 میں، کراچی بچاؤ تحریک (کراچی بچاؤ تحریک) کے اراکین نے سڑکوں کی تعمیر کے لیے گھروں کو گرائے جانے کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے "پیپلز کلائمیٹ مارچ” کا انعقاد کیا اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ بے دخلیوں سے متاثرہ رہائشیوں کے لیے بحالی اور نقل مکانی کے منصوبے پیش کیے جائیں۔ اس کے بعد سے، حکومت نے مجوزہ سڑکوں کے دونوں اطراف میں 10 فٹ کمی کا اعلان کیا ہے، لیکن کسی حتمی تبدیلی اور بحالی کے منصوبے کا اعلان ہونا باقی ہے

اب، ملیر ایکسپریس وے کے لیے نئے منصوبوں کی عدم موجودگی میں، شہری منصوبہ ساز اور رہائشی اس کے اثرات کے بارے میں اندازہ لگا رہے ہیں۔ توحید کے مطابق، اگر ایکسپریس وے کو اصل منصوبے پر بنایا جاتا ہے، تو یہ "عملی طور پر ناممکن” ہوگا کہ ملیر ندی کے دائیں کنارے پر واقع کمیونٹیز کو بے گھر نہ کیا جائے، جیسا کہ حکام اب وعدہ کر رہے ہیں۔ 2017 کی قومی مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق ملیر ضلع کی دیہی آبادی 800,000 ہے لیکن 20 بستیوں میں سے ہر ایک میں رہائشیوں کی تعداد کا سرکاری انفرادی تجزیہ دستیاب نہیں ہے

حنیف دلمراد کا تخمینہ ہے کہ ممکنہ طور پر متاثرہ بستیوں کی کل آبادی 200,000 کے لگ بھگ ہے۔ ان کے مطابق متاثرہ کمیونٹیز میں اولڈ شفیع گوٹھ، لاسی گوٹھ، داد محمد گوٹھ، مگسی گوٹھ اور جام گوٹھ سمیت دیگر شامل ہوں گے

اگرچہ انڈیجینس رائٹس الائنس جلد ہی ایک اور احتجاج کرنے کی تیاری کر رہا ہے، غفار کے خیال میں اس ایکسپریس وے کی وجہ سے جو تباہی آئے گی وہ ناگزیر ہے۔ اپنے گھر کے بالکل قریب ہرے بھرے کھیتوں سے گزرتے ہوئے، وہ شہر میں کسی اور جگہ منتقل ہونے کے بارے میں سوچ کر پریشان ہو جاتا ہے، جب اس کے گاؤں کے خاندان علاقے سے باہر کی زندگی کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں

غفار کا کہنا ہے ”انہوں نے ہم سے بوریا بستر سمیٹ کر اپنے گھر چھوڑنے کا کہا ہے، لیکن اس بارے میں کوئی لفظ نہیں کہا کہ ہم آخر کہاں جائیں گے“

بشکریہ: انسائیڈ کلائمیٹ نیوز و مصنفہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close