کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں،
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں..
مگر ہم تو اسی جہان کی ہوس میں عمریں گزار رہے ہیں۔ دوسروں کا حق مار رہے ہیں۔ غریبوں کو بے یارو مددگار کر رہے ہیں۔ مصیبت میں غیر تو کیا، اپنوں کے بھی کام نہیں آتے، خود غرضی کی انتہا کو چھورہے ہیں۔
کیا کبھی ہم نے اپنی خوش قسمتی پر ناز کیا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس ہادیٔ برحقﷺ، پیغمبر آخر الزماںﷺ کی امت میں پیدا کیا ہے جس کی روشن جبیں نے پوری دُنیا میں اُجالا پھیلایا۔ غلامی کے اندھیروں کو دور کرکے آزادی کے نور میں بدل دیا۔
انہوں نے جس قیصر و کسریٰ کی رعونت خاک میں ملادی، آج ہم اسی کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اپنی ریاستوں کو گروی رکھ دیتے ہیں۔ دعوے محمدﷺ کی غلامی کے کرتے ہیں مگر زمین کے خداؤں سے ڈرتے ہیں۔ اس خوف سے محسنوں کے جنازوں کو کندھا نہیں دیتے۔ ان کے لئے فاتحہ خوانی نہیں کرتے۔
کیا ہم کبھی اپنی بد قسمتی پر روئے کہ ہمارے پاس اللہ کی کتاب قرآن حکیم موجود ہے مگر ہم اس کا اپنی زندگی پر، اپنے نظام پر ،اپنے کاروبار پر اطلاق نہیں کر پاتے۔ کبھی اپنی بد بختی کا ماتم کیا کہ ہمارے پاس رسول اکرم محمد عربیﷺ کی حیات پاک کا ایک ایک لمحہ محفوظ ہے، مگر ہم اس کی پیروی نہیں کرتے۔
خدائے بزرگ و برتر نے تو فرمایا کہ ’’ رسول جو کچھ تمہیں دیں، اسے لے لو۔ جس سے روکیں، رُک جاؤ۔‘‘ کبھی ہم نے تدبر کیا کہ اس عظیم ہستیﷺ نے ہمیں کیا کچھ عنایت کیا ہے۔ اخلاق، مروت، نظم و ضبط، پاکیزگی، لَهۡو وَ لَعِب سے مکمل گریز، اک اک لمحے کا درست مصرف۔ آپﷺ کی زندگی ہر ایک کے لئے مشعل راہ ہے۔ وہ سربراہِ مملکت بھی تھے۔
آج کے صدور اور گورنروں کے لئے ایک راہِ تقلید۔ وہ سربراہ حکومت بھی تھے، آج کے وزرائے اعظم اور وزرائے اعلیٰ کے لئے ہر قدم ایک روشن مثال۔ وہ سپہ سالار بھی تھے، آج کے فوجی سربراہوں کے لئے ہر گام ایک کمان۔ وہ قاضی القضاۃ بھی تھے، آج کے جسٹسوں کے لئے ہر گھڑی ایک نظیر۔ ان کے فیصلے، ان کا انصاف، لائقِ پیروی۔ وہ مجسمِ ہدایت تھے۔
آج کی اصطلاح میں ٹرینروں کے ٹرینر۔ ان کا ہر مقولہ ایک سیمینار۔ ان کی ہر نشست ایک ورکشاپ۔ وہ ایک کامیاب ایماندار تاجر بھی تھے۔ آج کے صنعت کاروں، ٹریڈرز کے لئے، مستقبل کے سودوں کے لئے ان کی ہر بات ایک ہدایت نامہ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ ’’اے ایمان والو! اسلام میں پورے داخل ہوجاؤ اور شیطان کے قدموں پر نہ چلو۔ بے شک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے.‘‘
کبھی ہم نے سوچا کہ ہم اسلام میں پورے داخل ہوئے ہیں یا نہیں؟ ہمارے بعض علمائے کرام جو اقتدار کے ایوانوں میں شاہی دستر خوانوں کے گرد بیٹھ کر بہت اتراتے ہیں۔ انہوں نے کبھی حکمرانوں کو بتایا کہ اسلام میں پورے داخل ہونے کا کیا مطلب ہے؟
جب اسلام مکمل ضابطۂ حیات ہے تو ہم نے کیا آج کی اصطلاحات، آج کی ٹیکنالوجی، آج کی اقتصادی، سائنسی ضروریات کے مطابق اس ضابطۂ حیات پر کوئی دستاویز مرتب کی؟ کیا کسی اسلامی جمہوریہ کی مجلس شوریٰ نے، پارلیمنٹ نے اس ضابطۂ حیات کو ایک مینوئل ایک دستور میں ڈھالا۔
ہمارے عزیز و اقارب، ہمارے دل و جان آپﷺ پر قربان ہوں۔ آپﷺ نے ہمارے دل ایمان کی روشنی سے منور کیے۔ آپﷺ نے ہمیں جہالت کی تاریکیوں سے نکالا۔ آپﷺ نے ہمیں عالمی طاقتوں کے مقابلے میں کامیاب کیا۔ ہمیں دنیا میں ایک عظیم مرتبہ عنایت کروایا۔ نجد و حجاز کی وادیوں سے ہم پوری دنیا میں پھیل گئے۔ سلطنتیں زیر ہوتی گئیں۔ تہذیبیں آپس میں گھلتی ملتی رہیں۔ ایک تمدّن اخلاق، انصاف اور احسان سے مزین ہوتا رہا۔
اقبال یاد آتا ہے:
مسلماں کے لہو میں ہے سلیقہ دل نوازی کا،
مروّت حسن عالمگیر ہے مردان غازی کا..
شکایت ہے مجھے یا رب خداوندانِ مکتب سے،
سبق شاہیں بچوں کو دے رہے ہیں خاکبازی کا…
ہمارے علماء، جنہیں بنی اسرائیل کے انبیا کے برابر درجہ دیا گیا، وہ احکام خدا وندی اور اسوۂ حسنہ فراموش کرکے دنیوی نعمتوں کے حصول کے لئے تگ و دو کر رہے ہیں۔ وہ بھول گئے ہیں کہ ان کے مکتب، حکمت، دانائی، فلسفے، منطق، اخلاقیات، جراحت، بحریات، حیاتیات کے مینار ہوتے تھے۔
ہمارے حکمران ریاستِ مدینہ کی دن رات بات کرتے ہیں، خلفائے راشدینؓ کا ذکر کرتے ہیں، مگر انہیں یاد نہیں رہتا کہ خلیفہ اوّل صدیقِؓ اکبر اپنا سب کچھ لے آئے تھے اور حضور اکرمﷺ کی نذر کردیا تھا۔
عمرؓ کا حوالہ دیتے ہیں۔ ان کے ذہن میں وہ منظر نہیں آتا، کہ جب وہ روم میں داخل ہو رہے تھے، تو اونٹ پر کون بیٹھا تھا؟ عمرؓ اونٹ کی نکیل تھامے پیدل چل رہے تھے۔ عثمان غنیؓ کا ایثار اور سخاوت ان کو یاد نہیں۔ علیؓ کے عالمگیر اقوال ان کے ذہن میں نہیں ہیں۔
حضورﷺ! ہم شرمندہ ہیں کہ ہم آپﷺ کی نسبت پر فخر تو کرتے ہیں، مگر عمل نہیں کرتے!