پشاور : خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں واقع آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) پر حملے میں شہید ہونے والے طلبہ کے والدین نے سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت کے دوران اُس وقت کی اعلیٰ سول و عسکری قیادت کو اس سانحے کا ذمہ دار‘ قرار دیا ہے
یاد رہے کہ 16 دسمبر 2014ع کو پشاور کے ورسک روڈ پر واقع آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں کے حملے میں اسکول اساتذہ اور پرنسپل سمیت ایک سو چالیس بچے جان سے چلے گئے تھے۔ اس واقعے کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے قبول کی تھی
بدھ 20 اکتوبر کو سپریم کورٹ میں سانحہ آرمی پبلک اسکول پر ازخود نوٹس کی سماعت چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے کی
سماعت کے دوران مقتول طلبہ کے والدین موجود تھے، تاہم حکومت کی جانب سے اٹارنی جنرل پیش نہیں ہوئے
دوران سماعت طلبہ کے والدین نے اعلیٰ سول و عسکری قیادت کو اس سانحے کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف بھی مقدمہ درج کرنے کی استدعا کی
دوسری جانب اس سانحے کے بارے میں فوج کی انکوائری رپورٹ کے مطابق ایک بریگیڈیئر سمیت متعدد عہدے داروں کے خلاف کارروائی کی گئی ہے اور ان میں سے کئی کو برطرف بھی کیا گیا ہے، جب کہ دوسروں کو مختلف قسم کی سزائیں دی گئی ہیں
لواحقین کا مزید کہنا تھا کہ سابق کور کمانڈر پشاور ہدایت الرحمٰن اور سابق سیکریٹری داخلہ اختر شاہ بھی سانحۂ اے پی ایس کے ذمہ دار ہیں
یہ دلائل سن کر بینچ میں شامل جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے ریمارکس دیے کہ ذمہ داران کو تو سزائے موت ہو چکی ہے، جبکہ کچھ موقعے پر مارے گئے
اس کے جواب میں والدین نے کہا کہ جو مارے گئے وہ دہشت گرد تھے، منصوبہ ساز اب بھی زندہ ہیں۔ منصوبہ سازوں کو سزا ملنی چاہیے، تاکہ اپنی کرسیاں بچانے کے لیے کوئی بچوں کو شہید نہ کرے۔ حکومت سے ہمیں کچھ نہیں چاہیے۔ صرف بچوں کے خون کا بدلہ چاہیے
اس موقع پر جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے ریمارکس دیے کہ سکیورٹی کی ناکامی کی وجہ سے پورا ملک متاثر ہو رہا ہے اور ہزاروں جانیں اب تک ضائع ہو چکی ہیں
دس منٹ کی سماعت کے بعد سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کو والدین کے مطالبے پر ضروری اقدامات کرنے کا حکم دیا اور ہدایت کی کہ وہ دو ہفتے بعد ذاتی حیثیت میں پیش ہو کر عدالت کو اقدامات سے آگاہ کریں
سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے کہ ’ریاست سمجھتی ہے کہ اگر کوئی ذمہ دار رہ گیا ہے تو اس کے خلاف کارروائی کرے۔‘
بعدازاں عدالت نے مزید سماعت دو ہفتے کے لیے ملتوی کر دی.
بعد از سماعت مقتول طلبہ کے والدین نے عدالت کے باہر گفتگو میں کہا کہ سانحہ آرمی پبلک اسکول کی رپورٹ میں ذمہ داران کا تعین کیا گیا اور انہیں مختلف محکمانہ سزائیں بھی دی گئیں، لیکن اعلیٰ افسران کے خلاف نہ کوئی چارج شیٹ بنی اور نہ کوئی سزا ہوئی، جبکہ ماتحت افسران نے تو اعلیٰ قیادت کے حکم کے مطابق ہی کام کرنا تھا
اے پی ایس سانحے میں شہید ہونے والے ایک طالب علم عصمت خان کی والدہ کا کہنا تھا کہ اس وقت وزیراعلیٰ پرویز خٹک تھے، وہ بھی ذمہ دار ہیں، وزیر داخلہ چوہدری نثار اور آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل ظہیر پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ آخر کیسے دہشت گرد سرحد پار کرکے اسکول پہنچ گئے اور انہیں کانوں کان خبرنہ ہوئی؟
سانحے میں شہید ہونے والے دو بچوں کی والدہ نے کہا کہ یہ تو ٹارگٹ کلنگ تھی۔ آڈیٹوریم میں سب کو جمع کرکے گولیاں ماری گئیں۔ وہ صرف بچے نہیں بلکہ 150 نسلیں تھیں۔ ہماری 150 نسلیں ختم کر دی گئیں
واضح رہے کہ سانحہ اے پی ایس کی تحقیقات کرنے والے انکوائری کمیشن نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں اسکول کی سکیورٹی پر بھی سوالات اٹھائے ہیں، جس کے مطابق آرمی پبلک اسکول کو ملنے والی دھمکیوں کے باوجود واقعے کی بڑی وجہ سکیورٹی گارڈز کی کم تعداد اور درست مقامات پر عدم تعیناتی تھی
رپورٹ میں کہا گیا کہ اگر سکیورٹی گارڈز نے مزاحمت کی ہوتی، تو شاید جانی نقصان اتنا نہ ہوتا۔ سکیورٹی پر سمجھوتہ ہوا اور دہشت گردوں کا منصوبہ کامیاب ہوا جبکہ غفلت کا مظاہرہ کرنے والی یونٹ کے متعلقہ افسران و اہلکاروں کو بھی سزائیں دی گئیں
دوسری جانب اے پی ایس کمیشن رپورٹ میں پاکستانی فوج کی محکمانہ انکوائری کی تفصیلات بھی منظر عام پر آئی ہیں، جن کے مطابق اسکول کی سکیورٹی کے معاملے پر فوج کا روایتی معیار برقرار نہ رکھ پانے کی وجہ سے بریگیڈیئر سمیت پندرہ افسران اور اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی گئی، جبکہ ایک میجر سمیت پانچ اہلکاروں کو فوج سے برطرف کر دیا گیا
رپورٹ کے چوتھے حصے کے باب نمبر 19 میں فوج کی جانب سے محکمانہ کارروائی کی تفصیل دی گئی ہے، جس کے مطابق برگیڈیئر مدثر اعظم کو ترقی نہ دینے اور ریٹائرمنٹ کے بعد ملازمت نہ دینے کے احکامات جاری کیے گئے، جبکہ کرنل مظفر الدین اور کرنل حضرت بلال کو حساس مقامات پر تعینات نہ کرنے کی ہدایت کی گئی۔ کرنل مظفر اور کرنل بلال کی ترقی اور بعد از ریٹائرمنٹ تعیناتیوں پر بھی منفی ریمارکس تحریر کیے گئے ہیں
اسی طرح حوالدار منظر حسین، سپاہی محمد عثمان، سپاہی محمد عدنان، احسان اللہ، احسن نواز اور سعود اعظم کو 28 دن قید بامشقت کی سزا سنائی گئی۔ ان تمام اہلکاروں کو آئندہ حساس مقامات پر تعینات نہ کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے
تاہم عسکری حکام نے کمیشن کو دی گئی رپورٹ میں یہ واضح کیا کہ افسران اور اہلکاروں کے خلاف کارروائی سانحے میں ملوث ہونے یا غفلت پر نہیں برتی گئی بلکہ ایسے حساس آپریشنز میں فوج کا ایک روایتی معیار ہوتا ہے، جسے برقرار نہیں رکھا گیا
مزید کہا گیا کہ اتنے بڑے سانحے کے بعد فوج کی جانب سے متعلقہ افسران اور اہلکاروں کے خلاف محکمانہ انکوائری اور کارروائی ناگزیر تھی.