1986 حسن پیر کا میلا ڈاسول کے علاقے ، حب ندی کے کنارے ہر سال لگتا تھا. اس درگاہ کے مجاور گڈاپ کے علاقے سہراب فقیر گوٹھ کے جوکھیو ہیں، اس درگاہ کے مجاور ہونے کی نسبت سے ان کو "فقیر” کہا جاتا ہے.
حسن پیر کے میلوں کے دنوں میں گڈاپ ویران ہوجاتا تھا، کیوں کہ پورا گڈاپ بڑے، بوڑھے، عورتیں اور بچے سب میلے کے تین دن یہاں امڈ آتے تھے. درگاہ سے متصل میدان میں جھگیوں کے عارضی گھر بنائے جاتے تھے، کھانے پینے ، چائے اور مٹھائی کے اسٹال لگتے تھے، یوں سمجھ لیں کہ ایک پورا شہر بس جایا کرتا تھا.
میلے میں شریک زائرین صبح شام حب ندی میں نہاتے رہتے اور شب بھر رت جگا لگا رہتا تھا. تین دن تک سندھ کے روایتی کھیل ملاکھڑے کے مقابلے ہوتے تھے. گھوڑوں اور اونٹوں کی دوڑ ہوتی تھی. رسم چادر کے موقعے پر عارضی رہائشی علاقے سے درگاہ تک چادر لےجاتے ہوئے سب دھمال کرتے ہوئے جاتے تھے۔
زیرِ نظر تصویر میں میرے ساتھ اس وقت کے سوشلسٹ قوم پرست اور شاعر انور بلوچ بھی دھمال کرتے ہوئے نظر آرہیں ہیں. انور اب تبلیغی جماعت سے وابستہ ہو چکے ہیں۔ ہم آج بھی ان ہی پرانی راہوں پر جدوجہد میں مصروف ہیں. انور جیسے بہت سے لوگوں کے خواب گورباچاف کے پروسترائیکا کی نظر ہوگئے۔ سرمد سندھی کے مشہور گیت
"کات منھنجے کندھ تے،
آئوں نچندو اچاں،
جیئے سندھ ، جیئے سندھ
آئوں چوندو اچاں،
انور انھیءَ آس میں
آئوں جیئندو اچاں۔۔”
کے تخلیق کار یہی انور بلوچ ہیں. یہ گانا اس وقت قومپرستوں کے جلسوں میں جوش بھر دیا کرتا تھا. انور بلوچ سپنوں کے خوبصورت شاعر امر گل کے بڑے بھائی ہیں۔
بات ہو رہی تھی حسن پیر کی درگاہ اور اس پر ہر سال لگنے والے میلے کی.. تو گذشتہ آٹھ سالوں سے قبضہ مافیا کے وجہ یہ عارضی خوشی بھی چھن گئی، اب وہاں نہ عارضی شہر بستا ہے، نہ ہی زندگی اپنے رنگ بکھیرتی ہے، کیوں کہ درگاہ اور اس ملحقہ زمین پر گینگ وار نے قبضہ کیا ہوا ہے۔
یہاں حسن پیر کے ساتھ روشن شاہ کا بھی میلا لگتا تھا. روشن شاہ کا مزار بھی یہیں پر واقع ہے. روشن شاہ کی قبر اور اس کے ساتھ باقی قبروں کی خاص بات یہ ہے کہ یہ دس دس فٹ لمبی ہیں. روشن شاہ کے مجاور پیر سرہندی گوٹھ ملیر کے "ڈاگرا جوکھیو” ہیں۔
حسن پیر درگاہ کے ساتھ تراشیدہ چوکنڈی طرز تعمیر کا ایک وسیع قبرستان بھی ہے۔
حسن پیر کی خاص ملازمہ "مائی چنگوری” کی قبر حسن پیر درگاہ سے کچھ فاصلے پر جنوب میں ایک پہاڑی ٹیلے پر ہے، یہاں آنے والے حسن پیر کی درگاہ پر سلامی کے بعد "مائی چنگوری” کی سلامی ضرور بھرتے ہیں. پہاڑی پگڈنڈیوں سے گزر کر مائی چنگوری کے مزار تک جانا کسی ایڈوینچر سے کم نہیں تھا۔
کیا خوبصورت دن تھے، نہ کوئی تفریق نہ کوئی ذات پرستی تھی، بس محبتیں تھیں.. اب تو صرف ان خوبصورت دنوں کی یادیں ہی باقی رہ گئی ہیں.