کسی نے غور کیا ہے کہ ہماری زرعی زمین مسلسل سکڑ رہی ہے ہر جگہ ایک بے ہنگم تعمیرات کا سلسلہ ہے اور کوئی روکنے والا نہیں۔ جدھر نظر ڈالیں نئی ہاؤسنگ اسکیم کالونی کے بورڈز نظر آئیں گے
شہر پشاور کے مضافات کی زمینیں جو شہر کو سبزیاں اور فروٹ فراہم کرتی تھیں، اب بڑی بڑی کالونیوں میں تبدیل ہو رہی ہیں۔ وہ سبزیاں جو صرف پشاور میں اگائی جاتی تھیں، اب ہمیں باہر سے خریدنا پڑ رہی ہیں۔ اسی لیے سبز دھنیہ جو ہمارے بچپن میں سبزی کے ساتھ فری ملتا تھا، اب اس کی ایک گڈی بیس روپے میں ملتی ہے
ہماری شہری زبان ”پے“ اور پشتو میں ”برسنڈے” جو شہر سے باہر جوہڑوں میں خود ہی اگتے تھے، اب غائب ہو گئے ہیں۔ گوبھی اور شلجم جو کبھی جانوروں کو خوراک میں دیے جاتے تھے، اب فی کلو ایک سو روپے سے کم پر دستیاب نہیں۔ کرم کے ضلع میں پیدا ہونے والی دالیں کتنی خوش ذائقہ تھیں، اب ہم دالیں ازبکستان سے لانے پر مجبور ہیں۔ ہمارا چاول تو اب مارکیٹ میں ہی نہیں آتا، لوگ صرف اپنی ضرورت کے لیے اسے اگاتے ہیں۔ چمکنی کے علاقے میں آڑو کے باغات سکڑتے سکڑتے اب غائب ہونے کے قریب ہیں۔ موٹروے پر پشاور داخل ہوتے وقت یہ لکھا ہوا کتنا اچھا لگتا ہے کہ آپ دنیا کے بہترین آڑو والی سرزمین میں داخل ہو رہے ہیں، لیکن جو زمین ہمیں رس بھرے خوش ذائقہ آڑو فراہم کرتی تھی، اب کالونیوں اور ہاؤسنگ اسکیموں کی نذر ہو رہی ہے
اور یہ صرف پشاور میں نہیں بلکہ پورے صوبے میں زرعی زمینوں کے ساتھ ہی ہو رہا ہے۔ لوگ کھیتی باڑی کے مشکل کام کے بجائے، زمینیں بیچ کر کاروبار شروع کر رہے ہیں۔ نئی نسل تو اپنی زمین اور اپنے شہر کے لیے خوراک پیدا کرنے کی ذمے داری سمجھنے سے قاصر ہے
حالانکہ اگرچہ یہ ٹیکنالوجی استعمال کی جائے تو کافی فائدہ ہو سکتا ہے۔ ہمارے ایک صحافی دوست نے بے روزگار ہونے کے بعد اپنی زرعی زمین پر قسمت آزمائی کی۔ ٹیکنالوجی اور اچھی معلومات کا استعمال کیا اور اپنی بے روزگاری کے دوران اپنے کھیتوں سے سیکڑوں من اسٹرابری پیدا کرکے اپنی بے روزگاری کو ہرایا۔ ایسی کئی مثالیں اور بھی ہیں۔ زراعت میں ٹیکنالوجی کا استعمال بڑھ رہا ہے۔
لیکن ہمارے کسانوں کے پاس وسائل نہیں کہ وہ اس ٹیکنالوجی کو بروئے کار لا سکیں۔ زرعی زمینوں پر تعمیرات اتنے بے ہنگم انداز میں پھیل رہی ہیں کہ پریشانی ہو جاتی ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ زرعی زمین کے دیگر مقاصد کے لیے استعمال پر کافی عرصہ سے پابندی ہے۔ لیکن پھر بھی زرعی زمین ہاؤسنگ کو منتقل ہو رہی ہیں۔ پٹواریوں اور ضلعی انتظامیہ کی مدد سے آپ پٹواری کو اچھی خاصی تگڑی رقم دیں، پھر دیکھیں کہ کس طرح آپ کا کام ہوتا ہے
پٹواری، گرداور اور تحصیلدار کی مدد سے آپ کی زرعی زمین جو خانہ کاشت میں شامل ہوتی ہے، کو خانہء کاشت سے نکال کر مالک کو زمین دیگر مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا جواز دے دیتے ہیں۔ خانہء کاشت سے نکلنے کے بعد مرضی آپ کی ہوتی ہے۔ زمین پر گھر بنائیں، پلازہ یا ایک ہاؤسنگ اسکیم۔ اگر یہ کہا جائے کہ زرعی زمین کے سکڑنے میں زمین مالکان ذمے دار ہیں، تو ضلعی انتظامیہ بھی برابر کی شریک ہے۔ صدر مشرف کے دور میں جب ضلعی حکومت کا نیا نظام متعارف کروایا گیا اور ڈپٹی کمشنر کے عہدے ختم کر دیے گئے تو ایک خلاء پیدا ہو گیا
ڈپٹی کمشنر ضلع کی تمام سرکاری زمینوں کا بھی ذمے دار ہوتا تھا اور ریونیو کا بھی۔ کئی سال تک تو پتہ نہیں چل رہا تھا کہ اب یہ اختیار کس کے پاس ہے۔ ڈی سی او کا عہدہ تو بنا دیا گیا، لیکن ان کے اختیار کیا ہیں، بعد میں جا کر نشاندہی ہوئی۔ اس دوران قبضہ گروپ وجود میں آئے اور انھوں نے سرکار کے ساتھ ساتھ عام لوگوں کی زمینوں پر ہاتھ صاف کیے۔ شہر کے امراء اسی دور کی پیداوار ہیں کہ کس طرح انھوں نے زمینوں پر قبضے کرکے اپنا اسٹیٹس بڑھایا۔ پورے پاکستان میں شرح کے لحاظ سے سب سے کم زرعی زمین خیبرپختونخوا میں ہے، لیکن ہمارا اب سب سے بڑا کاروبار پراپرٹی کا کاروبار ہے!
لوگ اس کاروبار میں سرمایہ کاری کرتے ہیں. اس لیے آپ کو ہر جگہ پراپرٹی ڈیلر اور کنسلٹنٹ کے بورڈز ہی ملیں گے۔ ہر جگہ آپ کو پلازہ یا فلیٹس زیر تعمیر کے بورڈز ہی نظر آئیں گے اور حیران کن بات یہ بھی کہ خود حکومتی ادارے ایسی کئی عمارات اور ہاؤسنگ اسکیموں کو غیر قانونی قرار دے چکے ہیں، جس میں لوگ پہلے سے کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری کر چکے ہیں
وقتاً فوقتاً پشاور ترقیاتی ادارہ ایسے منصوبوں کے نام شایع کر کے بھی متنبہ کرتا رہتا ہے، لیکن ہوتا کچھ بھی نہیں۔ ایسی ہی ایک مثال پشاور میں زیرِ تعمیر ایک مشہور بلڈنگ ہے، جس کا ایک ایک فلیٹ اور دکان کروڑوں روپے میں بک رہا ہے، اس منصوبے پر محکمہ ایریگیشن کا اعتراض ہے اور خود پی ڈی اے بھی اس کو غیر قانونی قرار دے چکی ہے، لیکن منصوبے پر جاری کام اور لوگوں کی اس میں کی جانے والی سرمایہ کاری کسی کو نظر نہیں آ رہی
بھائی صرف اعلان کرنا نہیں، اس پر عمل کروانا بھی آپ کی ذمے داری ہے! ایسی کئی مثالیں موجود ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وزیراعلیٰ محمود خان نے پچھلے مہینے زرعی زمینوں کے حوالے سے نئی قانون سازی کی منظوری دی، جس کے تحت صوبے کی سطح پر وزیراعلیٰ کی سربراہی میں کونسل بنائی جائے گی، جو ضلع کی سطح پر قائم کونسلوں کی زمینوں کے استعمال سے متعلق پلان کو منظور کرے گی۔ خوش آیند بات ایک یہ بھی کہ وزیراعلیٰ نے 6 اضلاع کے لیے اربن ماسٹر پلان تیار کرنے کی ہدایت کی ہے، جو وقت کی ایک اہم ضرورت ہے اور یہ ماسٹر پلان اب بیس نہیں بلکہ تیس سال آگے کی سوچ لے کر تیار کیے جائیں گے۔ ماسٹر پلان سے ایک تو بے ہنگم طریقے سے تعمیرات کو روکا جائے تو دوسری طرف زرعی زمینوں کو بھی محفوظ بنایا جا سکے گا
وزیراعلیٰ کی جانب سے زرعی زمین کی حفاظت کے لیے قانون سازی ایک بہترین قدم ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ روایتی زراعت کی ترقی کے لیے بھی خاطر خواہ ضرورت ہے. ہم نے نہ صرف اپنی زرعی زمین بچانی ہے، بلکہ اسے قابل استعمال لا کر جدید طریقوں سے اپنے لیے خوراک کی پیداوار میں بھی اضافہ کرنا ہے۔ ہائی برڈ بیجوں کے استعمال میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ہمارے قدرتی بیج جو نسل در نسل چلے آ رہے تھے، اب کم ہو رہے ہیں۔ کئی سبزیوں کا ذائقہ بدل چکا ہے
ہمیں اپنے روایتی قدرتی بیج کی بھی حفاظت کرنی ہے۔ حکومت نے تو کسان کارڈ کا اعلان کیا ہے، لیکن اس منصوبے کو حکومت کے دیگر امدادی منصوبوں کے برعکس انتہائی سنجیدگی سے پایۂ تکمیل تک پہنچانے کی ضرورت ہے، کیونکہ ان منصوبوں پر ہمارے مستقبل کا انحصار ہے
خوراک زندگی کی ایک لازمی ضرورت ہے اور اس کے بغیر زندہ رہنا ممکن نہیں اور اگر ہم اپنی خوراک پیدا کرنے کے قابل نہیں رہے، تو پھر ہمیں اپنی خوراک کے لیے دوسروں پر انحصار کرنا ہوگا، جو مہنگا بھی ہوگا اور دوسرے کی مرضی پر بھی منحصر ہوگا.
بشکریہ ایکسپریس نیوز