اسلام آباد : پاکستان کے سابق فاسٹ بولر اور اسٹار کھلاڑی شعیب اختر سرکاری ٹی وی ’پی ٹی وی اسپورٹس‘ پر اینکر کے رویے پر پروگرام چھوڑ کر چلے گئے اور استعفی دے دیا
تفصیلات کے مطابق شعیب اختر پی ٹی وی اسپورٹس پر پروگرام میں شریک تھے جس میں ورلڈ کپ میں پاکستان کی کارکردگی اور کھلاڑیوں کے بارے میں گفتگو ہورہی تھی۔ پروگرام میں ان کے ساتھ غیر ملکی لیجنڈ کھلاڑی ویون رچرڈز، ڈیوڈ گاور اور سابق پاکستانی کرکٹرز عاقب جاوید، راشد لطیف ، عمر گل ، اظہر محمود، ثنا میر بھی شریک تھے
گفتگو کرتے ہوئے شعیب اختر نے اپنی بات پر توجہ نہ دینے پر میزبان نعمان نیاز کو توجہ بھی دلائی۔ شعیب اختر نے لاہور قلندرز کی تعریف کرتے ہوئے حارث رؤف کی تعریف کی اور کہا کہ یہ نوجوان لاہور قلندرز کے پلیئر ڈولپمنٹ پروگرام سے سامنے آیا ہے
لائیو پروگرام کے میزبان پہلے تو یہ کہہ کر حارث کا ذکر گول کرنے لگے کہ شاہین آفریدی انڈر 19 سے آیا، لیکن اچانک انہوں نے سخت رویہ اپناتے ہوئے کہا کہ اگر اوور اسمارٹ بننا ہے تو یہاں سے چلے جاؤ
شعیب اختر وہ پہلے کھلاڑی نہیں ہیں جن کے ساتھ میزبان نعمان نیاز کی جانب سے ایسا رویہ اختیار کیا گیا ہے
واقعے کے بعد شعیب اختر نے بتایا کہ دوران بریک انہوں نے ملک کی عزت کے خیال سے میزبان کے ساتھ اس شرط پر مصالحت کی کہ وہ ان سے آن ایئر معافی مانگیں گے، لیکن جب نعمان نیاز نے معافی نہ مانگی تو وہ شو چھوڑ کر چلے گئے اور پی ٹی وی اسپورٹس سے استعفیٰ دے دیا
شعیب اختر نے کہا کہ سرکاری ٹی وی پر میزبان کا رویہ ناقابل برداشت تھا، نیا بھر کے لیجنڈز کے سامنے یوں شو سے جانے کا کہنا توہین آمیز تھا
دوسری جانب نعمان نیاز کا ردعمل بھی سامنے آگیا ہے جس میں انہوں نے شعیب اختر کی تعریف کرتے ہوئے انہیں بہترین کھلاڑی اور اپنا دیرینہ دوست قرار دیا ہے
اطلاعات کے مطابق سرکاری ٹی وی چینل کی انتظامیہ نے اسپورٹس شو میں میزبان نعمان نیاز اور سابق اسپیڈ اسٹار شعیب اختر کے مابین تنازع کا نوٹس لے لیا ہے
سرکاری ٹی وی کی انتظامیہ نے شعیب اختر اور اسپورٹس اینکر کی لائیو ٹی وی پروگرام میں نوک جھوک پر ایکشن لیتے ہوئے واقعے کی تحقیقات کے لئے انکوائری کمیٹی تشکیل دے دی ہے
سرکاری ٹی وی کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق انکوائری کمیٹی کا پہلا اجلاس آج ہے، انکوائری کمیٹی ڈاکٹر نعمان نیاز اور شعیب اختر کے درمیان پیدا صورتحال پر تحقیقات کرے گی
دوسری جانب اسی معاملے پر غور کے لئے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات ونشریات کا اجلاس بھی آٹھ نومبر کو طلب کرلیا گیا ہے
ڈان اخبار میں فہیم پٹیل کی رپورٹ میں میزبان نعمان اعجاز کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ شاید آپ کو یہ جان کر حیرانی ہو کہ شعیب اختر وہ پہلے کھلاڑی نہیں ہیں جن کے ساتھ میزبان نعمان نیاز کی جانب سے ایسا رویہ اختیار کیا گیا ہے
روزنامہ ڈیلی ٹائمز میں چھپنے والی ایک خبر کے مطابق یہ ڈاکٹر نعمان کا پرانا مسئلہ ہے کہ وہ ٹی وی پروگرام کو ون مین شو کی حیثیت سے چلانا چاہتے ہیں
اسی خبر میں بتایا گیا تھا کہ 2017ء میں ڈاکٹر نعمان کو ڈائریکٹر اسپورٹس کے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا، کیونکہ ان پر بدانتظامی، بے قاعدگیوں اور سرکاری ٹی وی کو ون مین شو کی طرح چلانے کا الزام تھا
ماضی میں ایک وڈیو کلپ پہلے بھی وائرل ہوچکا ہے جس میں ڈاکٹر نعمان نیاز سابق کھلاڑی ثقلین مشتاق کو اپنے شو میں غدار کہہ رہے تھے اور ان کی کوچنگ کا مذاق اڑا رہے تھے
ایکسپریس ٹریبون میں شائع ہونے والے مضامین میں ڈاکٹر نعمان کے پروگرام میں ہونے والی بدانتظامیوں کی جانب توجہ بھی دی گئی
اس مضمون میں لکھاری نے سوال اٹھایا کہ جب آپ کسی غیر ملکی کو اپنے پروگرام میں بلاتے ہیں تو کوشش کرنی چاہیے کہ اس زبان میں پروگرام ہو جو اس کو سمجھ بھی آئے
2015ع میں لکھے جانے والے اس مضمون میں لکھاری نے پاکستان اور سری لنکا کے درمیان کھیلے جانے والی سیریز کا حوالہ دیا۔ پی ٹی وی نے اس سیریز پر بطور ماہر سنتھ جے سوریا کو بلوایا ہوا تھا، لیکن حیران کن طور پر پروگرام کا اکثر حصہ اردو زبان میں ہورہا تھا۔ یعنی جے سوریا اس پروگرام سے عملاً لاتعلق نظر آتے اور اپنے موبائل میں مصروف رہتے۔ اب آپ خود بتائیے کہ ٹی وی پروگرام میں آپ نے کبھی کسی کو موبائل چلاتے ہوئے دیکھا ہے، اور اگر ایسا ہو بھی رہا ہے تو ڈائریکٹر کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ ایسا منظر ٹی وی اسکرین پر نہ آئے
2015ء میں ہی دی نیشن نے ایک تحریر شائع کی، جس میں کہا گیا کہ ڈاکٹر نعمان پی ٹی وی پر اس طرح پروگرام کرتے ہیں جیسے اپنے دوستوں کے ساتھ ڈرائنگ روم میں بیٹھے ہوں
اسی تحریر میں لکھا گیا تھا کہ ڈاکٹر نعمان کو اکثر یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ کن باتوں کو پروگرام میں کہنا چاہیے اور کن کو نہیں۔ مثال کے طور پر ایک پروگرام میں وہ بتانے لگے کہ سابق کھلاڑی محمد وسیم مالی طور پر کن کن مشکلات سے دوچار ہوئے، اور مزے کی بات یہ ہے کہ اسی پروگرام میں محمد وسیم بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ اگر میں وسیم کی جگہ ہوتا تو کبھی نہیں چاہتا کہ میرے ذاتی مسائل کو یوں قومی ٹی وی پر بیٹھ کر بیان کیا جائے.