اسلام آباد : ملک میں ڈینگی کے پھیلاؤ کا اندازہ اسلام آباد جیسے جدید شہر کے حالات دیکھ کر لگایا جا سکتا ہے، جہاں ایک ہفتہ پہلے تک 2603 کیسز رپورٹ ہوئے، جبکہ پڑوسی بھارت جیسے کثیر آبادی پر مشتمل پورے ملک میں اس سال ایک ہزار کیسز رپورٹ ہوئے
صحت سے متعلقہ حلقوں نے اس صورت حال کو سنگین قرار دیا ہے. پاکستان میں اس سال صرف پنجاب میں گیارہ ہزار اور خیبر پختونخوا میں تقریباً پانچ ہزار کیس رپورٹ ہو چکے ہیں۔ جبکہ سندھ میں بھی صورتحال کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے. یکم جنوری سے اب تک پاکستان میں ڈینگی کے کم از کم ستائیس ہزار سے زائد کیس رپورٹ ہو چکے ہیں
لیکن بدقسمتی سے اس ضمن میں صوبائی حکومتیں اپنا کردار ادا کرنے اور ڈینگی کی روک تھام کے لئے اقدامات اٹھانے سے قاصر رہیں. وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو اس وقت خیال آیا جب پنجاب میں 693 کیس رپورٹ ہو چکے تھے اور گذشتہ ماہ 20 ستمبر کو انہوں نے ڈینگی کنٹرول کے بارے میں حکام کو احکامات دیے حالانکہ اس وقت لاروا پنپ کر مچھر بن چکا تھا اور روز سینکڑوں لوگوں کو نشانہ بنا رہا ہے
پاکستان میں سب سے پہلے ڈینگی نے 2012 میں سر اٹھایا تھا جب شہباز شریف وزیراعلیٰ تھے
حکومتی سنجیدگی کا عالم یہ ہے کہ ڈینگی ٹیسٹ جو پہلے 80 روپے میں ہو جاتا تھا، وہ اس وقت دو سے چار ہزار میں ہو رہا ہے اور روزانہ پلیٹ لیٹس کاؤنٹ ٹیسٹ کے پانچ سو روپے اس کے علاوہ ہیں
دوسری جانب سرکاری ہسپتالوں میں ڈینگی ٹیسٹ کی لمبی قطاریں لگی ہوئی ہیں۔ حتیٰ کہ کئی شہروں میں بخار چیک کرنے والا تھرمامیٹر میڈیکل اسٹوروں سے غائب ہو چکا ہے۔ ڈینگی سے اب تک پچاس سے زیادہ اموات ہو چکی ہیں، ہسپتالوں میں ہنگامی صورت حال ہے لیکن سہولیات ناپید ہیں
موجودہ حکومت کے پہلے دو سال میں ڈینگی کنٹرول میں رہا، جس کی وجہ ماہرین یہ بتاتے ہیں کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے کاروباری سینٹر بند تھے، جو ڈینگی کے پھیلاؤ کا ایک بڑا ذریعہ ہیں، لیکن جیسے ہی زندگی معمول پر آئی ڈینگی بے قابو ہو گیا۔ ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس سال انتظامیہ نے اس خطرے کو سنجیدگی سے نہیں لیا اور بروقت اقدامات نہیں کیے
ڈینگی کے پھیلاؤ والے علاقوں میں محکمہ صحت کی طرف سے اسپرے کرنے کے بجائے محض ایک اشتہار جاری کرنے پر ہی اکتفا کیا گیا کہ ڈینگی سپرے مضر صحت ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ یہ سپرے لاطینی امریکہ سے مشرق بعید کے ممالک میں کیا جا رہا ہے مگر یہ الہام صرف ہماری حکومت کو ہوا ہے کہ یہ مضر صحت ہے.