کراچی : پاکستانی سمندروں میں پائی جانے والی جیلی فش کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے، جس کی وجہ جاننے کے لیے ماہرین نے تحقیق کی ضرورت پر زور دیا ہے
واضح رہے کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج دنیا بھر میں جیلی فش کا عالمی دن منایا گیا۔ سمندر میں پائی جانے والی یہ آبی مخلوق انسانوں کے لیے مہلک اور جان لیوا ثابت ہو سکتی ہے
دریائے سندھ کے کریک ایریاز جبکہ بلوچستان کے ساحلی مقامات جیونی، گوادر اور کلمت ھور میں کم از کم پندرہ سے بیس اقسام کی جیلی فش رپورٹ ہوچکی ہیں، جن میں سے ایک قسم ڈیڑھ من سے بھی زیادہ وزنی ہے، اس آبی مخلوق کی وجہ سے کئی مرتبہ ماہی گیری کا پہیہ رک چکا ہے
ماہرین کے مطابق جیلی فش قدرتی ماحول کاایک حصہ ہے۔ ابھی تک ان عوامل کا تعین نہیں ہوسکا ہے کہ جیلی فش کی تعداد اچانک کیوں اس حد تک بڑھ جاتی ہے کہ یہ سمندر میں وسیع کالونیاں یا بلوم بنا لیتی ہیں۔ یوں سمندر کا ایک بہت بڑا حصہ ان سے بھر جاتا ہے
ڈبلیو ڈبلیو ایف (پاکستان) کے تیکنیکی مشیر محمد معظم خان کے مطابق پاکستان میں جیلی فش کی پندرہ سے بیس اقسام پائی جاتی ہیں۔ کچھ جیلی فش ایسی ہیں کہ جن کے کانٹوں کی رگڑ سے انسان کی موت واقع ہوجاتی ہے، جبکہ کچھ میں صرف وقتی طور پر شدید تکلیف کا سامنا رہتا ہے، جو بعد میں خود بخود ٹھیک ہوجاتا ہے
انہوں نے بتایا کہ جیلی فش کا ایک بہت بڑی تعداد میں ملنا اس بات کا غماز ہے کہ یہ غیرمعمولی اضافہ کلائمٹ چینج کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ پہلے اتنی بڑی تعداد سمندر میں نہیں دیکھی گئی ۔ پاکستان میں بہت کم عرصے کے دوران لگ بھگ سولہ مرتبہ جیلی فش کے بلوم یا غیرمعمولی افزائش کے واقعات رپورٹ ہوچکے ہیں
معظم خان کے مطابق سن 2003ع اور 2004ع کے درمیان جیلی فش کی تعداد اتنی بڑھ گئی تھی، کہ ماہی گیری ایک سال تک مکمل طور پر بند ہوگئی تھی اور دوسری مرتبہ سن 2018ع میں اس کی بڑھتی تعداد کی وجہ سے ماہی گیری چھ ماہ تک متاثر رہی
یہ تعداد اتنی زیادہ تھی کہ پاکستان کے علاوہ ایران، بھارت، اومان بلکہ یمن تک یہ جیلی فش پھیلی ہوئی تھی
واضح رہے کہ جیلی فش کے نقصان سے قطع نظر اس کا ایک فائدہ بھی بلوچستان کے ساحلی مقامات کے ماہی گیروں کو پہنچتا ہے. دریائے سندھ کے کریک ایریا، بلوچستان کے کلمت کھور، پسنی، جیونی اور گوادر میں اس دوران پائی جانے والی جیلی فش کی دو اقسام ایسی ہیں، جن کو نمک اور پھٹکری سے ٹریٹ کرکے چائنا ایکسپورٹ کیا جاتا ہے
جیلی فش کا عالمی دن منانے کا مقصد یہ ہے کہ اس پر تعلیمی اور دیگر ریسرچ آرگنائزیشن کو کام کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ دنیا پر عذاب کی شکل میں نمودار ہونے والی اس آبی مخلوق کے بڑھنے کی وجوہات کا پتہ چل سکے. کیونکہ یہ بہت زیادہ نقصان کا باعث بھی بنتی ہے،نہ صرف ماہی گیری کا پہیہ رک جاتا ہے، بلکہ پاور پلانٹس بند ہوجاتے ہیں
پاکستان میں اس تحقیق کا ایک اور بھی فائدہ ہے کہ اس سے یہ پتہ چل سکتا ہے کہ جس جیلی فش کی دنیا میں مانگ ہے، وہ اگر پاکستانی سمندروں میں بڑھ جاتی ہے، تو اس کے ایکسپورٹ کے حوالے سے ایک مینجمنٹ پلان بنایا جاسکتا ہے
معظم خان کے مطابق جیلی فش سمندر سے ملنے والے فوڈ چین کا آخری حصہ ہے، جسے عام طورپر آبی مخلوق بھی نہیں کھاتی البتہ کچھووں کی کچھ اقسام کی خوراک جیلی فش ہے
انہوں نے کہا کہ یہ صورتحال اس بات کی بھی عکاس ہے کہ جب بہت بڑے پیمانے پر مچھلی کا شکار کر لیا جاتا ہے، تو آخر میں جیلی فش ہی باقی رہ جاتی ہے، جو کہ ماہی گیری کے لیے تباہ کن ہے
معظم خان نے بتایا کہ دنیا بھر میں جیلی فش کی چار سو سے پانچ سو کے قریب اقسام ملتی ہیں، جو ایک پن ہول سے لے کر انسان سے بھی سو گنا بڑی ہوسکتی ہیں
پاکستان میں جو جیلی فش ملتی ہے، وہ ڈیڑھ من تک وزنی ہوتی ہے، یہ ان دواقسام میں شامل ہے جو بیرون ملک ایکسپورٹ کی جاتی ہے.