کہاوت نمبر 1:
تیل دیکھو، تیل کی دھار دیکھو
مطلب :
اگر کسی بات کا نتیجہ موافق مقصود ظاہر نہ ہو رہا ہو تو کہتے ہیں، یعنی صبر و تحمل سے کام لینا چاہیے۔ اچھے وقت کا انتظار کرنا چاہیے۔
پس منظر :
اس کہاوت کے وجود میں آنے کا سبب ذیل میں دی گئی حکایت ہے:
’’ایک راجا نے اپنے دربار میں چار مشیروں کی تقرری کی۔ ان میں سے ایک سپاہی تھا، دوسرا برہمن تھا، تیسرا اُونٹ والا اور چوتھا تیلی تھا۔ کچھ دنوں کے بعد ایک دوسرے راجا نے اس پر چڑھائی کر دی۔ راجا فکر مند ہوگیا۔ اس نے اپنے چاروں مشیروں کو دربار میں بلوایا اور سب سے الگ الگ رائے مانگی کہ ایسی حالت میں کیا کرنا چاہیے؟ سپاہی نے فوراً جواب دیا، حضور سوچتے کیوں ہیں؟ اس کے خلاف ہمیں لڑنے کے لیے تیار ہوجانا چاہیے۔ اس کے بعد راجا نے برہمن سے دریافت کیا، تو اس نے کہا، مہاراج جس طرح بھی ممکن ہو، معاہدہ کر لینا چاہیے ورنہ خونِ ناحق ہگا۔ تمام اِملا ک تباہ و برباد ہوگی۔ جب راجا نے ساربان (اونٹ والے) سے پوچھا، تو اس نے کہا، اس کے بارے میں، مَیں ابھی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ دیکھیے اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ آخر میں بادشاہ نے تیلی سے پوچھا کہ اس کے متعلق تمہاری کیا رائے ہے؟ تیلی نے کہا، حضور پریشان نہ ہوں۔ قطعی گھبرائیں نہیں۔ تیل دیکھیے تیل کی دھار دیکھیے۔ یعنی جلدی نہ کیجیے۔ خوب سنجیدگی سے غور و فکر کرلیجیے اور سوچ سمجھ کر قدم اٹھائیے۔ تیل لینا ہو، تو برتن میں تیل دیکھ کر ہی پہچان نہیں ہوسکتی۔ اس کی دھار دیکھنے پر ہی اس کو ٹھیک سے پَرکھا جاسکتا ہے۔‘‘
کہاوت نمبر 2 :
چراغ تلے اندھیرا
مطلب :
منصف حاکم کے قرب میں ظلم ہونا، غیروں کو فائدہ پہنچانا اور اپنوں کو محروم رکھنا
پس منظر :
ایک سوداگر اپنا مال لے کر فروخت کرنے کے لیے کسی شہر کی طرف جا رہا تھا۔ بادشاہ کے قلعے کے پاس پہنچتے پہنچتے اُسے رات ہوگئی۔ وہ قلعہ کی دیوار کے کنارے ٹھہر گیا۔ اس کے خیال میں قلعہ سب سے محفوظ مقام تھا۔ رات گزار کر صبح کو شہر کی طرف اُسے روانہ ہونا تھا، جس وقت وہ قلعہ کی دیوار کے کنارے سو رہا تھا، اُسی وقت قزاقوں اس کا سار امال لوٹ لیا۔ صبح ہونے پر وہ بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور فریاد کرنے لگا کہ قزاقوں نے حضور کے قلعہ کے دیوار کے نیچے میرا تمام مال و اسباب لوٹ لیا ہے۔ بادشاہ نے سوداگر سے کہا، تو اپنے مال کے لیے ہوشیار کیوں نہ رہا؟ اس نے کہا، بندے کو معلوم نہ تھا کہ جہاں پناہ کے زیرِ سایہ بھی مسافروں کا مال لوٹا جاتا ہے۔ بادشاہ نے کہا، کیا تو نے جلتا ہوا چراغ نہیں دیکھا کہ ’’چراغ تلے اندھیرا ہوتا ہے۔‘‘
کہاوت نمبر 3:
یک نہ شُد دو شُد
مطلب:
ایک بلا تو تھی ہی دوسری اور پیچھے پڑ ی۔ ایک مصیبت کے ساتھ دوسری مصیبت آگئی۔ ایک امرِ عجیب کے بعد دوسرے امرِ عجیب کے ظاہر ہونے کے عمل پر بولتے ہیں۔ جب کسی شخص پر ایک عیب لگے اور وہ اس کی صفائی نہ دے پائے اور صفائی دینے کی کوشش میں دوسرا الزام اس کے سر آجائے، تو بھی اس کہاوت کا استعمال کرتے ہیں
پس منظر :
اس کہاوت کے پس منظر میں معمولی فرق کے ساتھ کئی لوک کہانیاں مشہور ہیں جن میں سے ایک حسبِ ذیل ہے: ’’کہا جاتا ہے کہ کوئی شخص اس بات کا عامل تھا کہ مردے کو اپنے فسوں اور منترکے وسیلے سے جگا کر اس کے گھر کا تمام حال پوچھ کر اس کے گھر والوں کو بتا دیا کرتا تھا، یعنی جو بات اس کے خاندان والوں کو اس سے دریافت کرنی ہوتی تھی، یہ ہم زاد کے وسیلے سے پوچھ دیا کرتا تھا۔ جب یہ شخص مرنے لگا، تو اس نے اپنے ایک شاگرد کو یہ عمل بتا دیا۔ شاگرد نے بطورِ آزمائش قبرستان میں جاکر ایک مردے کو جگایا، مگر پھر قبر میں داخل کرنے کا منتر بھول گیا۔ تب ناچار ہو کر اس نے اپنے استاد کو منتر کے وسیلے سے جگایا کہ وہ اسے قبر میں داخل کرنے کا منتر دوبارہ بتادیں گے۔ اس طرح اس بلا سے پیچھا چھوٹے گا، مگر ہوا یہ کہ استاد بھی اس عالم میں کچھ نہ بتاسکے۔ پہلے تو ایک مردہ ساتھ تھا، اب دو مردے ساتھ ہوگئے۔ اُس وقت اُس نے گھبرا کے یہ کلمہ کہا کہ ’’یک نہ شُد دو شُد۔‘‘
ڈاکٹر شریف احمد قریشی کی تصنیف ’’کہاوتیں اور ان کا حکایتی و تلمیحی پس منظر‘‘ سے ماخوذ