نوبیل انعام یافتہ خاتون سائنسدان، جن کی نوٹ بکس کو چھونےسے انسان مر سکتا ہے

ویب ڈیسک

پیرس : فرانس کی قومی لائبریری میں سیسے کی کئی تہوں سے بنے ہوئے خصوصی ڈبوں میں سائنسی تاریخ کی اہم ترین دستاویزات محفوظ رکھی گئی ہیں۔

اگر کوئی سائنسدان ان دستاویزات سے استفادہ کرنا چاہے، تو اسے نہ صرف خلابازوں کی طرح کے بھاری بھرکم حفاظتی سوٹ پہننا پڑتا ہے بلکہ اس سے پہلے اُسے ایک خصوصی دستاویز پر دستخط بھی کرنے پڑتے ہیں، جس میں لکھا ہے کہ اگر اُنہیں کچھ ہو گیا، تو اس کی ذمہ داری لائبریری پر نہیں ہوگی

اس لائبریری میں دنیا کی قدیم ترین اور نایاب ترین کتابیں موجود ہیں، جن میں سب سے زیادہ محفوظ طریقے سے ان دستاویزات کو رکھا گیا ہے

یہ سارے حفاظتی انتظامات صرف دستاویزات کی سائنسی اہمیت کی وجہ سے نہیں ہیں، بلکہ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ کاغذات انتہائی تابکار مادے سے آلودہ اور انسانی زندگی کے لیے خطرناک ہیں

یہ دو مرتبہ نوبیل انعام جیتنے والی واحد خاتون، میری کیوری کی نوٹ بکس ہیں، جنہوں نے اپنے شوہر پیغ کے ساتھ مل کر نہ صرف نئے کیمیائی عناصر دریافت کیے، بلکہ اٹامک فزکس اور تابکاری کے قدرتی اُصولوں سے بھی پردہ اٹھایا

اس جوڑے کے قریب جو بھی چیزیں تھیں، ان سب کی طرح یہ دستاویزات بھی انسانوں کے لیے شدید نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہیں

میری کیوری اور ان کے شوہر نے ریڈیئم اور پولونیئم دریافت کیا تھا۔ یہ نام پولینڈ کے نام پر جہاں سات نومبر 1867 کو میری کی پیدائش ہوئی تھی رکھا گیا تھا۔ مگر سائنسدانوں کو اس وقت تک یہ بالکل بھی علم نہیں تھا کہ تابکاری کے انسانی جسم پر کیا منفی اثرات ہو سکتے ہیں

میری کیوری سنہ 1934ع میں اے پلاسٹک اینیمیا نامی بیماری کی وجہ سے انتقال کر گئی تھیں، جو ممکنہ طور پر ریڈیئم اور پولونیئم سے باقاعدگی سے رابطے میں رہنے کی وجہ سے اُنھیں لاحق ہوئی۔ میری کیوری اکثر اپنی جیبوں میں یہ مواد لیے گھومتی تھیں

یہی وجہ ہے کہ ان سے منسلک ہر چیز، جو اب بھی سلامت باقی رہ گئی ہے، اسے انتہائی احتیاط سے سیسے کے ڈبوں میں رکھا جاتا ہے، یہاں تک کہ اُن کی اپنی لاش بھی، جو پیرس کے مشہور افراد کے لیے مختص قبرستان ’پینتھیونز آف پیرس‘ میں ہے۔ میری کیوری اس قبرستان میں دفن ہونے والی پہلی خاتون تھیں

جب اُن کی میت کو وہاں لے جایا گیا تو سیسے کا ایک انچ موٹا تابوت بنایا گیا تاکہ ’جدید فزکس کی ماں‘ کے جسم سے نکلنے والی تابکاری کو ماحول آلودہ کرنے سے روکا جا سکے

سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ یہ ہمیشہ ایسا ہی رہے گا، اور نوٹ بکس بھی کم از کم اگلے پندرہ سو سالوں تک غیر محفوظ رہیں گی، کیونکہ میری کیوری کے دریافت کیے گئے اور دنیا کو بدل دینے والے عنصر ریڈیئم کے اثرات کو ختم ہونے میں اتنا ہی وقت لگتا ہے.

اسی طرح پیرس کے جنوب میں ایک رہائشی علاقے میں ایک ایسی تین منزلہ عمارت واقع ہے، جس میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے

لوگوں کو داخل ہونے سے روکنے کے لیے اس کے گرد خاردار تاروں سے بھری ہوئی ایک بلند حفاظتی دیوار بنائی گئی ہے. اس کے علاوہ چاروں طرف نظر رکھنے کے لیے کیمرے بھی نصب ہیں. جبکہ حکومت وقتاً فوقتاً عجیب و غریب آلات کے ذریعے ماحول کا جائزہ لیتی رہتی ہے

یہ وہ آخری تجربہ گاہ ہے، جہاں میری کیوری نے سنہ 1934 تک کام کیا، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اب یہ خالی ہے

میری کیوری نے یہاں جو سائنسی تجربات کیے، ان کے باعث یہ جگہ خطرناک تابکاری سے آلودہ بتائی جاتی ہے. یہ تابکاری اگلی کئی صدیوں تک اس جگہ کو زندگی کے لیے غیر محفوظ بنائے رکھے گی

جب میری کیوری کی وفات کے کئی برس بعد یہاں تابکاری کی بلند سطح پائی گئی، تو اسے ’دریائے سایین کا چرنوبل‘ قرار دیا گیا تھا۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ یہاں پر تابکاری پائے جانے سے قبل میری کیوری کو خراجِ تحسین پیش کرنے کی خاطر یہ جگہ انسٹیٹیوٹ آف نیوکلیئر فزکس کے ہیڈکوارٹرز اور پیرس یونیورسٹی کی فیکلٹی آف سائنس کے دفتر کے طور پر استعمال ہوتی رہی

بعد میں پتہ چلا کہ تابکاری اس گھر کی دیواروں، قالینوں، فرش، چھتوں اور وال پیپرز تک میں موجود ہے اور اس کی سطح انسانوں کے لیے غیر محفوظ حد تک بلند ہے

میری کیوری نے اسی جگہ پر اپنی زندگی کے آخر تک کسی حفاظتی اقدام کے بغیر دنیا کے سب سے خطرناک مادوں مثلاً تھوریئم، یورینیئم اور پولونیئم وغیرہ پر کام کیا تھا

میری نے اپنی سوانح حیات میں لکھا کہ اُنہیں رات کے وقت ان مادوں سے نکلتے ہوئے سبز اور نیلے رنگ کے جھماکوں کو دیکھنے میں بہت مزہ آتا تھا

ان تابکار مادوں پر کام کرتے ہوئے وہ ان کے بارے میں اپنی نوٹ بکس میں لکھتیں اور خاکے بناتیں، اور یوں یہ سب چیزیں تابکار مادوں سے آلودہ ہو گئیں

امریکا وہ پہلا ملک تھا، جس نے اُن کے انتقال کر جانے کے کئی سال بعد سنہ 1938ع میں ان مادوں کے کمرشل استعمال پر پابندی عائد کی، جس کے بعد دوسرے ممالک نے بھی امریکا کی پیروی کی

اس پابندی سے کئی صنعتوں کو نقصان پہنچا، کیونکہ میری کیوری کی دریافتوں اور اُنہیں ملنے والے ایوارڈز کے بعد تابکار مادے اتنے مقبول ہو گئے تھے کہ اُنھیں چہرے کی کریمز، اُسترے اور یہاں تک کہ زیر جامہ بنانے کے لیے بھی استعمال کیا جانے لگا۔ خیال کیا جاتا تھا کہ یہ مادے بال گرنا روک سکتے ہیں اور مردانہ بانجھ پن کا علاج کر سکتے ہیں

اسّی کے عشرے تک اُن کی لیبارٹری خالی نہیں کروائی گئی تھی، لیکن اس وقت کی میڈیا رپورٹس کے مطابق متعدد پڑوسیوں کی طرف سے اپنے علاقے میں کینسر کے بڑھتے کیسز کی شکایات سامنے آئی تھیں

ایک جائزے میں نہ صرف ریڈیئم بلکہ یورینیئم کے بھی ذرات پائے گئے، جنھیں بکھر کر نصف ہونے میں ساڑھے چار ارب سال لگتے ہیں

اس کے بعد قومی ورثہ تصور کی جانے والی میری کیوری کی اشیاء کو قومی لائبریری منتقل کر دیا گیا، جس میں اُن کی نوٹ بکس بھی شامل تھیں

نوّے کے عشرے میں اُن کی لیبارٹری کی ایک مرتبہ پھر گہرائی سے صفائی کی گئی، لیکن اب بھی فرانسیسی حکام نے یہاں داخلے پر پابندی عائد کر رکھی ہے اور وقتاً فوقتاً آس پاس کے علاقوں بشمول دریا میں تابکاری کی سطح کا جائزہ لیا جاتا ہے

ایک اندازے کے مطابق فرانس اب تک اس جگہ کی صفائی پر ایک کروڑ ڈالر خرچ کر چکا ہے اور جب آنے والے برسوں میں یہ جگہ منہدم ہو جائے گی، تو اس پر مزید اخراجات متوقع ہیں

تاہم یہ نوٹ بکس اگلے پندرہ سو سال سے بھی زیادہ عرصے تک اسی طرح سیسے کے صندوقوں میں بند رہیں گی، اس اُمید کہ ساتھ کہ مستقبل کے انسان بغیر کسی حفاظتی سوٹ کے انسانی تاریخ کی ذہین ترین خاتون کی نوٹ بکس اپنے ہاتھوں میں لے سکیں گے.

بشکریہ بی بی سی اردو

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close