جہاں دیدہ (روسی ادب سے منتخب افسانہ)

انتون چیخوف (مترجم: افشاں نور)

ڈیڈوِل اسٹیشن پہنچتے ہی سروے افسر گلیب سمرنوف نے دیکھا کہ وہ فارم، جس کا اس نے جائزہ لینا تھا، ابھی بھی تیس یا چالیس میل کی دوری پر تھا۔ اگر کوچوان نے پی ہوئی نہ ہو اور گھوڑے چاق و چوبند ہوں تو فاصلہ تیس میل سے کم ہوگا، مخمور گاڑی بان اور پرانی نعلوں والے گھوڑوں کے ساتھ یہی سفر پچاس میل کے قریب ہو سکتا ہے۔

”کیا آپ بتا سکتے ہیں مجھے ڈاک گھوڑے کہاں سے مل سکتے ہیں؟“ سروے افسر نے اسٹیشن ماسٹر سے پوچھا

”کیا؟ ڈاک گھوڑے؟ آپ کو یہاں سے سو میل کے اندر اندر کوئی آوارہ کتا بھی نہیں ملے گا۔۔ آپ کو جانا کہاں ہے؟“

”ڈَیوکِینو۔ جنرل ہوہیٹوف کے فارم پر۔“

”اچھا“ اسٹیشن ماسٹر نے جماہی لیتے ہوئے کہا، ”ایسا کریں۔۔ اسٹیشن کی پچھلی طرف چلے جائیے، وہاں کچھ کسان ہیں جو کبھی کبھی مسافروں کو لے جاتے ہیں۔“

سروے افسر نے گہری سانس لی اور تھکے قدموں اسٹیشن کی پچھلی جانب چل دیا۔ ایک لمبی تلاش، بہت سے جھگڑے اور سر کھپانے کے بعد بالآخر اس نے ایک بھاری بھرکم، تنومند اور بدمزاج کسان کو راضی کر لیا، جس کا چہرہ داغوں بھرا تھا اور اس نے سرمئی رنگ کا ایک خستہ حال کوٹ اور تنکے کے جوتے پہن رکھے تھے۔

”کیسی گھٹیا گاڑی ہے تمہاری۔۔ کچھ پتہ نہیں چلتا کون سا اگلا حصہ ہے، کون سا پچھلا“ سروے افسر اوپر چڑھتے ہوئے بڑبڑایا

”نہیں پتہ چل رہا؟ گھوڑے کی دم اگلے حصے میں ہے اور جہاں آپ جناب بیٹھے ہیں، وہ پچھلا حصہ ہے“

خچر جوان مگر لاغر تھا، جس کی ٹانگیں بے ڈھنگے انداز میں پھیلی ہوئی اور کان پھٹے ہوئے اور خستہ تھے۔ جب کوچوان کھڑا ہوا اور اپنے ہنٹر سے اسے مارا، اس نے محض اپنا سر ہلایا۔ جب اس نے اسے خوب جھڑکا اور اسے دوسری مرتبہ مارا تو گاڑی گویا کراہی اور یوں کپکپائی جیسے تیز بخار میں مبتلا ہو۔ تیسری ضرب پر گاڑی لرز اٹھی اور چوتھی ضرب پر سست روی سے چل پڑی۔

”کیا یہ سارا راستہ ایسے ہی چلے گی؟“ سروے افسر نے پوچھا۔ وہ شدید غصے سے لرز رہا تھا اور روسی گاڑی بانوں کے کچھوے کی چال اور روح فرسا دھکوں کے ساتھ گاڑی چلانے کی صلاحیت پر حیران ہو رہا تھا۔

”ہم وہاں پہنچ جائیں گے۔۔“ گاڑی بان نے اسے تسلی دی، ”گھوڑی جوان اور پھرتیلی ہے، ایک بار اسے شروع ہونے دیں پھر یہ نہیں رکے گی۔۔۔اٹھو کمبخت!“

وہ شام کے دھندلکے میں اسٹیشن سے نکلے۔ دائیں طرف ایک ٹھنڈا اور تاریک میدان پھیلا ہوا تھا، جو اتنا لامحدود اور وسیع تھا کہ اگر آپ اس سے گزریں تو یقیناً آپ کہیں نہیں پہنچیں گے۔ موسمِ خزاں کا ٹھنڈا سورج غروب ہوتے ہوئے آہستگی سے جلا، جہاں اس کا کنارہ آسمان میں پگھل گیا۔ بائیں جانب مدہم ہوتی روشنی میں کچھ چھوٹے ٹیلے ابھرے، جو یا تو درخت تھے یا پچھلے برس کے گھاس کے گٹھے۔ سروے افسر نہ دیکھ سکا کہ آگے کیا تھا کیونکہ یہاں تمام منظر گاڑی بان کی چوڑی، بے ڈھنگی پیٹھ سے چھپ گیا تھا۔ ہوا ساکت مگر کہر آلود اور سرد تھی۔

’کیسی ویرانی ہے۔۔‘ سروے افسر نے اپنے کانوں کو اپنے کوٹ کے کالر سے چھپاتے ہوئے سوچا, ’نہ کوئی جھونپڑا نہ گھر۔۔ اگر یہاں ہم پر حملہ ہو جائے اور ہم لوٹ لیے جائیں تو کسی ذی روح کو پتا نہ چلے گا۔۔ حتیٰ کہ ہم توپ بھی چلا دیں۔ اور گاڑی بان قابلِ بھروسہ نہیں ہے۔ کیسی شیطانی پیٹھ ہے۔ اس کی ناک بد صورت ہے ایک جنگلی جانور کی طرح۔۔۔‘

”ادھر دیکھو دوست! تمہارا نام کیا ہے؟“ سروے افسر نے پوچھا

”میرا نام؟ کلِم۔“

”اچھا کلِم، اس جگہ کے متعلق کیا خیال ہے۔۔ کیا یہ خطرناک نہیں ہے؟ کیا یہاں کوئی برا مذاق نہیں کرتا؟“

”اوہ، خدا ہماری حفاظت کرے۔۔ نہیں، یہاں کون برے مذاق کرے گا؟“

”ٹھیک ہے لیکن ایسی کسی صورت میں میرے پاس تین ریوالور ہیں۔۔ اور تم جانتے ہو ریوالور سے چھیڑ چھاڑ کوئی مذاق نہیں۔ ایک ریوالور دس ڈاکوؤں کا مقابلہ کر سکتا ہے۔“ سروے افسر نے کہا

رات ہوگئی تھی، اچانک گاڑی چرچرائی، لرزی اور بائیں جانب یوں مڑ گئی، جیسے اپنی مرضی سے نہ مڑی ہو۔

’یہ مجھے اب کہاں لیے جا رہا ہے؟‘ سروے افسر نے سوچا، ’یہ سیدھا سامنے جا رہا تھا اور اب یہ اچانک بائیں جانب مڑ گیا ہے۔۔ مجھے لگتا ہے یہ بدمعاش مجھے کسی ویران جھاڑی تک لے جا رہا ہے اور پہلے ہی ہر چیز کی منصوبہ بندی ہو چکی ہے۔‘

”سنو!“ اس نے گاڑی بان سے کہا، ”تو تم کہتے ہو کہ یہاں کوئی خطرہ نہیں؟ اچھا۔۔ افسوس کی بات ہے۔ مجھے ڈاکوؤں سے لڑائی بہت پسند ہے۔ میں دیکھنے میں پستہ اور بیمار لگتا ہوں لیکن میرے اندر بیل کی سی طاقت ہے۔ ایک مرتبہ تین ڈاکوؤں نے مجھ پر حملہ کر دیا اور تمہیں پتہ ہے، میں نے ان میں اسے ایک کو ایسے جھٹکا کہ وہ مر گیا۔ باقی دو کو میں نے سخت مشقت کے لئے سائبیریا بھیج دیا۔ مجھے خود سمجھ نہیں آتا کہ میری ساری طاقت آتی کہاں سے ہے۔۔ میں تمہارے جیسے ایک بڑے بدمعاش کو ہاتھ میں لے کر اس کی کھال اتار سکتا ہوں۔“

کلِم نے سر گھما کر سروے افسر کو دیکھا، اس کے چہرے کو دیکھ کر پلکیں جھپکائیں اور اپنے خچر کو ایک دھچکا دیا۔

”ہاں میرے دوست“ سروے افسر نے بات جاری رکھی، ”خدا اس ڈاکو کی مدد کرے جو میرے ہاتھ لگے، نہ صرف وہ اپنے ہاتھ پاؤں تڑوا بیٹھے گا بلکہ اسے عدالت میں اپنے جرائم کا جواب بھی دینا پڑے گا، جہاں تمام جج اور وکیل میرے دوست ہیں۔۔ میں ایک سرکاری افسر ہوں اور بہت اہم ہوں۔ جب میں اس طرح سفر کرتا ہوں تو حکومت جانتی ہے اور مجھ پہ نظر رکھتی ہے تاکہ کوئی مجھے نقصان نہ پہنچائے۔۔ سڑک کے ساتھ ساتھ پولیس اہلکاروں اور پولیس افسران جگہ جھاڑیوں میں چھپے ہوتے ہیں۔“

”رکو! رکو!“ اچانک سروے افسر چلایا، ”تم کہاں جا رہے ہو؟ تم مجھے کہاں لے جا رہے ہو؟“

”تم دیکھ نہیں سکتے؟ جنگل میں۔“

’تو وہ مجھے لے جا رہا ہے۔۔‘ سروے افسر نے سوچا، ’میں خوفزدہ تھا۔ مجھے اپنے احساسات ظاہر نہیں کرنے چاہئے تھے۔ وہ پہلے ہی دیکھ چکا تھا کہ میں اس سے خوفزدہ ہوں۔ وہ بار بار میری طرف کیوں دیکھتا ہے؟ وہ یقیناً کچھ سوچ رہا ہے۔ پہلے ہم بمشکل چل رہے تھے اور اب ہم اڑ رہے ہیں۔‘

”سنو کلِم! تم اپنے گھوڑے کو اتنی جلدی میں کیوں بھگا رہے ہو؟“

”میں جلدی نہیں کر رہا، وہ (گھوڑی) خود اپنی مرضی سے بھاگ رہی ہے۔ ایک بار جب یہ بھاگنا شروع کر دیتی ہے تو کوئی اسے نہیں روک سکتا۔ اسے خود ہی افسوس ہے کہ اس کی ٹانگیں اس طرح بنی ہیں۔“

”یہ جھوٹ ہے میرے دوست، میں دیکھ سکتا ہوں یہ جھوٹ ہے۔ میرا مشورہ ہے اتنی تیز مت چلو۔ اپنے گھوڑے کو قابو میں رکھو۔ کیا تم سن رہے ہو۔۔ اسے پکڑ کے رکھو۔“

”کیوں؟“

”کیونکہ، کیونکہ میرے چار دوست اسٹیشن سے ہیں اور میں چاہتا ہوں وہ بھی آن ملیں۔ انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ وہ اس جنگل میں مجھ سے آ ملیں گے۔ ان کے ساتھ سفر کرنا اور بھی خوشگوار ہوگا۔ وہ بڑے لحیم شحیم اور مضبوط ہیں، ان میں سے ہر ایک کے پاس ایک ریوالور ہے۔ تم ادھر ادھر کیوں دیکھتے ہو اور ایسے کیوں اچھلتے ہو، جیسے کسی کیل پر بیٹھے ہو؟ سنو! ادھر دیکھو۔ مجھ میں دیکھنے کے قابل ایسا کچھ نہیں ہے۔ مجھ میں کچھ بھی ایسا دلچسپ نہیں سوائے میرے ریوالوروں کے۔ اگر تم یہ دیکھنا چاہتے ہو تو میں تمہیں باہر نکال کر دکھاؤں گا، مجھے پہنچنے دو۔“

سروے افسر نے یوں ظاہر کیا جیسے وہ اپنی جیبیں کھنگال رہا ہو اور اسی وقت کچھ ہوا، جس کی اس کے شدید ترین خوف نے بھی توقع نہیں کی تھی۔ کلِم نے خود کو گاڑی سے گرایا اور چاروں ہاتھوں پیروں پر جنگل کے راستے بھاگ کھڑا ہوا۔

”مدد کرو“ وہ چلایا، ”مدد کرو، میرا گھوڑا لے لو، میری گاڑی لے لو، ملعون بس میری جان بخش دو، مدد کرو“

اس کے تیز تیز چلتے قدموں کی آواز نے دم توڑ دیا۔ خشک پتے سرسرائے۔ ہر طرف خاموشی تھی۔ جب یہ غیر متوقع بات اس کی سمجھ میں آئی تو سروے افسر نے سب سے پہلے گھوڑے کو روکا، پھر اس نے زیادہ آرام سے گاڑی میں اپنی جگہ بنائی اور سوچنے لگا۔ ’تو وہ خوفزدہ ہو کر بھاگ کھڑا ہوا، احمق! خیر، اب میں کیا کروں گا۔ مجھے راستہ نہیں معلوم، اس لیے میں اکیلا نہیں جا سکتا اور اگر کسی طور میں ایسا کروں تو یوں لگے گا کہ میں نے اس کا گھوڑا چرایا ہے۔ مجھے کیا کرنا چاہیے۔‘

”کلِم! کلِم۔۔۔!“ اس کی آواز گونجی

تمام رات تاریک جنگل میں گزارنے، بھیڑیوں کی آواز، گونج اور دبلے پتلے خچر کے خراٹے سننے کے خیال پر ہی سروے کار کو اپنے رونگٹھے کھڑے ہوتے ہوئے محسوس ہوئے۔

”کلِم!“ وہ چلّایا، ”پیارے، بوڑھے کلِم، اچھے کلِم تم کہاں ہو؟“

دو گھنٹے تک وہ پکارتا رہا اور جب اس کی آواز بند ہو گئی اور اس نے اپنے آپ کو جنگل میں ایک رات گزارنے کے خیال کے سپرد کر دیا تو ہلکی ہوا چلنے سے اسے ایک کراہ سنائی دی۔

”بوڑھے کلِم! کیا یہ تم ہو؟ آؤ کلِم چلو چلیں۔“

”تم مجھے مار دو گے۔۔۔“

”کیوں؟ کلِم میں تو مذاق کر رہا تھا۔۔ دوست یقین کرو، میں مذاق کر رہا تھا۔۔ میں نے تصور کیا کہ میرے ریوالور میرے پاس ہیں۔ میں نے جھوٹ بولا کیونکہ میں خوفزدہ تھا۔ چلو اب چلیں میں سردی سے جم گیا ہوں۔“

کلِم یہ سوچتے ہوئے کہ اگر یہ واقعی ڈاکو ہوتا تو بہت پہلے کا گھوڑا اور گاڑی لے کر جا چکا ہوتا، جنگل سے باہر نکلا اور احتیاط سے مسافر کے پاس پہنچا۔

”تم کس بات سے خوفزدہ تھے احمق؟ میں صرف مذاق کر رہا تھا اور تم مجھ سے خوفزدہ ہو۔ چلو چڑھو۔“

”جناب!“ کلِم بڑبڑایا اور گاڑی پر چڑھتے ہوئے بولا، ”اگر مجھے یہ پہلے پتہ ہوتا تو میں سو روبل(روسی کرنسی) میں بھی آپ کو نہ بٹھاتا۔ آپ نے تو مجھے مرنے کے قریب ڈرا دیا۔“

کلِم نے اپنے خچر کو پیٹا اور گاڑی کپکپائی۔ کلِم نے دوبارہ اسے پیٹا تو گاڑی لرز اٹھی۔ چوتھی ضرب پر جیسے ہی گاڑی سست رفتاری سے چلی، سروے افسر نے اپنے کوٹ کا کالر کھینچ کر کانوں پر کر لیا اور کسی سوچ میں گم ہو گیا۔ اب نہ تو کلِم خطرناک دکھائی دے رہا تھا نہ سڑک۔۔

English Title: Overseasoned
Written by :
Anton Chekhov

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close