جام کمال! ان ماؤں کو دیکھو…

محمد خان داؤد

مسافر مائیں
تھکی ماندی مائیں
التجائیں کرتی مائیں
زخمی پیروں اور میلی مانگ والی مائیں
شکستہ پرچموں جیسی مائیں
سر پیٹتی، ماتم کرتی مائیں
سیاست سے نابلد مائیں
لکھے منشور سے نا واقف مائیں
جھولتے پرچم کے رنگوں سے عاری مائیں
بے سمجھ مائیں
معصوم مائیں!
میں چاہتا ہوں، کہ ان ماؤں کا ایسا مرثیہ لکھوں، جسے کوئی بھی پڑھے تو اس کی آنکھیں ایک بار ضرور آبدیدہ ہو جائیں.. ایک بار آنکھیں ضرور تر ہوائیں.. ایک بار ضرور نین بھیگیں، کیوں کہ مائیں بس مائیں ہو تی ہیں۔ مائیں کوئی سیاسی پارٹی نہیں ہو تیں.. مائیں کوئی لکھا سیاسی منشور نہیں ہوتیں.. مائیں کوئی جھولتا رنگ برنگی سیا سی پارٹی کا پرچم نہیں ہوتیں۔.
ماں تو بس ماں ہو تی ہے،
چاہے وہ اختر مینگل کی ہو چاہے جام کمال کی،
چاہے ذوالفقار علی بھٹو کی، چاہے ان گمشدہ وجودوں کی جو پھر لوٹ کر گھر نہیں آئے۔

جام کمال بلوچستان کے وزیر اعلیٰ ہیں، پر اس میں اتنی بھی عقل نہیں، جتنی عقل اسلم رئیسانی میں ہوا کرتی تھی.. اسلم رئیسانی تو کبھی کبھی کوئی مسخرہ پن کرتے تھے، جس میں سیاست میں ایک ٹھنڈی ٹھنڈی موسیقی پیدا ہو جایا کرتی تھی.. پر جام کمال میں تو اتنا بھی ظرف نہیں! یہ تو بس دکھ دینے آیا ہے بلوچستان کو اور ان ماؤں کو جن کے پیارے کئی سالوں سے گم ہیں اور وہ مائیں مسافر بنی ہوئی ہیں۔ ان ماؤں کے پیر کوئٹہ کی وادی سے لے کر کراچی کی شاہراؤں پر چلے ہیں۔ اگر کوئٹہ کی وادی اور شہر کے راستے گواہ نہیں، تو وہ پیر ضرور گواہی دیں گے کہ وہ اتنے سارے سالوں میں کتنا چلیں ہیں اور کہاں کہاں تک گئی ہیں!؟
لیکن موصوف بلوچستان کا وزیر اعلیٰ، ان ماؤں کا تمسخر اُڑا کر کہتا ہے کہ
"مسنگ پرسن کی کوئی پارٹی ہی نہیں اور جو لوگ تھے وہ بھی اب غائب ہیں!”
اب کوئی جام کمال سے یہ نہیں پوچھتا کہ مسنگ پرسن کی تو کوئی سیا سی پارٹی نہیں جس کا جہاں جہاں سے کوئی پیارا اُٹھایا گیا ہے، اس گھر سے ہی کوئی ماں، بیٹی، محبوبہ یا بہن اپنے بیٹے، بابا، شوہر یا بھائی کی تصویر لیے مسافر بنی ہے!
پھر ان کے ہاتھوں میں ایک عدد تصویر ہو تی ہے جس پر گم شدہ کا نام لکھا ہوتا ہے
اور سفر ہوتا ہے جو بنا منزل کے ان کا مقدر بنتا ہے اور کیا ہوتا ہے ان کے پاس!؟
جام کمال! تم تو سیاسی انجنیئرنگ کا کمال ہو،
لیکن سنو…جب تمہارا ابا بلوچستان پر قابض تھا، یہ مائیں، یہ بہنیں یہ بیٹیاں تو تب سے مسافر بنی ہوئی ہیں..

ہاں، تم تو واقف نہیں، کیوں کہ تم تو سیاست کی بے بی ٹیوب سے وجود میں آئے ہو، پر جو تمہارے اسٹاف کے لوگ ہیں، تم ان سے جان سکتے ہو اور نام بھی پوچھ سکتے ہو کہ یہ مائیں کب سے مسافر بنی ہوئی ہیں اور ان کی منزل ہے کہ پاس آتی ہی نہیں

جب تم اپنے اسٹاف افسر سے پوچھو گے کہ یہ گمشدگی کا کیا معاملہ ہے اور وہ کون لوگ ہیں جو زمانے سے مسافر بنے ہوئے ہیں تو اسٹاف افسر تم کو نام گنائے گا
فرزانہ مجید، علی حیدر، سمی بلوچ، مہلب بلوچ اور وہ ماں جو گیارہ سالوں سے اپنے گھر کو نہیں گئی، جس کے ہاتھوں میں تھامی تصویر بھی مٹ چکی ہے۔ اب تو بس اس تصویر میں نام رہ گیا ہے
"ذاکر مجید!”

جام کمال! تم کچھ بھی نہیں جانتے یا جان بوجھ کر ان مسافر ماؤں کے زخموں پر نمک چھڑک رہے ہو
یا تو تم بلوچ نہیں ہو یا تو تم دھرتی کے حلالی فرزند نہیں ہو
یا تو تمہیں دھرتی سے عشق نہیں ہے یا تو تم درد سے نابلند ہو
یا تو پھر تم ان مسافر ماؤں، مسافر بہنوں اور مسافر محبوباؤں کا مذاق اُڑا رہے ہو، جو رات کو سو ہی نہیں پاتیں اور اگر ان کی آنکھ لگ بھی جاتی ہے تو وہ معمولی سی آہٹ سے بھی جاگ جاتی ہیں، انہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ و ہ آگئے پر جب اُٹھ کر دیکھتی ہیں تو کوئی نہیں ہوتا
وہ مائیں جو درد میں روتی ہیں
وہ مائیں جو مسافر ہیں
وہ مائیں جن کے پیر درد سے چور ہیں
وہ مائیں جن کے بال اُجڑے اُجڑے ہیں
وہ مائیں جن کی مانگ میلی ہو چکی ہے
وہ مائیں جن کے ہاتھوں میں مٹتی تصویریں ہیں
وہ مائیں جو اس درد میں اپنے گھر کا پتا بھول بیٹھی ہیں!
وہ مائیں جنہیں اب اپنے گمشدہ پیاروں کے نقش بھی یاد نہیں
وہ تو بس اس نام کو روتی ہیں جو نام ان کے بچوں کے تھے
جئیند! حمل! دین محمد، ذاکر مجید….
وہ مائیں تو اب بلھے شاہ کی یہ بات بن بیٹھی ہیں کہ
"بُلیا کی جانے میں کون!”
واقعی وہ مائیں کون ہیں؟
وہ مائیں درد کی الجھی لکیریں ہیں
وہ مائیں بے سود سفر ہیں
وہ مائیں عظیم سانحہ ہیں
وہ مائیں کبھی نہ مثنے والا دُکھ ہیں
وہ مائیں کبھی نہ بھرنے والا زخم ہیں
وہ مائیں! ماتم ہیں
وہ مائیں یادیں ہیں
وہ مائیں گھر کا پتا بھول جانے والی دیوانی ہیں
وہ مائیں درد کا طویل سفر ہیں
وہ مائیں اپنوں کا پتا پوچھتی فقیر ہیں
وہ مائیں بے قصور ہیں
وہ درد کو برداشت کرتا دل ہیں
وہ سیاسی پارٹی کا پرچم نہیں
وہ سیا سی پارٹی کا لکھا منشور نہیں
وہ بس مائیں ہیں
بس مائیں!
جام کمال! گمشدہ انسانوں کی کوئی سیاسی پارٹی نہیں ہوتی، ان کے لیے درد لیے بہت سا سفر کرتی بس مائیں ہوتی ہیں..
جام کمال! ان ماؤں کو دیکھو!
مسافر مائیں
تھکی ماندی مائیں
التجائیں کرتیں مائیں
زخمی پیروں اور میلی مانگ والی مائیں
شکستہ پرچموں جیسی مائیں
سر پیٹتی، ماتم کرتی مائیں
سیاست سے نابلد مائیں
لکھے منشور سے نا واقف مائیں
جھولتے پرچم کے رنگوں سے عاری مائیں
بے سمجھ مائیں
معصوم مائیں!

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close