نسل انسانی تباہی کے دھانے پر، کیا انسان ڈائنوسار کی طرح معدوم ہو جائے گا؟

نیوز ڈیسک

کراچی – ماہرین نے نسل انسانی کی معدومیت کے خطرے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اپنے فطری مسکن اور ماحول سے دوری، کم جینیاتی تغیرات اور اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت میں کمی نے نسل انسانی کو تباہی کے دھانے کھڑا کر دیا ہے

ماہرین کا کہنا ہے کہ جب مسکن اس قدر خراب ہوکہ گھومنے پھرنے کے وسائل کم ہوں۔ جب اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت کم ہو جائے، جب شرح پیدائش شرح اموات سے نیچے گر جائے اور جب جینیاتی وسائل محدود ہوں تو واحد نتیجہ زوال ہے اور معدومیت ہے

امریکی سائنسی جریدے ”سائنٹیفک امریکن“ کے مطابق امریکاکی اسٹینفورڈ یونیورسٹی کے ماہر حیاتیات پال ایرلچ کی 1968 میں ”دی پاپولیشن بم“ نامی کتاب شائع ہوئی تھی، اس سال دنیا کی آبادی میں اضافے کی شرح 2 فیصد سے زیادہ تھی جو کہ تاریخ میں سب سے زیادہ تھی۔اس کے نصف صدی بعد، جوہری تباہی کا خطرہ اہمیت کھو چکا

جہاں تک زیادہ آبادی کا تعلق ہے، 1968ع کے مقابلے میں اس وقت کرہ ارض پر دگنا لوگ زیادہ آرام اور خوشحالی کے ساتھ بستے ہیں، آبادی اب بھی بڑھ رہی ہے، لیکن اضافے کی شرح 1968ع سے نصف رہ گئی ہے۔ موجودہ آبادی کی پیشین گوئیاں مختلف ہیں

لیکن عمومی اتفاق رائے یہ ہے کہ یہ وسط صدی میں سب سے اوپر جائے گی اور پھر تیزی سے کم ہوگی۔ 2100ع میں عالمی آبادی کا حجم اس سے بھی کم ہوسکتا ہے۔ زیادہ تر ممالک میں شرح پیدائش اب شرح اموات سے کافی نیچے ہے۔ کچھ ممالک میں، آبادی جلد ہی موجودہ شرح سے نصف ہو جائے گی

لوگ اب کم آبادی سے پریشان ہونے لگے ہیں۔ ممالیہ کی نسلیں تیزی سے آتی اور جاتی ہیں، دس لاکھ برسوں میں پھلتی پھولتی اور مٹ جاتی ہیں۔ باقیات کے ریکارڈ اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ انسان تقریباً تین لاکھ پندرہ ہزار برس یا اس سے زیادہ عرصے سے موجود ہے، لیکن اس وقت کے زیادہ تر عرصے میں یہ نوع انسان کم تھی، اس قدر کم کہ ایک سے زیادہ د مرتبہ وہ معدومیت کے قریب پہنچی، اور یوں نسل انسانی کے مٹ جانے کاخدشہ پیدا ہوا

موجودہ آبادی بہت چھوٹی چیز سے تیزی سے بڑھی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ، ایک نوع کے طور پر، انسان غیر معمولی طور پر یکساں ہیں۔ جنگلی چمپینزی کے چند گروہوں میں پوری انسانی آبادی کی نسبت زیادہ جینیاتی تغیر پایا جاتا ہے

جینیاتی تغیرات کا فقدان کسی نوع یا نسل کی بقا کے لیے کبھی بھی اچھا نہیں ہوتا۔ مزید یہ کہ چند عشروں سے انسانی تولیدی خاصیت میں کمی نے شرح پیدائش کو کم کردیا ہے وجوہات میں آلودگی، اضطراب اور پریشانی ہے

زیادہ تر انسانی ارتقاء کے لیے، لوگ کھلی جگہوں میں الگ الگ ٹولیوں میں رہتے تھے۔ شہروں میں رہنے کی عادت، عملی طور پر ایک دوسرے کے اوپر یعنی اپارٹمنٹ یا بلاک میں رہنا حالیہ عادت ہے۔ آبادی میں کمی کی ایک اور وجہ معاشی ہے۔ سیاست دان مسلسل معاشی ترقی کے لیے کوشاں ہیں، لیکن یہ ایسی دنیا میں پائیدار نہیں ہے جہاں وسائل محدود ہوں۔ انسان پہلے ہی بنیادی پیداواری صلاحیت کے پچیس سے چالیس فیصد قابض ہے

انسانی معاشی ترقی کی کو ششیں کرہ ارض پر موجود لاکھوں دیگر انواع کے لیے مضر اثرات مرتب کرسکتی ہیں۔ آج کل لوگوں کو اپنے آباو اجداد کے مقابلے میں معیار زندگی کو برقرار رکھنے کے لیے زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے،حقیقت یہ ہے گزشتہ 20 سالوں میں عالمی سطح پر معاشی پیداواری صلاحیت رک گئی ہے یا اس میں کمی ہوئی ہے

اس کا ایک نتیجہ یہ ہو سکتا ہے کہ لوگ بچے پیدا کرنا چھوڑ رہے ہیں، یا ان کے ہاں اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت میں کمی ہوگئی ہے۔ آبادی کی سکڑتی شرح کا ایک اورعنصر خواتین کی معاشی، تولیدی اور سیاسی آزادی ہے۔خواتین کی افرادی قوت دوگنا ہو چکی ہے جس سے عمومی طور پر انسانوں میں تعلیمی حصول، لمبی عمر اور معاشی صلاحیت بہتر ہوئی ہے

مانع حمل کے طریقوں اور بہتر صحت کی دیکھ بھال کے ساتھ، خواتین زیادہ بچے پیدا کرنے سے گریزاں ہیں لیکن کم بچے پیدا کرنا کامطلب آبادی کے سکڑنا ہے

بنی نوع انسان کے لیے سب سے خطرناک خطرہ ایک ایسی چیز ہے جسے ʼextinction debtʼʼ کہا جاتا ہے یعنی کسی بھی نوع کی ترقی میں ایک وقت ایسا آتا ہے بھلے وہ پھیل رہی ہو، جب ناپید ہونا ناگزیر ہو جائے گا، چاہے وہ اسے روکنے کے لیے کچھ بھی کرے۔ معدومیت کی وجہ عام طور پر مسکن کے نقصان پر تاخیر سے اختیار کیا گیا ردعمل ہے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close