وزیراعظم عمران خان کی سانحہ آرمی پبلک اسکول میں سپریم کورٹ میں پیشی

نیوز ڈیسک

اسلام آباد : وزیرِ اعظم عمران خان سانحہ آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) از خود نوٹس کیس میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے طلب کرنے پر عدالت میں پیش ہوئے

واضح رہے کہ چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بنچ سانحہ آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) کیس کی سماعت کر رہا ہے

چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد کی سربراہی میں جسٹس قاضی محمد امین احمد اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل تین رکنی بینچ نے وزیراعظم کو صبح دس بجے کے قریب طلب کیا تھا

وزیر اعظم تقریباً طلب کیے جانے کے دو گھنٹے بعد کمرہ عدالت نمبر 1 میں پہنچے جہاں وکلا، سکیورٹی اہلکاروں اور اے پی ایس حملے کے متاثرین کے اہل خانہ کی بڑی تعداد کمرہ عدالت میں موجود تھی

سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے کہا کہ وزیرِ اعظم صاحب آپ روسٹرم پر آئیں

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ شہدائے اے پی ایس کے والدین کو مطمئن کرنا ضروری ہے، وہ چاہتے ہیں کہ اس وقت کے حکام کے خلاف کارروائی ہو

وزیرِ اعظم عمران خان روسٹرم پر آئے اور وہاں کھڑے ہو کر کہا کہ میں قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتا ہوں، ملک میں کوئی مقدس گائے نہیں ہے، آپ حکم کریں، ہم ایکشن لیں گے

وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا کہ جب سانحہ ہوا تو صوبے میں ہماری حکومت تھی، صوبائی حکومت جو بھی مداوا کر سکتی تھی، کیا

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ شہداء کے والدین کہتے ہیں کہ ہمیں حکومت سے امداد نہیں چاہیے، وہ سوال کرتے ہیں کہ پورا سیکیورٹی سسٹم کہاں تھا؟ ہمارے واضح حکم کے باوجود کچھ نہیں ہوا

وزیرِ اعظم عمران خان نے جواب دیا کہ سانحے کے بعد نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا، دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتی، اس وقت ہر روز خود کش حملے ہو رہے تھے

چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے وزیرِ اعظم عمران خان سے مخاطب ہو کر کہا کہ آپ وزیرِ اعظم ہیں، جواب آپ کے پاس ہونا چاہیے

وزیرِ اعظم نے کہا کہ یہ پتہ لگائیں کہ اَسی ہزار افراد کس وجہ سے مارے گئے، یہ بھی پتہ لگائیں کہ چار سو اَسی ڈرون حملوں کا ذمے دار کون ہے

چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے وزیرِ اعظم عمران خان سے کہا کہ یہ سب پتہ لگانا آپ کا کام ہے، آپ وزیرِ اعظم ہیں، بطور وزیرِ اعظم ان سارے سوالوں کا جواب آپ کے پاس ہونا چاہیے

وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا کہ شہدائے اے پی ایس کے لواحقین کا دکھ ہے تو اَسی ہزار لوگوں کا بھی ہمیں دکھ ہے، آپ اے پی ایس کے معاملے پر اعلیٰ سطح تحقیقاتی کمیشن بنا دیں

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ کمیشن بنا چکے ہیں، رپورٹ آ چکی ہے، 20 اکتوبر کا ہمارا حکم ہے کہ ذمے داروں کا تعین کر کے کارروائی کریں

جسٹس قاضی امین نے کہا کہ مسٹر پرائم منسٹر! آپ مجرمان کو ٹیبل پر مذاکرات کے لیے لے آئے ہیں، کیا ہم ایک بار پھر سرینڈر ڈاکیومنٹ سائن کرنے جا رہے ہیں؟

جسٹس قاضی امین نے کہا کہ مظلوم کا ساتھ تو یہی ہے کہ ظالم کے خلاف کارروائی ہو، کیا ہم پھر مزاکرات کر کے سرنڈر کر رہے ہیں

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ وزیرِ اعظم صاحب! آپ نے عدالت کا حکم نامہ پڑھ لیا

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ 2014ع میں سانحہ پیش آیا، جسے سات سال گزر چکے ہیں، اس کی رپورٹ 2019ع میں سامنے آئی، جن کی ذمے داری تھی ان کا احتساب نہیں کیا گیا، ہم نے اٹارنی جنرل کو ہدایات لینے کا حکم دیا تھا، والدین کے تحفظات دور کرنے کے لیے حکومت نے کیا کیا؟

وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا کہ جس دن سانحۂ اے پی ایس رونما ہوا، کے پی میں پی ٹی آئی کی حکومت تھی. واقعے کے دن ہی میں پشاور پہنچا اور بچوں اور ان کے والدین سے ملا، اسپتال جا کر زخمیوں سے بھی ملا، اس وقت ماں باپ سمیت پوری قوم صدمے میں تھی، واضح کر دوں کہ جو ازالہ کر سکتے تھے کیا

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ والدین کو ازالہ نہیں اپنے بچے چاہیے تھے، آخری آرڈر میں ہم نے باقاعدہ نام دیے تھے، ان کا کیا ہوا؟ آپ پاور میں ہیں، حکومت بھی آپ کی ہے، ہم کوئی چھوٹا ملک نہیں، دنیا کی چھٹی بڑی فوج ہماری ہے، آپ نے کیا کیا؟ انہی مجرموں کو آپ مذاکرات کی میز پر لے آئے

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ان دہشت گردوں نے ہمارے بچوں کو ذبح کیا، ان کا جو دل کیا وہ بچوں کے ساتھ کرتے رہے اور انہیں کوئی روکنے والا نہیں تھا، اس وقت کی حکومت، انٹیلیجنس اور آرمی کے کرتا دھرتا مراعات لے کر چلے گئے، ہماری دینا کی سب سے بڑی انٹیلیجنس ایجنسی ہے، سانحۂ اے پی ایس کے وقت ہماری انٹیلیجنس ایجنسی کہاں تھیں؟ ایجنسی اور فوج کے کرتا دھرتا کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی، یہ تمام مراعات گارڈر آف آنر کے ساتھ انجوائے کر رہے ہیں

چیف جسٹس نے کہا کہ شہدا کے والدین کو سننے والا کوئی نہیں ہے، سپاہی سے پہلے زمہ دارن اعلیٰ افسران تھے، فوج کے اس وقت کے جو کرتے دھرتے تھے مراعات کے ساتھ ریٹائر ہو گئے ہیں

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اے پی ایس کے سانحے کی رپورٹ کے مطابق دہشت گردوں کا ٹارگٹ بچے ہونا آسان ہدف تھا، رپورٹ کے مطابق آسان اہداف کے تحفظ کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے تھے، آسان ہدف کو تحفظ نہ دینا حکومت کی بڑی ناکامی تھی، بتائیں یہ سانحہ اے پی ایس کس نے ہونے دیا

چیف جسٹس پاکستان نے سوال کیا کہ آئین ریاست پر ذمے داری عائد کرتا ہے کہ اپنے شہریوں کو تحفظ فراہم کرے، ریاست نے شہریوں کے تحفظ کے لیے کیا اقدامات کیے ہیں

وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا کہ چیف جسٹس صاحب! اگر آپ نے مجھے بلایا ہے تو مجھے بولنے کا موقع بھی دیں، میں اس وقت حکومت میں نہیں تھا، اٹارنی جنرل نے بتایا ہے کہ اس وقت کے عہدے داران پر کرمنل نہیں اخلاقی ذمے داری عائد ہوتی ہے

وزیرِ اعظم نے کہا کہ جنرل مشرف نے طالبان کے ساتھ پریشر میں آ کر جنگ شروع کر دی، ہمارا نائن الیون کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا، نائن الیون میں کوئی پاکستانی بھی ملوث نہیں تھا، ہم نے واقعے کے بعد نیشنل ایکشن پلان بنایا، دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتی

جسٹس قاضی امین نے کہا کہ وزیرِ اعظم صاحب! اِدھر اُدھر کی باتیں نہ کریں، مدعے پر رہیں

وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان کو بہتر کر کے نیشنل کوآرڈینیشن پلان بنایا، افغانستان میں طالبان حکومت کے بعد داعش، ٹی ٹی پی اور بلوچ علیحدگی پسند پاکستان آ گئے، طالبان حکومت کے بعد ڈھائی لاکھ لوگ پاکستان کے راستے باہر گئے، دہشت گرد ان ڈھائی لاکھ لوگوں کی آڑ میں روپوش ہو گئے، ہماری ساری سیکیورٹی ایجنسیز ممکنہ خطرات سے نمٹنے کے لیے اقدامات کر رہی ہیں

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ابھی تک یہ سمجھ آیا ہے کہ جو ہونے والا ہے اس کے لیے اقدامات کر رہے ہیں، جو ہو رہا ہے اس کے لیے اقدامات نہیں کیے گئے

وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا کہ ہمیں سمجھنا ہو گا کہ افغان صورتِ حال کی وجہ سے خطرات ہیں

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ مسائل موجود ہیں، ہم نے آپ کو لوگوں کے نام دیے ، اٹارنی جنرل سے کہا کہ اعلیٰ سطح کی کمیٹی سے پوچھیں کہ ان ناموں کا کیا ہونا ہے، ہم آپ سے یقین دہانی چاہتے ہیں کہ آپ کارروائی کریں گے، چاہتے ہیں کہ شہداء کے والدین کو تسلی ہو کہ عدالتیں اور حکومت سانحۂ اے پی ایس کو نہیں بھولے

وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا کہ انصاف کی جو تحریک پچیس سال چلائی ہے، اسی پر قائم ہوں، کوئی بھی قانون سے ماورا نہیں ہے، آپ حکم کریں ایکشن لیں گے۔ل

سپریم کورٹ نے ہدایت کی کہ حکومت شہدائے سانحۂ اے پی ایس کے والدین کا مؤقف لے کر کارروائی کرے، سانحے میں ملوث افراد کے خلاف اقدامات کرے

اس موقع پر وزیرِ اعظم عمران خان نے سپریم کورٹ کو انصاف کے تقاضے پورے کرنے کی یقین دہانی کرائی

بعد ازاں سپریم کورٹ نے حکومت کو سانحہ اے پی ایس متاثرین کے ساتھ مل کر اقدامات اٹھانے کا حکم اور دو ہفتوں کے اندر پیش رفت رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کی جس پر اٹارنی جنرل نے مزید وقت ک استدعا کی اور عدالت نے اٹارنی جنرل کی استدعا قبول کرتے ہوئے چار ہفتے کا وقت دے دیا اور سماعت چار ہفتوں کے لیے ملتوی کردی

قبل ازیں آج صبح سپریم کورٹ آف پاکستان نے سانحۂ آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) کیس کی سماعت کرتے ہوئے وزیرِ اعظم عمران خان کو آج ہی طلب کیا تھا

اٹارنی جنرل خالد جاوید نے عدالت کو بتایا ہے کہ اعلیٰ حکام کے خلاف کوئی ایف آئی آر درج نہیں ہو سکتی

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کیس میں رہ جانے والے خلاء سے متعلق آپ کو آگاہ کرنے کا کہا گیا تھا، اے پی ایس کا واقعہ سیکیورٹی کی ناکامی تھا

اٹارنی جنرل خالد جاوید نے کہا کہ ہم تمام غلطیاں قبول کرتے ہیں، دفتر چھوڑ دوں گا لیکن کسی کا دفاع نہیں کروں گا، اگر عدالت تھوڑا وقت دے تو وزیرِ اعظم اور دیگر حکام سے ہدایات لے کر عدالت کو معاملے سے آگاہ کر دوں گا

چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے کہا کہ یہ ایک سنگین نوعیت کا معاملہ ہے اس پر وزیرِ اعظم سے ہی جواب طلب کریں گے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close