پاکستان ایران بارٹر نظام اور سرحدی علاقے میں رہنے والے لوگ

نیوز ڈیسک

تہران : پاکستان اور ایران کے درمیان تجارت کے فروغ کے لیے تہران میں دونوں ممالک کے درمیان بارٹر (اشیا کے بدلے اشیا) تجارت کرنے کا معاہدہ ہوگیا ہے

کرونا کے بعد سرحدوں کی بندش اور کاروبار پر پابندیوں کے بعد پہلی مرتبہ پاکستان اور ایران کی جانب سے دو طرفہ تجارت کے حوالے سے پیش رفت کا آغاز ہو گیا ہے

دونوں ممالک کے مشترکہ تجارتی کمیٹی کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ پاکستان اورایران بارٹر نظام کے تحت تجارت شروع کریں گے

اس حوالے سے ایران کا دورہ کرنے والے وفاقی مشیر برائے تجارت عبدالرزاق داؤد نے بھی ٹوئٹر پر ایک ٹویٹ کے ذریعے بتایا ہے کہ دونوں ممالک نے سرحد پر چاول کے بدلے بارٹر ٹریڈ پر اتفاق کرلیا ہے

بلوچستان میں دوممالک سے قانونی اور غیرقانونی تجارت ہوتی ہے۔ جس میں ایران اور افغانستان شامل ہیں۔ جس سے سرحدی علاقوں میں ایک کثیر آبادی کا روزگار بھی منسلک ہے

یاد رہے کہ پاکستان نے تفتان کی سرحد پر ایک قدیم تجارتی بازار بازارچہ کو بھی بند کر دیا ہے۔ جس سے یہاں کے کئی لوگوں کا روزگار وابستہ تھا۔ اب یہ تمام تجارت این ایل سی کے ٹرمینل کے ذریعے ہورہی ہے

بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ایک تاجر اور چیمبر آف کامرس کے سابقہ عہدیدار بدرالدین کاکڑ کا کہنا ہے کہ ایران کے ساتھ تجارتی معاہدہ 2016ع میں طے کیا گیا تھا، جو ابھی تک مطلوبہ حجم تک نہیں پہنچ سکا ہے

انہوں نے بتایا کہ حالیہ ایران اور پاکستان کے درمیان معاہدے میں تینتیس اشیاء شامل ہیں، جن کی دونوں اطراف سے بارٹر کے ذریعے تجارت کی جائے گی

بدرالدین کاکڑ کے مطابق  ہم ایران سے خام مال اور کیمیکل منگواتے ہیں جو ہمیں اب اجناس کے بدلے مل سکیں گے، دوسری جانب کھانے پینے کی اشیا اجناس لاہور اور کراچی کے مارکیٹس کو فائدہ پہنچا سکتی ہیں

انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ بہتر قدم ہے اس سے ان سرحدی علاقوں میں عام آدمی کو بھی فائدہ ہوگا۔ تاہم انہوں نے مزید اقدامات کی ضرورت پر بھی زور دیا

واضح رہے کہ بلوچستان میں سرحدی لوگوں کی ایک بڑی تعداد ایران اورافغانستان سے ”اسمگلنگ“ کے کاروبار سے منسلک ہے۔ درحقیقت اسے شاید اسمگلنگ کہنا بھی اتنا درست نہ ہو، کیونکہ روزگار کے وسائل کی عدم دستیابی کی وجہ سے یہ یہاں کے لوگوں کے لیے اپنے گھروں کے چولہے گرم رکھنے کا واحد ذریعہ ہے. لیکن اب سرحدوں پر باڑ لگانے سے یہاں کے لوگ کئی معاشی پریشانیوں میں گھر چکے ہیں

اس حوالے سے تاجر رہنما بدرالدین سمجھتے ہیں کہ بلوچستان میں تجارت کو فروغ دے کر اور یہاں پر کسٹم کے لیے جو اشیا پرڈیوٹی لگائی جاتی ہے اس پر نظر کرنے کی ضرورت ہے

ان کا کہنا ہے کہ  یہاں پر جو لوگ اسمگلنگ کرتے ہیں وہ بیس سے پچیس فیصد منافع کے لیے کرتے ہیں۔ اگر ہم یہی فائدہ ان کو کسٹم ڈیوٹی میں دے دیں تو نہ صرف اسمگلنگ ختم ہو سکتی ہے، بلکہ یہاں قانونی تجارت کو بھی فروغ ملے گا، بلوچستان کے ساتھ ایک مسئلہ ہے کہ یہاں پر ڈیوٹیز لگانے کا فیصلہ دیگر ممالک کی بنیاد پر کیا جاتا ہے، جس سے عام لوگوں کو کم فائدہ ملتا ہے۔ چونکہ یہ ایک مشکل کام ہے اور اس کے لیے بالادست طبقے اور طاقتور لوگوں کو ناراض کرنا ہوگا اس لیے یہ کام آج تک نہیں ہوسکا

انہوں نے بتایا کہ ایران اورپاکستان نے بارٹرکے ذریعے تجارت تفتان بارٹر سے کرنے کا  فیصلہ کیا ہے

بدرالدین کاکڑ نے تفتان سرحد پر قدیم بازار کی بندش کو لوگوں کی مشکلات میں اضافے کا باعث قرار دیا

ان کا کہنا ہے کہ اس سے کئی لوگوں کو روزگار چلا گیا، اگر وفاقی حکومت فیصلے کرتے ہوئے بلوچستان کے زمینی حقائق کو مد نظر رکھے اور چھوٹے تاجروں کو فائدہ پہنچائے تو بہت سے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ چونکہ ایف اے ٹی ایف کی طرف سے پابندیوں کے باعث پاکستان اور ایران کے درمیان تجارت کے لیے پیسوں کی ترسیل بینک کے ذریعے نہیں ہوسکتی، اس لیے یہ راستہ اختیار کیا گیا

دوسری جانب تفتان کے معروف تاجر شوکت عیسیٰ زئی واضح طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ بارٹر کے ذریعے ایران سے تجارت کا فائدہ عام لوگوں کو نہیں ہوگا، اس میں بڑے تاجر کاروبار کریں گے

انہوں نے کہا کہ تفتان میں چھوٹے تاجروں کے لیے ایک مرکز بازارچہ موجود تھا، اسے بھی بند کردیا گیا۔ اس طرح کا اگر کوئی بازار کھولنے کا اقدام کیا جائے، تو شاید عام تاجر اور لوگوں کو کچھ فائدہ مل سکے

دوسری جانب پاکستان اور ایران کی مشترکہ تجارتی میٹنگ کے دوران  یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ دونوں ممالک کے درمیان تجارت کو پانچ بلین ڈالر کے حجم تک لے جایا جائے گا۔ اجلاس کے دوران اگلے تین ماہ کے دوران دونوں ممالک فری ٹریڈ ایگریمنٹ پر بھی عمل درآمدکرانےکا فیصلہ کیا گیا

ایران کی طرف سے تجارتی اشیاکی تینتیس اشیا پر مشتمل فہرست پاکستان حکام کو دی گئی، جس میں ہائیڈرو کاربن گیس، لکوِڈ گیس، خشک اور تازہ کجھور، سیرامک، خشک سبزیاں، تازہ اور خشک پستہ، اسٹیل، تازہ جوسز، دودھ اور کریم شامل ہیں

دوسری طرف پاکستان نے ایران کو چاول کے علاوہ تازہ اور خشک امرود، تیار ملبوسات، پولیمر، ٹیکسٹائل فیبرکس، طبی آلات، گوشت اور آم سمیت دیگر اشیا کی فہرست دی ہے

لیکن یہ سوال اپنی جگہ پر قائم ہے کہ کیا اس سارے عمل میں سرحدی علاقے میں رہنے والے ان لوگوں کا خیال بھی رکھا گیا ہے یا نہیں، جو روزگار کے وسائل کی عدم دستیابی کی وجہ سے پہلے ہی پریشان حال ہیں اور یہ بھی کہ کیا اس معاہدے کے حوالے سے بلوچستان کے زمینی حقائق کو بھی مد نظر رکھا گیا ہے؟

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close