اسلام آباد : حکمران اتحاد میں دراڑیں پڑنے اور فیصلے کہیں اور سے مسلط کیے جانے کے مضبوط ہوتے تاثر کے بعد پی ٹی آئی میں اندرونی طور پر انتشار کی وجہ سے سیاسی تجزیہ نگار کہہ رہے ہیں کہ عمران خان کے لیے گھبرانے وقت شروع ہوا چاہتا ہے
ڈی جی آئی ایس آئی کے تقرر کے بعد چند ہفتوں کے اندر پیدا ہونے والے تنازع سے پیدا ہونے والی صورتحال نے منقسم اپوزیشن کو موقع دیا ہے کہ وہ پارلیمنٹ اور پارلیمنٹ کے باہر ممکنہ طور پر ایسی مشترکہ حکمت مرتب کریں جس سے عمران خان کی حکومت کو ہٹایا جا سکے، اس میں واضح طور پر طاقت کے مرکز کی قربت حاصل کرنے کی کوششیں بھی نظر آ رہی ہیں
قومی اسمبلی میں قانون سازی کے لئے کی جانے والی حالیہ کوشش میں حکومت کی ناکامی، پارلیمنٹ کے مشترکہ سیشن کو عین موقع پر ملتوی کرنا اور وزیراعظم سے اے پی ایس کیس میں سپریم کورٹ کے ججوں کی طرف سے سخت سوالات کو کئی لوگ ممکنہ طور پر ’’تبدیل ہوتے حالات‘‘ کی طرف ایک اشارہ سمجھتے ہیں
رہی سہی کثر بگڑتی معاشی صورتحال، مہنگائی، ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی مزید بے قدری اور حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان ہونے والے مذاکرات کا مثبت نتیجہ آنے میں تاخیر نے نکال دی ہے، جس کی وجہ سے عمران خان پر دباؤ بڑھ گیا ہے، وہ جمعہ کو پارٹی کے کور کمیٹی کے اجلاس میں بھی بیٹھے تاکہ موجودہ حالات کا جائزہ لیا جا سکے اور اُبھرتے چیلنجز سے نمٹنے کی حکمت عملی مرتب کی جا سکے
حکومتی مراعات سے مستفیض ہونے والی حکومت کی اہم اتحادی جماعت ایم کیو ایم بھی مہنگائی کی وجہ سے حکومت کے حصے میں آنے والی بدنامی میں حصہ دار بننے کے موڈ میں نظر نہیں آتی. ایم کیو ایم قیادت کے تازہ بیانات میں اس کے پیچھے ہٹتے قدموں کی چاپ سنائی دے رہی ہے
اس سے قبل ایم کیو ایم نے الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے معاملے پر بھی اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا جبکہ وزیراعظم اور اُن کی جماعت مشترکہ اجلاس میں یہ بل منظور کرانا چاہتی تھی
اس بات کی بھی اطلاعات ہیں کہ پی ٹی آئی کے کئی ارکان الیکٹرانک ووٹنگ کے حوالے سے انتخابی اصلاحات کے بل پر ووٹنگ کے لئے غیر حاضر تھے ، اس لئے عین موقع پر پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کا مشترکہ اجلاس ملتوی کرنا پڑا۔ اجلاس ملتوی کیے جانے سے ایک گھنٹہ قبل ہی وزیراعظم نے اپنی پارٹی کے ارکان سے درخواست کی تھی کہ وہ اس بل کو سنجیدہ لیں اور جہاد سمجھ کر اسے پارلیمنٹ سے منظور کرائیں
دوسری جانب ایک روز قبل ہی وفاق اور پنجاب میں پی ٹی آئی کی دوسری اہم اتحادی جماعت مسلم لیگ (ق) کے لیڈر پرویز الٰہی نے بھی ق لیگ کے اندر عثمان بزدار کی پنجاب حکومت کے خلاف بڑھتی ہوئی شکایات پر بات کرنے کے لئے ایک ہنگامی اجلاس منعقد کیا
عمران خان حکومت کے لئے حالات کو تیزی سے خراب ہوتے دیکھ کر پیپلز پارٹی کے چیئرپرسن بلاول بھٹو بھی جمعہ کو مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کے لیے پہنچ گئے اور پرانے اختلافات کے کئی ماہ بعد دونوں نے صورتحال پر بات چیت کی۔ انہی اختلافات کی وجہ سے پیپلز پارٹی پی ڈی ایم سے علیحدہ ہوئی تھی۔ اگرچہ پیپلز پارٹی پی ڈی ایم میں واپس نہیں آئی، لیکن اپوزیشن جماعتوں کا مشترکہ ایجنڈا اب بھی عمران خان حکومت کو گرانا ہی ہے
صرف سیاسی میدان میں ہی گرما گرمی نہیں ہو رہی، ملک کی معاشی صورتحال بھی خراب ہو رہی ہے جس سے پی ٹی آئی حکومت کے لئے مسائل پیدا ہو رہے ہیں
یہاں تک کہ اب عمران خان حکومت کے حامی حلقوں نے بھی ہاتھ کھڑے کر لیے ہیں. ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے عوام کی امیدوں کو روشن رکھنے کی بھرپور کوشش کی، لیکن اب وہ تھک چکے ہیں اور امیدیں دم توڑتی نظر آ رہی ہیں۔ انہوں نے عمران حکومت کو خبردار کیا کہ اُن کی حکومت دلدل میں پھنس چکی ہے اور سفینہ ساحل تک آنے سے پہلے ہی ڈوبنے کے خطرے کا سامنا کر رہا ہے
ترجمانوں، مشیروں اور وزیروں کی فوج بھی تھکی تھکی سی نظر آنے لگی ہے. ڈھیٹ پن اپنی جگہ لیکن اب ان کی پریس کانفرونسوں میں بھی وہ پہلے والا گرم جوش دفاع نظر نہیں آ رہا، جوکہ صورتحال کی سنگینی کی علامت ہے
بوکھلاہٹ کا یہ عالم ہے کہ گذشتہ روز وزیر اعظم کے معاون علی نواز اعوان نے پاکستان کے مسائل اور حالات کا ذمہ دار سابق جرنیلوں کو ٹھہراتے ہوئے کہا کہ ایک جنرل نے قوم کو جہاد کرنے کا کہا جبکہ دوسرے نے ’روشن خیال اعتدال‘ کو راہ دی. انہوں نے پاکستان کے سابق جرنیلوں اور سابق آرمی چیفس کو ملک کو درپیش بعض مشکلات کا ذمہ دار ٹھہرایا
لے دے کر رہ گئے عوام، سو مہنگائی کی چکی میں پستے عوام اب ”سابقہ حکومتوں اور مافیاز“ کا راگ سنتے سنتے اوب چکے ہیں، کیونکہ وہ اسے بہرحال حکومت کی انتظامی ناکامی سے ہی تعبیر کرتے ہیں. مہنگائی کی وجہ سے صورتحال اب اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ اگر اس وقت عمران خان کو حکومت سے نکالا گیا تو احتجاجی نعروں کے بجائے ڈھول باجوں کی آواز ہی سنائی دے گی. ایسے میں عمران خان اگر عوام میں ”مجھے کیوں نکالا“ کا سوال کریں گے بھی، تو جواب اشیائے صرف کی قیمتوں کی فہرست خود دے دے گی
ممکن ہے کہ یہ محض قیاس آرائیاں ہوں، لیکن بہرحال حالات کی سنگینی سے انکار نہیں کیا جا سکتا.