جنسی غلامی، بچوں کے ساتھ بدسلوکی اور جنسی جرائم کے لیے کم عمر لڑکیوں کی اسمگلنگ کے لیے بدنام جزیرے کی کہانی

ویب ڈیسک

یہ کہانی ہے ایک ایسے جزیرے کی، جو جنسی غلامی، بچوں کے ساتھ بدسلوکی اور جنسی جرائم کے لیے نوجوان خواتین اور کم عمر لڑکیوں کی اسمگلنگ کے لیے جانا جانے لگا ہے

ایپسٹین کے جزیرے پر دنیا بھر سے مہمان آتے تھے اور معاشرے میں بظاہر اچھی شہرت کے مالک سمجھے جاتے تھے: مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی مشہور و معروف شخصیات، سائنسدان اور شاہی خاندانوں کے افراد، ایک نجی جیٹ میں سوار ہوکر آتے اور پھر ہیلی کاپٹر میں سوار ہو کر جزیرے پر پہنچتے تھے۔

اس کے مالک کو اسے ’لٹل سینٹ جیف‘ کہنا اچھا لگتا تھا۔ مقامی لوگوں نے اسے ’پیڈوفائل جزیرے‘ کا نام دیا ہے

لیکن اس ’لٹل سینٹ جیمز‘ یا پھر ’پیڈوفائل جزیرے‘ کی حقیقت کیا ہے، جو امریکی جزائر ورجن میں 75 ایکڑ پر محیط وہ نجی جنت ہے، جسے ارب پتی جنسی ہوس پرست جیفری ایپسٹین نے کبھی اپنا گھر کہا تھا؟

اس کا جواب ہمیں امریکی جزائر ورجن کے اٹارنی جنرل کی جانب سے دائر کی گئی اس فوجداری شکایت سے ملتا ہے، جس میں کہا گیا تھا کہ ”یہ جنسی غلامی، بچوں کے ساتھ بدسلوکی اور جنسی حملے کے لیے نوجوان خواتین اور کم عمر لڑکیوں کی اسمگلنگ کے لیے بہترین پناہ گاہ ہے“

اس جزیرے کے بارے میں شکایت میں کہا گیا ہے ”جیفری ایپسٹین اور اس کے ساتھی ورجن جزائر اور وفاقی قانون نافذ کرنے والے اداروں سے اپنی غیر قانونی سرگرمی چھپا سکتے ہیں، اور ہو سکتا ہے ان نوجوان خواتین اور کم عمر لڑکیوں کو آزاد نہ ہونے دیں، جو بدسلوکی سے بچ سکتی ہیں“

واضح رہے کہ اس جزیرے کا ذکر دسمبر میں گیسلین میکسویل کے جنسی اسمگلنگ کے مقدمے میں شامل تھا، جنہیں جنسی اسمگلنگ کے پانچ الزامات میں قصوروار ٹھہرایا گیا تھا اور منگل 28 جون کو انہیں بیس سال قید اور ساڑھے سات لاکھ ڈالر جرمانے کی سزا سنائی گئی تھی

آخرکار، مئی 2023 میں اس جزیرے کو اس کی اصل قیمت کے نصف سے بھی کم قیمت پر ایک امیر سرمایہ کار کو فروخت کر دیا گیا، اس امید کے ساتھ کہ اسے لگژری ریزورٹ میں تبدیل کر دیا جائے گا

لٹل سینٹ جیمز ایک چھوٹا سا جزیرہ ہے، جو امریکی جزائر ورجن کے نیلے پانیوں میں مرجان کی چٹانوں سے گھرا ہوا ہے، جس میں پناہ گاہیں اور جنگلاتی باغات ڈرامائی طور پر ہوا سے بھری پہاڑیوں اور چٹانوں تک پھیل رہے ہیں۔

یہ کیریبین جزائر کے تین اہم جزائر میں سے ایک سینٹ تھامس کے جنوب مشرقی سرے پر واقع ہے۔

ورجن کو پہلی عالمی جنگ کے عروج پر امریکی حکومت نے ڈنمارک سے خریدا تھا تاکہ انہیں جرمن آبدوز اڈے کے طور پر استعمال ہونے سے روکا جا سکے۔

آج بہت سے مالیاتی ماہرین انہیں ٹیکس ہیون کے طور پر دیکھتے ہیں، جہاں واقع کمپنیوں کو کارپوریشن ٹیکس اور ذاتی انکم ٹیکس پر بھاری چھوٹ ملی ہوئی ہے۔

2008 میں بچوں کے جسم فروشی کے جرم میں پہلی بار سزا سنائے جانے کے بعد 2010 میں جیفری ایپسٹین کا اندراج جنسی مجرم کے طور پر کیا گیا۔

انہوں نے سینٹ تھامس پر سمندر کے کنارے واقع ایک شاپنگ مال میں واقع ایک چھوٹے سے نامعلوم دفتر میں اپنی شیل کمپنیاں قائم کیں، اس کے علاوہ سیم کا منی مارٹ اور ہیپی نیلز نامی سیلون بھی بنائے۔

1998 میں انہوں نے ایک شیل کمپنی کے ذریعے وینچر کیپیٹلسٹ آرک کمنس سے لٹل سینٹ جیمز خریدا اور مبینہ طور پر صرف 80 لاکھ ڈالر سے کم ادائیگی کی۔

نئے مالک نے یہاں جلدی سے تمام دیسی پودے نکال لیے اور ان کی جگہ چالیس فٹ لمبے کھجور کے درخت لگائے۔

2007 میں ایپسٹین نے تعمیر اور ری ماڈلنگ کا ایک بہت بڑا پروگرام شروع کیا، جس پر مقامی حکام نے شکوک و شبہات کا اظہار کیا۔

اس کے مرکزی کمپاؤنڈ کا سائز تقریباً دوگنا ہو گیا، جو ایک پرتعیش حویلی کی طرح لگتا تھا، جس میں ایک بیرونی چھت تھی جو ماسٹر بیڈروم اور سوئمنگ پول کو جوڑتی تھی، اس کے ساتھ ساتھ ڈیسیلینیشن نظام بھی تھا۔

سیٹلائٹ تصاویر میں چھتوں، کاٹیجز، بیچ ہاؤسز، سوئمنگ پولز، گودیوں، یوٹیلٹی بلڈنگز، ہیلی پیڈ، ٹینس کورٹ، سلپ ویز، جھیل اور نامعلوم مقاصد کے لیے مختلف جھونپڑیوں کا ایک وسیع نیٹ ورک دکھایا گیا ہے، جو کناروں پر ناریل کی قطاروں میں گھری سڑکوں سے جڑے ہوئے ہیں، جہاں گالف بگیز مہمانوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتی ہیں۔ جزیرے سے گزرنے میں لگ بھگ پانچ منٹ لگتے ہیں

یوٹیوب پر پوسٹ کی گئی حیرت انگیز ڈرون فوٹیج میں جزیرے کے وسط میں ایک بہت بڑا سنڈیال ہے، جو اتنا بڑا ہے کہ اس پر گھوما پھرا جا سکتا ہے اور جزیرے کے سروں پر دو اونچے امریکی جھنڈے لہرا رہے ہیں

ایپسٹین کے مینور کے دوسرے سرے پر نیلی اور سفید پٹیوں والی عمارت جسے اکثر ’مندر‘ کہا جاتا ہے، جس پر ایک گول چھت ہے، جس میں سرخ بھول بھلیاں ہیں

پہلے اس کی چھت پر ایک سنہری گنبد اور دو سنہری مجسمے تھے، جو مبینہ طور پر سمندری طوفان ماریا میں ٹوٹ گئے

یہ اس ہشت جہت چھت والی عمارت سے بہت مختلف ہے، جس کی اجازت ایپسٹین کو دی گئی اور سب زیادہ قیاس آرائیاں بھی اسی کے متعلق ہوتی ہیں۔

نظریہ سازوں نے اسے مختلف طریقوں سے زیرِ زمین کسی جگہ کا داخلی دروازہ، ایک مصری دیوتا کی قربان گاہ، اس کے والدین کے لیے قبرستان، یا رسم کے بطور پر جنسی استحصال کی جگہ کے طور پر بیان کیا ہے، لیکن بزنس انسائیڈر کی تحقیقات سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ یہ ایپسٹین کے لیے ایک نجی مطالعے اور موسیقی کا کمرہ تھا۔

2016 میں ایپسٹین نے 165 ایکڑ رقبے پر واقع قریبی جزیرے گریٹ سینٹ جیمز کو بھی خرید لیا تھا، جس میں مبینہ طور پر یہ ظاہر کیا گیا کہ اصل خریدار دبئی کا ایک تاجر سلطان احمد بن سلیمان ہے۔

سینٹ تھامس کے ایک رہائشی نے خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتای ”ان کے آنے کو اچھا نہیں سمجھا گیا۔ لوگوں سوچتے ہیں کہ وہ اتنے امیر ہیں کہ ان سے ٹھیک طرح پوچھ تاچھ نہیں ہو سکتی“

اس جزیرے پر زندگی کیسی تھی؟

2008 میں سزا سنائے جانے سے پہلے کے دنوں میں جیفری ایپسٹین مہینے میں دو یا تین بار لٹل سینٹ جیمز پر جاتے تھے اور کئی دن قیام کرتے تھے۔

ایک سابق ملازم نے اسے ’ایک قسم کے مراقبے کے لیے واپسی‘ قرار دیا، جہاں مالک ہوائی چپل میں گھومتا پھرتا تھا، اسپیکرز سے ’مراقبے والی موسیقی‘ گونجتی تھی اور خواتین اکثر برہنہ دھوپ سینکنتی تھیں۔

یقیناً وہاں ہمیشہ خواتین موجود رہتی تھیں: اکثر پرکشش، کبھی کبھی مشکوک طور پر جوان یعنی نوعمر، جیفری ایپسٹین یا اس کے بہت سے مہمانوں میں سے کسی ایک کی بانہوں میں، یا کبھی کبھی، لیڈی گیسلین نامی 38 فٹ لمبی کشتی پر گروپوں میں سواری کرتے، جس کا نام مبینہ طور پر ایپسٹین کی دیرینہ ساتھی گیسلین میکسویل کے نام پر رکھا گیا تھا

اس جزیرے پر تقریباً ستر افراد کا عملہ تھا، جس میں گراؤنڈ کیپرز اور مالیوں سے لے کر کپڑے دھونے والی خواتین اور بروقت دستیاب کشتی کے کپتان تک شامل تھے۔ ان سے سخت رازداری کا حلف لیا گیا تھا، جس میں ہدایت کی گئی تھی کہ وہ اپنا کام کرتے وقت ایپسٹین کی نظروں سے دور رہیں۔

انہیں مین مینور میں ایپسٹین کے دو دفاتر میں داخل ہونے سے منع کیا گیا تھا، جن میں سے ایک میں اسٹیل کی ایک انتہائی محفوظ تجوری رکھی گئی تھی۔

ایل اے ٹائمز کے مطابق ایپسٹین کو ’قزاقوں کے خزانے‘ کا بھی شوق تھا، پرانی رم کی بوتلوں اور جزیرے کے ارد گرد پائی جانے والے کروکری کے لیے ان کا نام تھا۔ وہ اچھی حالت میں دلچسپ چیزیں ڈھونڈنے پر نوکروں کو سو سے ایک ہزار ڈالر کے درمیان پیسے دیتے تھے۔

1999 سے 2007 کے درمیان جزیرے پر اپنی اہلیہ کے ساتھ مل کر کام کرنے والے میلز الیگزینڈر نے ڈیلی میل کو بتایا ”وہ بہت مہربان انسان تھے اور اگرچہ میں ان چیزوں کا گواہ نہیں جن کے ان پر ان پر الزامات عائد کیے گئے، انہیں بہت پسند کرتا ہوں۔ ہمارا ضمیر صاف ہے کہ ہم نے کچھ بھی ناخوشگوار نہیں دیکھا“

جنوبی افریقہ سے تعلق رکھنے والے جوڑے نے بتایا کہ کس طرح ایپسٹین کو لوگوں کے سامنے کھانا کھانا پسند نہیں تھا۔ اس کی بجائے اپنے کمرے میں کھانے کے لیے لے جاتے تھے جہاں وہ روزانہ مساج بھی لیتے تھے۔

ایپسٹین کے معمولات میں مخل ہو کر انہیں پریشان کرنا ’بالکل منع‘ تھا

حالانکہ جب الیگزینڈر باہر تھے تو انہیں ایک بار جنسی کھلونوں کا ایک ڈبہ ملا تھا

جب انہیں کام پر رکھا گیا، تو الیگزینڈرز کا کہنا ہے کہ انہیں بتایا گیا تھا: ’جیفری جو چاہتا ہے، جیفری لے لیتا ہے۔‘

جیفری ایپسٹین کے جزیرے پر کون کون آتا تھا؟

یقیناً وہاں ہمیشہ مہمان موجود ہوتے تھے۔ ایپسٹین کے مہمانوں میں مشہور ناموں میں طبیعیات دان اسٹیفن ہاکنگ، نوبل انعام یافتہ لارنس کروس، کامیڈین کرس ٹکر، اداکار کیون سپیسی، وکٹوریہ سیکرٹ میگنیٹ لیس ویکسنر، ماڈل ناؤمی کیمپبیل، ٹونی بلیئر کے سابق معاون لارڈ پیٹر مینڈلسن اور برطانیہ کے شہزادہ اینڈریو شامل ہیں۔

یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ بل کلنٹن بھی مہمان تھے، حالانکہ وہ کبھی وہاں جانے سے انکار کرتے ہیں۔

اطلاعات کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے ایپسٹین کے نجی جیٹ طیاروں میں سے ایک پر سفر کیا تھا، لیکن یہ واضح نہیں کہ آیا انہوں نے جزیرے کا دورہ کیا تھا یا نہیں۔

جادوگر ڈیوڈ کاپر فیلڈ کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انہوں نے وہاں سپر ماڈل کلاڈیا شیفر کو پروپوز کیا تھا۔

مہمان ایپسٹین کے گلف سٹریم جیٹ طیاروں میں سے ایک پر سینٹ تھامس کے سیرل ای کنگ ہوائی اڈے پر اترتے تھے، جو مرکزی رن وے سے الگ ایک نجی علاقے میں ہے۔

اس کے بعد انہیں ایپسٹین کے سیاہ ہیلی کاپٹروں میں سے ایک پر لٹل سینٹ جیمز لے جایا جاتا تھا۔

ایک جج کی جانب سے میکسویل کے خلاف گفرے کی جانب سے دائر مقدمے میں عدالتی دستاویزات کھولنے کے حکم نامے کے بعد جنوری 2024 میں ایپسٹین کے 200 ساتھیوں کو منظر عام پر لایا جائے گا۔

ان میں سے بہت سی دستاویزات، جنہیں یکم جنوری کے بعد کسی بھی وقت کھولا جاے گا، پہلے بھی عوامی طور پر جاری کی جا چکی ہیں – حالانکہ ان کے ناموں میں ترمیم کی گئی تھی۔

دسمبر 2023 میں امریکی ڈسٹرکٹ جج لوریٹا پریسکا نے فیصلہ سنایا تھا کہ ان ناموں کو تبدیل رکھنے کا کوئی قانونی جواز نہیں۔

اس سے کئی مشہور شخصیات کے نام عوام کے سامنے آنے کی راہ ہموار ہوئی جن کا تعلق ایپسٹین سے تھا۔ جن میں سے کچھ مبینہ طور پر جزیرے پر بھی گئے تھے۔

کیا کسی نے ایپسٹین کی مبینہ جنسی اسمگلنگ پر توجہ نہیں دی؟

یقیناً انہوں نے دی۔ شروع سے ہی سینٹ تھامس کے مقامی لوگ ایپسٹین کی سرگرمیوں کے بارے میں سرگوشیاں کرتے اور ان کے نجی جیٹ طیاروں کو ’لولیٹا ایکسپریس‘ کہتے تھے۔

جب اسکوبا کے غوطہ خور جزیرے کے قریب تیرتے تھے، تو مبینہ طور پر سکیورٹی گارڈ پانی کے کنارے گشت کرتے نظر آتے تھے۔

ایک موقعے پر ایپسٹین اپنے پراجیکٹ کی تعمیر کے لیے ہر روز تقریباً دو سو کارکنوں کو لاتے اور لے جاتے تھے۔

ان میں سے ایک نے خبر رساں ادارے اے پی کو بتایا کہ ’جب وہ وہاں تھا تو اپنے کام سے کام رکھنا ہوتا تھا۔‘ وہ کبھی کبھار پرانی چیزیں دے دیا کرتے تھے

سینٹ تھامس پر ہوائی اڈے کا عملہ دیکھ سکتا تھا کہ ایپسٹین ایکسپریس میں اپنے ساتھ کس کو لارہی ہے۔

ایک سابق ایئر ٹریفک کنٹرولر نے وینیٹی فیئر کو بتایا کہ ’میں نے متعدد مواقع پر ایپسٹین کو دیکھا وہ اپنے ہیلی کاپٹر سے باہر نکل کر، میرے ٹاور کو دیکھتے تھے اور نجی جیٹ پر بچے اور لڑکیاں سوار ہوتی تھیں۔

”میرے ساتھیوں اور میں نے یقینی طور پر اس بارے میں بات کی کہ سمجھ میں نہیں آتا کہ اس بندے کو ابھی بھی بچوں کے قریب رہنے کی اجازت کیسے ہے

”ہم نے کچھ نہیں کہا کیونکہ ہمیں لگا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنا کام کر رہے ہیں۔ یہ افسوس ناک ہے، لیکن ہم واقعی یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ کس کو بتانا ہے۔“

ایئر سٹریپ کے ایک اور ملازم کا کہنا تھا ”ایسی لڑکیاں ہوتی تھیں جو بظاہر ہائی اسکول میں ہوں گی۔ وہ بہت نوعمر لگتی تھیں۔ وہ ہمیشہ کالج کے کپڑوں ملبوس ہوتی تھیں

”میں اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتا تھا۔ میں نے اس کا موازنہ دن دہاڑے ایک سیریل قاتل کو دیکھنے سے کیا۔ میں نے اسے برائی کا چہرہ کہا… ایسا لگ رہا تھا، جیسے وہ اس کا مظاہرہ کر رہا ہو۔ کبھی کبھی لڑکیوں نے گوچی اور ڈیور جیسے ڈیزائنر برانڈز کے شاپنگ بیگ اٹھائے ہوئے ہوتے تھے“

الیگزینڈرز کو بھی شک ہوا۔ کیتھی نے دی میل کو بتایا ”ایسا لگ رہا تھا، جیسے وہ انڈر ویئر سے باہر نکل آئی ہوں۔ وہ بہت کم یا بغیر کچھ پہنے تالاب کے کنارے گھومتی پھرتی تھیں۔ وہ زیادہ تر وقت ایسے ہی گزارتیں۔ میں ان کی عمر کے بارے میں فکر مند تھا۔ ان میں سے کچھ بہت چھوٹی لگ رہی تھیں اور میں حیران ہوئے بغیر نہ رہ سکا کہ کیا ان کی ماؤں کو معلوم تھا کہ وہ کہاں ہیں۔“

مائیلز الیگزینڈر نے مزید کہا کہ بعض اوقات انہیں سینٹ تھامس کی حکومت پاس خواتین مہمانوں کے نام اور پاسپورٹ نمبر درج کرائے بغیر کشتی کے ذریعے اسمگل کرنے کی ایپسٹین کی درخواستوں کو مسترد کرنا پڑتا تھا۔

جوڑے کی بے چینی بڑھتی گئی اور بالآخر انہوں نے 2007 میں ملازمت چھوڑ دی۔

الیگزینڈر نے کہا، ”ہماری آخری ملاقات میں ایپسٹین نے مجھے بتایا کہ میں ہمیشہ سے ان کا ضمیر رہا ہوں۔“

الیگزینڈر نے کہا ”میں یقینی طور پر اب اپنے ضمیر کے ساتھ لڑ رہا ہوں“

ایپسٹین کے جزیرے پر دراصل کیا ہوا تھا؟

یہ کئی جاری عدالتی مقدمات کا موضوع ہے لیکن الزامات حیران کن ہیں۔

پرنس اینڈریو پر الزام لگانے والی ورجینیا رابرٹس گیفرے کی جانب سے دائر کیے گئے مقدمے کے مطابق لٹل سینٹ جیمز دنیا بھر میں گرومنگ سکَیم کا مرکز تھا، جس میں ایپسٹین کے لیے کام کرنے والے نوجوان خواتین کو نشانہ بناتے تھے، جو بدسلوکی اور ہیرا پھیری کے لیے تیار تھیں، اپنی امیدوں اور خوف کو استعمال کرتی تھیں، انہیں ‘وسیع دولت اور طاقت کا مظاہرہ’ کرکے حیران کرتے اور پھر انہیں دھمکیوں اور بلیک میلنگ کے ساتھ ساتھ گاہکوں کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرنے پر مجبور کرتے تھے۔

گیفرے کا کہنا ہے کہ شہزادہ اینڈریو نے سترہ سال کی عمر میں لٹل سینٹ جیمز میں ان کے ساتھ جنسی زیادتی کی تھی

اینڈریو اور مس گیفرے نے 15 فروری کو ان کے خلاف اپنا مقدمہ نمٹا دیا، جس سے نیویارک کی عدالت میں یہ طویل قانونی مقدمہ ختم ہو گیا

ورجن آئی لینڈ کے اٹارنی جنرل کے دفتر نے بھی اسی طرح کے دعوے کیے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’2001 اور 2019 کے درمیان ایپسٹین انٹرپرائز نے کم عمر لڑکیوں اور نوجوان خواتین کو ورجن جزائر پہنچایا، جنہیں پھر ہیلی کاپٹر یا نجی جہاز کے ذریعے لٹل سینٹ جیمز لے جایا گیا جہاں انہیں دھوکے سے جنسی غلامی کا نشانہ بنایا گیا، جنسی سرگرمیوں میں ملوث ہونے اور تجارتی جنسی سرگرمی اور جبری مشقت پر مجبور کیا گیا۔

’اپنے غیر قانونی مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے ایپسٹین نے متعدد مدعا علیہان اور دیگر (دونوں کمپنیوں اور افراد) کے ساتھ ایک ایسوسی ایشن تشکیل دی جو ایپسٹین کی مالی اور دیگر فوائد بشمول جنسی خدمات اور متاثرین سے جبری مشقت کے بدلے ایپسٹین کی مجرمانہ سرگرمی میں حصہ لینے سہولت دینے اور چھپانے کے لیے تیار تھے۔‘

درحقیقت شکایت میں لٹل سینٹ جیمز کو نجی پروازوں کے عالمی جال میں صرف ایک اڈے کے طور پر بیان کیا گیا ہے جو جنسی سمگلنگ کے شکار افراد کو لندن، پیرس، ٹینگیر، گریناڈا، سینٹ لوئس، پام بیچ، اٹلانٹک سٹی اور اس سے بھی آگے لے جاتی ہیں۔ اس میں کہا گیا ہے کہ کچھ متاثرین کی عمریں 12 سال تک تھیں۔

شکایت میں یہ بھی الزام لگایا گیا ہے کہ لٹل سینٹ جیمز متاثرین کے لیے ایک جیل کے طور پر کام کرتا تھا جس میں ایپسٹین بیرونی دنیا کے ساتھ تمام مواصلات کو کنٹرول کرتا تھا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایک 15 سالہ لڑکی نے تیر کر فرار ہونے کی کوشش کی لیکن ایپسٹین نے تلاشی پارٹی کے ذریعے اسے دوبارہ پکڑ لیا اور اس کا پاسپورٹ ضبط کر لیا۔

اٹارنی جنرل ڈینس جارج نے 2020 میں کہا تھا کہ ‘یاد رکھیں کہ وہ ایک پورے جزیرے کے مالک ہیں۔ اس لیے یہ ایسی صورت حال نہیں تھی کہ کوئی بچہ یا نوجوان عورت سڑک سے بھاگ کر قریبی پولیس سٹیشن جا سکے۔‘

ایک مبینہ متاثرہ خاتون نے سی بی ایس نیوز کو بتایا کہ سینٹ تھامس میں ایپسٹین کے دفتر میں اس کے ساتھ ریپ کیا گیا تھا اور اس نے لٹل سینٹ جیمز پر اپنے بیڈروم میں بستر کے ساتھ بندوق رکھی تھی۔

شکایت میں کہا گیا کہ ایپسٹین نے ورجن جزائر میں یا اس کے قریب کم عمر لڑکیوں کی ایک کمپیوٹرائزڈ فہرست رکھی تھی جنہیں جزیرے پر لایا جا سکتا تھا۔

کسی نے کچھ کیوں نہیں کیا؟

حکام نے لٹل سینٹ جیمز کی تحقیقات کے لیے متعدد کوششیں کیں۔

جنسی مجرم کی حیثیت سے ایپسٹین کو ہر سال دوبارہ اندراج کرانے کی ضرورت ہوتی تھی اور حکام نے 2018 میں اس کے پتے کی تصدیق کے لیے جزیرے کا دورہ کرنے کی کوشش کی تھی۔

لیکن اٹارنی جنرل کے مطابق ایپسٹین نے افسروں کو داخل ہونے سے یہ کہتے ہوئے منع کر دیا کہ یہ ان کا ’فرنٹ کا دروازہ’ ہے اور انہوں نے سینٹ تھامس میں واقع اپنے دفتر میں ان سے ملنے پر اصرار کیا۔

انہوں نے ملازمین سے رازداری کے معاہدوں پر دستخط بھی کروائے جس کے تحت انہیں قانون نافذ کرنے والے اداروں سے بات کرنے سے روک دیا گیا تھا اور انہیں کسی بھی انکوائری کی اطلاع ایپسٹین کو دینے کی ضرورت تھی۔

شکایت میں کہا گیا کہ ‘جنسی مجرم کی اپنے نجی جزیروں سے نگرانی اور نجی طیاروں اور ہیلی کاپٹروں کے ذریعے متاثرین کو لانے لے جانے کے وسائل انوکھے چیلنجز کی نمائندگی کرتے ہیں اور ایپسٹین انٹرپرائز کو جانچ پڑتال کو محدود کرنے کا موقع ملتا ہے۔’

اس کے علاوہ لٹل سینٹ جیمز اور گریٹ سینٹ جیمز دونوں اپنی مرجان کی چٹانوں اور جنگلی حیات کی وجہ سے محفوظ علاقے ہیں۔

مقامی منصوبہ بندی کے حکام کو ایپسٹین پر اپنے بلڈنگ پرمٹ سے تجاوز کرنے کا شبہ تھا اور اٹارنی جنرل کی شکایت میں کہا گیا ہے کہ ماحولیاتی قوانین کی خلاف ورزی پر ان پر ہزاروں ڈالر کا جرمانہ عائد کیا گیا تھا۔ تاہم اس طرح کی رقم ایپسٹین کے لیے کچھ بھی نہیں تھی۔

درحقیقت، شکایت میں دلیل دی گئی ہے کہ ایپسٹین کی طرف سے گریٹ سینٹ جیمز کی خریداری صرف لٹل سینٹ جیمز پر ہونے والے واقعات کو چھپانے کے لیے ایک کوشش تھی۔

ایپسٹین انٹرپرائز نے اس جزیرے کو 20 ملین ڈالرز سے زیادہ میں خریدا کیونکہ شرکا اس بات کو یقینی بنانا چاہتے تھے کہ یہ ایک ایسا اڈہ نہ بن جائے جہاں سے دوسرے لوگ ان کی سرگرمیاں یا زائرین دیکھ سکیں۔

ایپسٹین نے یہ جائیدادیں اس لیے خریدی ہیں تاکہ وہ اپنے طرز عمل کو مزید محفوظ رکھ سکیں، قانون نافذ کرنے والے اداروں یا عوام کی جانب سے ان کی نشاندہی کو روکا جا سکے اور انہیں اپنے مجرمانہ کاروبار کو جاری رکھنے اور چھپانے کی اجازت دی جا سکے۔

ایک ‘مجرمانہ کاروبار’

دسمبر 2022 میں یو ایس ورجن آئی لینڈز نے جے پی مورگن چیس کے خلاف نیویارک کی ایک وفاقی عدالت میں مقدمہ دائر کیا تھا جس میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ وال سٹریٹ بینک ایپسٹین کو اپنے دو سنسان جزیروں پر خواتین اور لڑکیوں کو ’جنسی غلامی‘ میں لانے میں مدد کرنے میں ملوث تھا۔

یو ایس وی آئی کے اٹارنی جنرل نے الزام عائد کیا کہ جے پی مورگن نے ’لیور کھینچنے میں‘ مدد کی جس کے ذریعے ایپسٹین نے اپنے معاونوں اور متاثرین کے نیٹ ورک کو ادائیگی کی۔

اس علاقے کے وکلا نے مقدمے میں الزام عائد کیا کہ ایپسٹین نے جے پی مورگن کے اکاؤنٹس سے سالانہ 750,000 ڈالر کی نقد رقم نکالی باوجود اس کے کہ بینک نے مرحوم پیڈوفائل کی بچوں کے جنسی مجرم کے طور پر ’تنبیہ‘ کی تھی۔

جے پی مورگن نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے ایپسٹین کے جرائم کا الزام یو ایس وی آئی کے اعلیٰ عہدیداروں پر ڈالنے کی کوشش کی۔ ان کے وکلا نے دعویٰ کیا کہ یو ایس وی آئی نے ’ان کی دولت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے‘ انہیں جواب دہ بنانے سے بچایا۔

2023 کے اوائل میں یو ایس وی آئی نے خاموشی سے بینک کے اعلیٰ عہدےداروں اور دیگر طاقت ور شخصیات کے لیے پیش ہونے کے احکامات جاری کرنا شروع کر دیے تھے۔

ان میں جے پی مورگن کے سی ای او جیمی ڈیمن، ٹیسلا کے سی ای او اور ایکس کے مالک ایلون مسک اور گوگل کے شریک بانی لیری پیج اور سرگئی برن شامل تھے۔

اس بات کا کوئی اشارہ نہیں ہے کہ ان میں سے کوئی بھی شخص ایپسٹین کی بدنامی میں ملوث تھا۔

مئی کے اواخر میں جب مسٹر ڈیمن سے یو ایس وی آئی کے وکلا نے حلفیہ پوچھ گچھ کی تو انہوں نے کہا کہ انہیں یاد نہیں کہ 2019 میں ان کی گرفتاری سے پہلے ایپسٹین یا ان کے جنسی استحصال کے بارے میں انہوں نے کبھی کچھ سنا تھا۔

وال اسٹریٹ سے تعلق رکھنے والے ڈیمون نے، جنہوں نے صدارتی انتخاب لڑنے میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے، کہا کہ انہوں نے ایپسٹین کے بارے میں سب سے پہلے اس وقت سنا جب ’یہ کہانی کھل کر سامنے آئی۔‘

ویڈیو بیان کی تفصیل کے مطابق مسٹر ڈیمن کو ایپسٹین کے سابق اسسٹنٹ کی طرف سے ایک ای میل موصول ہوئی جس میں کہا گیا تھا کہ یہ جوڑا 2010 میں ملنے والا تھا۔

انہوں نے زوردار جواب دیا کہ اس نے نہ کبھی ملاقات کا وقت لیا، نہ کبھی ملاقات کی یا کبھی ’جیف ایپسٹین‘ کو جانتا تھا۔

مئی میں عدالت میں جمع کرائی گئی درخواستوں میں جے پی مورگن نے جزیروں اور سینیئر حکام پر الزام عائد کیا تھا کہ انہوں نے ایپسٹین کو اپنے جرائم کا ارتکاب کرنے کے قابل بنایا۔

بینک کے وکلا نے دعویٰ کیا کہ یو ایس وی آئی کے اعلیٰ عہدیداروں کو ایپسٹین نے خرید لیا تھا اور ’ان کی دولت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے‘ ان کے ساتھ گرمجوشی سے کام کیا تھا۔

انہوں نے لکھا ’اس نے انہیں پیسے، مشورے، اثر و رسوخ دیا اور احسان کیے۔ بدلے میں انہوں نے انہوں ان کی حفاظت کی اور یہاں تک کہ انعام بھی دیا۔‘

جے پی مورگن نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ایپسٹین نے یو ایس وی آئی کے ایک عہدیدار کی سیاسی مہم میں سرمایہ کاری کی تھی جس نے بعد میں اسے ٹیکس چھوٹ دی تھی۔

اس کے بعد ستمبر میں مقدمے کی سماعت شروع ہونے سے چند ہفتے قبل جے پی مورگن نے اعلان کیا کہ اس نے اس معاملے کو یہ تسلیم کیے بغیر کہ وہ غلطی پر تھا 75 ملین ڈالرز میں نمٹا دیا۔

ایک بیان میں بینک نے کہا کہ وہ ورجن آئی لینڈ کے خیراتی اداروں اور انسانی سمگلنگ کی روک تھام کی تنظیموں کو 55 ملین ڈالرز ادا کرے گا جبکہ جزیرے کے قانونی اخراجات کو پورا کرنے کے لیے 20 ملین ڈالرز ادا کرے گا۔

 ان جزائر کا اب کیا ہوگا؟

ایپسٹین 2019 میں جیل میں انتقال کر گئے تھے، جسے حکام نے خودکشی قرار دیا تھا۔

جون 2023 میں امریکی حکومت کی ایک رپورٹ میں ان کی موت کی وجہ بننے والی غلطیوں کی ایک فہرست پیش کی گئی تھی لیکن اصل تجزیے کی تصدیق کی تھی۔

اس کے بعد تقریبا دو سال تک لٹل سینٹ جیمز اور گریٹ سینٹ جیمز کی قسمت اس وقت مشکل کا شکار رہی جب امریکی ورجن جزائر کی حکومت نے ایک جج سے درخواست کی کہ اسے ایپسٹین کے پرانے اثاثوں کا کنٹرول دیا جائے۔

ارب پتی کے وکیل نے اس درخواست کو یہ کہتے ہوئے چیلنج کیا کہ وہ ان کے اثاثوں کو جنسی زیادتی کے متاثرین کے لیے ایک ریلیف فنڈ قائم کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ ان کے دو جزیروں پر سے پابندی ہٹا دے تاکہ وہ انہیں فروخت کر سکیں۔

مس جارج نے ان پر جواب میں ان پر الزام عائد کیا کہ وہ جائیداد کو غلط طریقے سے چلاتے ہوئے ‘وکلا، لینڈ سکیپنگ اور ہیلی کاپٹر کی فیس ادا کرتے ہیں، لیکن ان بہادر خواتین کے لیے نہیں جو معاوضے کے فنڈ میں حصہ لینے کے لیے آگے آئی ہیں۔’

لیکن نومبر 2022 میں امریکی ورجن جزائر ایپسٹین اسٹیٹ کے ساتھ ایک سمجھوتے پر پہنچ گئے جس نے حکومت کو 105 ملین ڈالرز اور جزائر کی حتمی فروخت سے حاصل ہونے والی آمدنی کا نصف حصہ ادا کرنے پر اتفاق کیا۔ اس کے علاوہ ماحولیاتی نقصان کے لیے 450000 ڈالر ادا کرنے پر بھی راضی ہوئے۔

حکام کا کہنا ہے کہ ایپسٹین نے غلامی کے دنوں سے پرانے نوآبادیاتی ڈھانچوں کے کھنڈرات کو صاف کر دیا تھا۔

فروخت کا راستہ واضح ہونے کے بعد سرمایہ کار سٹیفن ڈیکوف نے تین مئی، 2023 کو اعلان کیا کہ وہ دونوں جزیروں کو 60 ملین ڈالرز میں خرید لیں گے۔ انہیں امید ہے کہ 2025 کے آخر تک وہ 25 کمروں کا لگژری ریزورٹ کھول دیں گے۔

یہ رقم اصل میں جزیروں کی 125 ملین ڈالرز کی قیمت کے نصف سے بھی کم تھی۔

لٹل سینٹ جیمز پژمردہ سیاحوں، ’شہری ایکسپلوررز‘ اور سوشل میڈیا انفلوئنسرز کے لیے ایک ہاٹ سپاٹ بن گیا ہے جو جزیرے تک رسائی حاصل کرنے اور ویڈیوز بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

مسافر اکثر اس کے بارے میں پوچھتے ہیں اور کچھ مقامی کشتی چلانے والے اسے اپنے ٹور کا حصہ بنا لیتے ہیں۔

نومبر 2021 میں دی انڈپینڈنٹ کی طرف سے توجہ دلائے جانے کے بعد گوگل میپس پر جزیرے کی فہرست سے جڑے متعدد جارحانہ لطیفے ہٹا دیئے تھے۔

سینٹ تھامس کے ایک ٹیکسی ڈرائیور ورنن مورگن نے اے پی کو بتایا کہ وہ چاہیے گے لوگ اس کا پیچھا چھوڑ دیں۔ انہوں نے کہا، ’اس سے ورجن جزائر کی ایک طرح سے بدنامی ہوئی ہے۔‘

’ہم چاہتے ہیں کہ ورجن جزائر کو ایک مختلف تناظر میں دیکھا جائے۔‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close