”سی پیک“  ڈیموگرافک بم

عزیز سنگھور

پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) سندھ کے لئے ڈیموگرافک بم ثابت ہوگا۔ کراچی کی ساحلی پٹی پر سی پیک کے منصوبوں اور سرگرمیوں کی وجہ سے شہر اور گرد و نواح کی اراضی کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں ۔ مختلف ہاؤسنگ اسکیمز بنانے کی تیاریاں شروع ہوگئیں۔ نہ صرف ہاؤسنگ اسکیمز بلکہ کراچی میں الگ شہر بنانے کے منصوبے بھی زیرغور ہیں۔ دوسری جانب بعض انڈیجینس لوگوں کی آبادی اور اراضی پر سرکاری اداروں اور لینڈ مافیا کی نظریں ہیں۔ انہیں مختلف بہانوں سے تنگ کرنے کا سلسلہ جاری ہے. ڈیموگرافک تبدیلی کو روکنے کے لئے حکومتی حلقوں کے پاس کوئی حکمت عملی نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے سندھی اور بلوچ آبادیاں عدم تحفظ کا شکار ہوگئی ہیں۔ ڈیموگرافک تبدیلی سے سندھی عوام کے قومی تشخص کو شدید خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔ صرف سندھ کے دارالحکومت کراچی کی آبادی اتنی بڑھ جائے گی کہ یہ پورے صوبے کے دیگر اضلاع کے برابر ہو جائے گی۔ جس سے سندھی عوام کے اقلیت میں تبدیل ہونے کے خدشات ہیں۔ دیکھا جائے کراچی کی یہ ترقی سندھی عوام کے لئے ایک موت ثابت ہوگی۔ سندھی عوام کے ووٹوں سے اقتدار میں آنے والی جماعت پیپلزپارٹی اور سندھی قوم پرست جماعتوں کو کراچی میں ڈیموگرافک تبدیلی کے خلاف تحریک چلانے کی ضرورت ہے۔

سپرہائی وے میں بے شمار بڑی اسکیمیں بن رہی ہیں۔ مستقبل میں کراچی جامشورو اور حیدرآباد کوملایا جائے گا۔ تین اضلاع کی آبادیاں آپس میں مل جائیں گی۔ ان اضلاع کو جدا کرنے والی تمام خالی اراضی پر شہر کے شہر بنائے جائیں گے۔ بحریہ ٹاؤن کراچی پھیلتے پھیلتے اب ضلع جامشورو کی حدود میں اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہے ـ ضلع جامشورو کی حدود میں آنے والے گوٹھوں کو چار دیواری میں بند کر کے آس پاس کی زمینوں پر اس کی ہیوی مشینریز کام کر رہی ہیں، پہاڑوں کے کاٹنے کا عمل جاری ہے ـ ندیوں کو ملیا میٹ کیا جا رہا ہے ـ واضح رہے کہ یہ علاقے نیشنل کھیرتر پارک کے پروٹیکٹیڈ ایریا کی حدود میں آتے ہیں۔ جہاں نایاب جنگلی حیات پائی جاتی ہیں ـ

سندھ حکومت کی بحریہ ٹاؤن کو مکمل پشت پناہی حاصل ہے۔ ان کی آشیرباد سے بحریہ ٹاؤن کراچی کو سیاسی بنیادوں پر ہزاروں ایکڑ اراضی ہاؤسنگ اسکیم کو اونے پونے داموں میں الاٹ کی گئی۔ جس کی مالیت 460 ارب روپے بنتے تھے۔ جس پر عدالت عظمیٰ کے احکامات کی روشنی میں بحریہ ٹاؤن کو دی جانے والی ہزاروں ایکڑ زمین کی الاٹمنٹ منسوخ کر دی تھی۔ جس پر بحریہ ٹاؤن نے 460 ارب روپے واپس کرنے پر آمادگی ظاہر کردی تھی

جبکہ ملیر ایکسپریس وے منصوبے کو ڈی ایچ اے فیز نائن اور بحریہ ٹاؤن جامشورو کے لئے منظوری دی گئی ہے۔ یہ اربوں روپے کا منصوبہ نجی ہاؤسنگ اسکیموں کے لئے تیار کیا جا رہا ہے۔ جبکہ دوسری جانب ضلع ملیر کے لوگ تعلیم اور صحت کی سہولیات سے بھی محروم ہیں۔ ملیرایکسپریس وے ڈی ایچ اے کریک ایونیو سےشروع ہوکر جام صادق پل، شاہ فیصل کالونی روڈ، فیوچرکالونی سے ہوتا ہوا ایم نائن پر کاٹھور تک جائے گا۔ اس منصوبے کے بننے سے تقریبا دو درجن سے زائد قدیم گوٹھ متاثر ہونگے۔ بے شمار زرعی اراضی صفحہ ہستی سے مٹادی جائے گی۔ یہ منصوبہ ترقی کے نام پر ملیر کے قدیم باسیوں کے لئے ایک موت کاپیغام ثابت ہوگا۔

کراچی کے دو جڑواں جزائر ڈنگی اور بھنڈار پر ایک نیا شہر بسانے کا منصوبہ ہے۔ یہ دونوں جزائر کراچی کے ساحل پر ابراہیم حیدری کے قریب واقع ہیں۔ دونوں جزائر پر مینگرووز کے جنگلات موجود ہے۔ ان جنگلات کو کاٹ کر آئی لینڈ سٹی کے نام پر ایک نیا شہر بسایا جائےگا۔ اس سلسلے میں امریکا کے بڑے سرمایہ کار تھامس کریمر کی ایسوسی ایٹ کمپنیاں اوربحریہ ٹاؤن آف پاکستان کے مابین ایک معاہدہ ہوا ہے۔ آئی لینڈ سٹی میں بارہ ہزار ایکڑ رقبے کو پانچ سے دس سالوں میں ڈویلپ کر دیا جائے گا۔ دنیا کی بلند ترین عمارت بنائی جائے گی۔ نیٹ سٹی، ایجوکیشن سٹی، ہیلتھ سٹی، رپورٹ سٹی اور دوسرا انفراسٹرکچر بنے گا۔ آئی لینڈ سٹی کراچی ڈیفنس سے ساڑھے تین کلومیٹر سمندر کے اندر بنایا جائے گا۔ سمندر کے اوپر دنیا کا جدید ترین 6 رویہ پل بنا کر اسے کراچی ڈیفنس سے منسلک کیا جائے گا ۔

سی پیک کی وجہ سے نئے بننے والے ضلع کیماڑی کی اہمیت اور افادیت بڑھ گئی ہے ۔ کیماڑی کے علاقے لال بکھر، گابوپٹ، اللہ بنو اور دیھ من کی اراضی کے الاٹمنٹس کا سلسلہ جاری ہے۔ مقامی افراد کی جدی پشتی اراضی کے تیس سالہ لیز اور 6 فارم لیز کو کینسل کیا جارہا ہے۔  اس اراضی کو بلڈرز مافیا اور وفاقی اداروں کے حوالے کئے جا رہا ہے.

ماری پور، گریکس ولیج سمیت دیگر علاقوں کو  صدیوں پرانی آبادی ہونے کے باوجود مالکانہ حقوق حاصل نہیں ہیں۔ ان  علاقوں میں نئی آبادیاں بسائی گئیں۔ جنہیں مالکانہ حقوق حاصل ہیں۔ ان  میں جاوید بحریہ، نیول کالونی اور دیگر شامل ہیں۔ حالانکہ جاوید بحریہ مقامی افراد کی اراضی پر قائم کی گئی ہے۔ کسی زمانے میں یہاں باغات ہوا کرتے تھے۔ لوگ کھیتی باڑی سے اپنی گزر بسر کرتے تھے۔ ان کے باغات پر بزور طاقت  قبضہ کیا گیا۔

محکمہ ریونیو سندھ نے ہاکس بے کی خوبصورتی کو مہندم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ہاکس بے میں بڑے بڑے گودام بنائے گئے۔ دنیا میں ساحلی علاقوں میں گودام اور ویئر ہاؤسز بنانے کی اجازت نہیں ہوتی ہے۔ بلکہ وہاں سیاحت کی صنعت کو فروغ دیا جاتا ہے۔ ٹورازم سے ریونیو جنریٹ کیا جاتا ہے۔ جبکہ یہاں دنیا کے برعکس پالیسیاں مرتب کی گئیں۔ جس سے پوری ساحلی پٹی آج گوداموں میں تبدیل ہوگئی ہے۔ جہاں بڑے بڑے ھیوی وہیکلز کا راج ہے۔ ان گوداموں کا خاتمہ کیا جائے ان کی جگہ وہاں تعلیمی، صحت کے مراکز اور پارکس تعمیر کئے جائے۔

اسی طرح دیھ لال بکھر (ہاکس بے) میں  تیس سے زائد قدیم گوٹھ آباد ہیں۔ ان کے مال مویشی اور زرعی اراضی پر کالعدم کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی (کے ڈی اے) نے ترقی کے نام پر قبضہ کر لیا۔ اور جہاں 42 ہزار سے زائدگھر بنانے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ جس کو کے ڈی اے اسکیم 42 کا نام دیا گیا۔ قدیم گوٹھوں کے چاروں اطراف میں دیواریں (باؤنڈری وال) لگادی گئیں۔ ان کی آبادی کو محدود کرنے کی سازش کی گئیں۔ پوری کی پوری آبادی کو جیل میں تبدیل کر دیا گیا۔ جب شہید بے نظیر بھٹو کی حکومت آئی تو انہوں نے لیاری کے عوام کو رہائشی سہولت فراہم کرنے کے لئے پہلے مرحلے میں پانچ سو گھر بنا کردیے۔ جو پانچ سو کوارٹرز ہاکس بے کے نام سے مشہور ہے۔ پیپلز پارٹی حکومت نے کے ڈی اے کو کالعدم قراردے کر اس کی جگہ لیاری ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ایل ڈی اے) کا قیام عمل میں لایا۔جس کا مقصد تھا کہ لیاری اور موجودہ کیماڑی ضلع میں قائم قدیم گوٹھوں کے عوام کو پانچ سو کوارٹرز کی طرح مزید ہاؤسنگ اسکیمز دی جائیں تاکہ لیاری اور موجودہ کیماڑی ضلع کے قدیم گوٹھوں کے باسیوں کو ایک چھت مل سکے۔ اس سلسلے میں ایل ڈی اے کو دیھ مواچھ میں دو ہزار سات سو اراضی بھی دی گئیں۔ تاکہ وہاں مزید ہاؤسنگ اسکیم شروع ہوسکیں۔ تاہم ایل ڈی اے حکام نے اس کے برعکس کام شروع کردیا۔ سرکاری ادارہ ہوتے ہوئے ایل ڈی اے ایک قبضہ مافیا بن گیا۔ ایل ڈی اے نے اپنے دائرہ کار کو بڑھا کر دیھ لال بکھر کو بھی اپنے لپیٹ میں لے لیا، جبکہ ان کی حدود دیھ مواچھ تک محدود ہے۔ دیھ لال بکھر کے مقامی زمینداروں کی اراضی بلڈرمافیاز کے حوالے کی جارہی ہے۔ پولٹری فارمز سمیت زراعی اراضی کو بلاجواز غیرقانونی قرار دے دیا گیا. لیاری ڈیولپمنٹ اتھارٹی اپنے نام سے رو گردانی میں مصروف ہے۔

ضلع کیماڑی کے علاقے  دیھ من اور دیھ اللہ بنو سمیت مبارک ولیج میں ہزاروں ایکڑ اراضی نیوی کو دی گئی ۔ یہ اراضی مقامی افراد کی ملکیت ہے۔ جہاں قدیم سندھی اور بلوچ گوٹھ آباد ہیں۔ یہ آبادیاں تین سو سال پرانی ہیں۔ گوٹھوں کو محدود کیا گیا۔ بڑھتی ہوئی آبادی کے لئے مزید اراضی نہیں دی جارہی ہے۔ جس سے آبادی گنجان ہورہی ہے۔ جہاں کسی زمانے میں مقامی کسان کھیتی باڑی کرتے تھے۔ اور اپنا گزر بسر کرتے تھے۔ مقامی افراد کی زمینوں کی ملکیت ان کی مرضی اورعلم کے بغیر تبدیل کی گئی۔ اور انہیں ان کی ملکیت سے محروم کیا گیا۔

کراچی پورٹ سے منسلک مختلف جزائر آباد ہیں۔ جن میں شمس پیر، بابا، بھٹ اور دیگر شامل ہیں۔ جہاں سندھ کے اصل باسی ”میر بحر“  آباد ہیں۔ ان جزائر کے ماہی گیروں نے سی پیک کے تحت کراچی پورٹ کو توسیع دینے کے بہانے ان جزائر پر انہیں گھروں سے بے دخل کرنے کے خدشات کا اظہار بھی کیا ہے۔

سی پیک کراچی کو ترقی دینے کے نام پر دراصل سندھ کے عوام کو اقلیت میں تبدیل کرنے کا ایک آئینی اور قانونی ہتھیار ہے۔ جس کے تحت سندھ میں سندھی قوم اقلیت میں چلی جائے گی.

بشکریہ روزنامہ آزادی

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close