دنیا کے ویران ترین صحرا کا جینیاتی خزانہ کیسے عالمی بھوک مٹا سکتا ہے؟

نیوز ڈیسک

چلی : چلی کے اتاکاما صحرا میں پودوں کی صورت میں موجود جینیاتی خزانے کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ نہ صرف حال بلکہ آنے والی نسلوں میں بھی غذائی مسئلہ بڑی حد تک حل کرسکتا ہے

چلی میں واقع اتاکاما دنیا کا سخت ترین اور بے رحم صحرا ہے، جسے کرہ ارض پر خشک ترین علاقہ بھی قرار دیا جاتا ہے

مگر حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یہاں اب بھی زراعت اور کھیتی باڑی ہو رہی ہے، جس کی وجہ یہاں پائے جانے والے وہ عجیب وغریب پودے ہیں جو انتہائی ناموافق حالت میں غذا اور غذائیت دونوں فراہم کرتے ہیں

 

ارضیاتی اور نباتاتی ماہرین کا خیال ہے کہ دنیا بھر میں وسیع رقبہ گرمی اور خشک سالی کی لیپٹ میں ہے اور یہاں کے پودوں کی جینیات کو سمجھ کر تیزی سے بدلتے خطوں میں بھی زراعت کو فروغ دیا جا سکتا ہے

یہی وجہ ہے کہ ماہرین نے اتاکاما ریگستان میں موجود درختوں اور پودوں پر اس حوالے سے سنجیدہ تحقیق شروع کر دی ہے

اس ضمن میں نیویارک یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والی پودوں کی ماہر ڈاکٹر گلوریا کوروزی کا کہنا ہے کہ بدلتی آب و ہوا کے تناظر میں جینیاتی تحقیق بہت ضروری ہے، تاکہ غذائیت سے محروم ، گرم اور خشک علاقوں میں کھانے کے قابل فصلوں کی کاشت کی جا سکے

 

ڈاکٹر گلوریا کوروزی کا ماننا ہے کہ عالمی بھوک ختم کرنے کا یہ ایک اہم اور مؤثر طریقہ ہوگا

اس تحقیق کے لیے سائنسدانوں نے دس سال تک خاک چھانی ہے اور اس عرصے میں کی گئی طویل محنت سے بائیس ایسے مقامات سے پودوں کے نمونے لیے ہیں جو انسان کے کام آسکتے ہیں

ان پودوں کے تمام نمونوں اور مٹی کے ذرات کو احتیاط سے تجربہ گاہ لایا گیا اور تحقیق کے لیے مائع نائٹروجن میں محفوظ کیا گیا ہے۔ پھر محفوظ کردہ پودوں کی تفصیلی جینیاتی ترکیب پر تحقیق کی گئی، جو اب بھی جاری ہے

اب تک بتیس پودوں کا جینیاتی سیکوینس معلوم کیا گیا ہے اور ان کا موازنہ بتیس ایسی ہی انواع سے کیا گیا جو بہت قریب تھیں

ماہرین کا ہدف تھا کہ کسی طرح امائنو ایسڈ کی جینیاتی اساس کو سمجھا جائے، جس کی بدولت پودے خون جلادینے والی گرمی میں بھی زندہ رہتے اور  پھلتے پھولتے ہیں

پھر ایک قدرے نئی ٹیکنالوجی سے دو سو چھپن ایسے جین تلاش کئے گئے جو تبدیل ہوکر ان پودوں کو سخت جاں بنا رہے تھے۔ مزید تفصیل سے معلوم ہوا کہ ان میں انسٹھ جین ایسے تھے، جنہیں پودوں کی حیاتیات میں بڑے پیمانے پر پڑھا گیا ہے

یعنی اگر یہ جین کسی پودے میں ڈالے جائیں، تو ان میں کئی طرح سے سخت حالات برداشت کرنے کی صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے اور یہی ان ماہرین کی تحقیق کا مرکزی نکتہ بھی تھا

تحقیق سے مزید معلوم ہوا ہے کہ اس صحرا میں دالوں، آلوؤں اور دیگر سبزیوں کی قریب قریب اجناس بھی اگ رہی ہیں

اس بات کو مد نظر رکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ یہ علاقہ ایک جینیاتی حل فراہم کرتا ہے، جس کے تحت مستقبل میں آبادی کی بڑی تعداد کو غذا فراہم کی جا سکتی ہے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close