پولیس والا علاقے کی نگرانی کی لیے با رعب انداز میں نکل پڑا تھا۔ اس کا یہ رعب عادتاً تھا اور ناظرین کی نظر میں تھوڑا سا ریاکارانہ بھی… رات کے دس بجے تھے، سرد ہواؤں کے جھونکے چل رہے تھے جن میں بارش کی خنکی کا اثر تھا، گلیاں تقریبا خالی ہو چکی تھیں.
وہ افسر جب خاموش شاہراہ پر اپنے ڈنڈے کو پر لطف اور پیچیدہ انداز میں حرکت دیتے ہوئے جا رہا تھا. اپنی اس ہلکی پھلکی شیخی اور دلیرانہ انداز سے وہ امن کی حفاظت کرنے والا ایک محافظ نظر آ رہا تھا۔ آس پاس کا ماحول بہت جلد سنسان ہوگیا تھا. ہاں ، کبھی کبھی کسی تمباکو کی دوکان یا رات بھر کھلے رہنے والے قہوہ خانوں سے روشنی کی جھلک نظر آجاتی تھی، لیکن اکثریت ان دکانوں کی تھی جن کا تعلق تجارتی امور سے تھا اور جو شام ڈھلتے ہی بند ہو چکی تھیں
ابھی پولیس والا اس مخصوص بلاک کا صرف آدھا راستہ ہی طے کر پایا تھا، کہ اچانک اس نے اپنی رفتار دھیمی کردی، کیوں کہ ایک تاریک ہارڈ ویئر کی دوکان کے داخلی دروازے پر ایک شخص اپنے ہونٹوں میں ایک بجھا ہوا سگریٹ دابے ٹیک لگائے کھڑا تھا. جیسے ہی پولیس والا اس کی طرف بڑھا وہ فوراً بول پڑا ”سب ٹھیک ہے صاحب! میں تو بس ایک دوست کا انتظار کر رہا ہوں، ایک ایسے وعدے کے لیے، جو بیس سال پہلے کیا گیا تھا.. سننے میں تھوڑا عجیب ہے نا؟ اگر آپ مجھے اس بات کا یقین دلا دیں کہ کوئی مسئلہ نہیں ، تو میں وضاحت کروں.. سالوں پہلے یہاں ’بگ جو براڈیز ریستوران‘ نامی ایک ہوٹل ہوا کرتا تھا…‘‘
پولیس والے نے کہا ’’پانچ سال پہلے تک تو اس کا وجود تھا، پھر اسے منہدم کردیا گیا‘‘
پھر اس شخص نے اپنا سگریٹ سلگایا. ماچس کی روشنی میں ایک چوڑے جبڑے والا دھندلا سا چہرہ نظر آیا، جس کی آنکھوں میں انتظار اور داہنے ابرو کے قریب ایک چھوٹا سا سفید زخم کا نشان تھا. اس کی گلو بند میں ہیرے کا ایک بڑا سا بٹن انوکھے ڈھنگ سے جڑا ہوا تھا ’’بیس سال قبل اسی شب کو میں نے اپنے عزیز دوست اور زمین پر سب سے بھلے انسان ’جمی ویلز‘ کے ساتھ ’بگ جو براڈیز ریستوران‘ میں رات کا کھانا کھایا تھا. ہم دونوں یہاں نیویارک میں دو بھائیوں کی طرح پلے بڑھے تھے.. میری عمر اٹھارہ سال تھی اور جمی بیس سال کا تھا. اگلی صبح اپنی قسمت بنانے کے لیے میں مغرب کو روانہ ہونے والا تھا.. اور جمی کو بھلا کون نیو یارک سے باہر نکال سکتاتھا! کیونکہ ان کے خیال میں کائنات میں رہنے کو بس یہی ایک جگہ تھی.. اس رات ہم دونوں نے وعدہ کیا تھا کہ ہماری حالت خواہ کیسی بھی ہو اور چاہے کتنی ہی لمبی مسافت طے کرنی پڑے، بیس سال بعد ٹھیک اسی جگہ اسی وقت ہم دونوں ایک دوسرے سے ملاقات کرنے آئیں گے۔ ہم نے اندازہ کیا تھا کہ بیس سال کے اندر ہماری قسمت میں جو ہونا ہوگا، وہ ہو جا ئے گا“
’’قصہ تو واقعی بہت دلچسپ ہے… اور اس سے زیادہ دلچسپ ہے ملاقاتوں کے درمیان کا طویل عرصہ.. کیا یہاں سے جانے کے بعد تمہیں اپنے دوست کی کوئی خبر نہیں ملی؟‘‘ افسر نے دریافت کیا
’’جی، ایک دفعہ ہم نے خط و کتابت کی۔ لیکن ایک دو سال بعد ہم دونوں کا رابطہ منقطع ہو گیا ۔ آپ تو جانتے ہی ہیں کہ مغرب نہایت پر لطف جگہ ہے، اسی لیے میں مست ہو کے اس کا چکر لگاتا رہا.. مگر یہ بات یقینی ہے کہ اگر جمی زندہ ہوگا، تو آج کی رات یہاں مجھ سے ملنے ضرور آئے گا، کیوں کہ وہ اس دنیا کا بہت سچا ، ثابت قدم اور بھلا آدمی تھا، وہ اس وعدے کو کبھی نہیں بھول سکتا.. ہزاروں میل کا سفر طے کر کے آج کی شب میں اس دروازے پر کھڑا ہوں، اگر میرا دیرینہ دوست آ جائے، تو ان سب کی قیمت وصول سمجھو‘‘
پھر اس منتظر شخص نے اپنی جیب سے ایک خوبصورت گھڑی نکالی، جس کے ڈھکن میں چھوٹے چھوٹے ہیرے جڑے ہوئے تھے. اور پھر کہا ’’دس بجنے میں تین منٹ کم ہیں۔ ٹھیک دس بجے ہم دونوں ہوٹل کے دروازے پر جدا ہوئے تھے..‘‘
’’…تو ویلز کی محبت آپ کو مغرب سے یہاں کھینچ لائی ہے نا؟‘‘ پولیس والے نے پوچھا
’’جی بالکل! مجھے امید ہے کہ جمی نے بھی آدھا ہی سہی کچھ نہ کچھ سرمایہ اکٹھا کر لیا ہوگا، اگرچہ وہ سیدھا سادہ تھا، لیکن جفاکش اور محنتی انسان تھا.. مجھے اپنا منصب حاصل کرنے کے لیے کچھ ایسے تیز و طرار لوگوں سے مقابلہ کرنا پڑا، جو میرا سب کچھ چھیننے کے در پے تھے.. نیویارک میں تو انسان ایک نالے میں اٹک کے رہ جائے.. ایک اچھا عہدہ تو مغرب میں ہی مل سکتا ہے‘‘
’’میں جا رہا ہوں، امید کرتا ہوں کہ تمہارا دوست صحیح سلامت تم سے آن ملے۔ کیا تم طے شدہ وقت تک ہی اس کا انتظار کروگے؟‘‘
اس نے کہا ’’نہیں.. میں کم از کم آدھا گھنٹہ مزید انتظار کروں گا۔ اگر جِمّی روئے زمین پر کہیں بھی زندہ ہے، تو اس آدھے گھنٹے کے درمیان یہاں ہوگا.. خداحافظ آفیسر!‘‘
پولیس والے نے آہستہ قدموں سے لوٹتے ہوئے شب بخیر کہا اور اپنا ڈنڈا گھماتے ہوئے رخصت ہو گیا..
اب ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی اور ہوا بھی تیز ہو چکی تھی ۔ کچھ راہ گیر خاموشی کے ساتھ کالر اٹھا کر، ہاتھوں کو جیبوں میں چھپا کر تیزی سے گزر رہے تھے. لوہے کے آلات کی دوکان پر کھڑا شخص، جو اپنے بچپن کے دوست سے کیا ہوا ایک بے تکا سا وعدہ وفا کرنے ہزاروں میل طے کر کے آیا تھا، سگریٹ کے کش لیتا رہا اور انتظار کرتا رہا..
ابھی بیس منٹ ہی گزرے تھے، کہ اوور کوٹ میں ملبوس، کانوں کو کالر سے چھپا کر ایک دراز قامت شخص مخالف سمت سے آتا دکھائی دیا.. وہ سیدھے انتظار میں کھڑے اس شخص کے پاس آیا اور تردد آمیز لہجے میں پوچھنے لگا
’’کیا تمہارا نام ’لباب ہے؟‘‘
انتظار میں کھڑے شخص نے بے ساختہ پکارا ’’کیا تم جمی ویلز ہو؟؟‘‘
’’خدا مہربان ہے!‘‘
آنے والے شخص نے کہا.. پھر دونوں نے مصافحہ کیا.
’’یقینا تم باب ہی ہو؟ مجھے یقین تھا کہ اگر تم زندہ ہو، تو مجھ سے ملنے ضرور آؤ گے۔خیر…! بیس سال ایک لمبا عرصہ ہوتا ہے.. باب! کاش وہ پرانا ہوٹل اب تک ہوتا، تو ہم دونوں وہاں بیٹھ کر ایک بار پھر ساتھ ساتھ کھانا کھا سکتے…. اور سناؤ.. مغرب میں کیسا چل رہا ہے‘‘
’’بہت اچھا، وہاں میری ہر مراد پوری ہوئی… لیکن جمی ،تم تو بہت بدل گئے ہو یار، میں نے تصور بھی نہیں کیا تھا کہ تم مزید دو تین انچ لمبے ہو جاؤ گے‘‘
’’ارے ہاں! جب میں بیس کا ہوا تب جاکے میرا قد ہلکا سا لمبا ہوا“
’’جمی، نیویارک میں تو سب ٹھیک چل رہا ہے نا؟‘‘
’’ہاں سب ٹھیک ہی ہے، شہر کے ایک شعبے میں ایک چھوٹے سے منصب پر فائز ہوں.. آؤ نا باب!یہیں قریب میں، میں ایک جگہ جانتا ہوں، وہیں چل کر گزری ہوئی یادیں کھنگالتے ہیں‘‘
پھر دونوں کاندھے سے کاندھا ملا کے گلی میں چل پڑے.. مغرب سے آنے والا شخص جس کی خود پسندی برائے نام کامیابی کی وجہ سے مزید بڑھ چکی تھی، وہ اپنی آپ بیتی سنانے لگا اور دوسرا شخص اپنے کوٹ کے اندر دبک کر اس کی باتیں دلچسپی سے سن رہا تھا..
گلی کے کنارے ایک دواخانہ برقی لائٹ کے قمقموں سے سجا ہوا تھا. یہ دونوں جیسے ہی اس کی روشنی میں پہنچے، دونوں نے معاً ایک دوسرے کا چہرہ دیکھا، مغربی شخص رکا اور فوراً ہی اپنی باہیں الگ کرلیں اور اس کی بات کاٹتے ہوئے کہنے لگا ’’تم جمی ویلز نہیں ہو.. میں نے مانا کہ بیس سال ایک طویل عرصہ ہوتا ہے، مگر اتنا بھی نہیں، کہ اس دوران کسی کی ناک انسان سے بندر کی ناک میں تبدیل ہو جائے…‘‘
’’ہاں، مگر یہی عرصہ کسی اچھے انسان کو برا بنا دیتا ہے‘‘
دراز قامت شخص نے کہا ’’بیچارے باب! تم گزشتہ دس منٹ سے پولیس کی حراست میں ہو..! شکاگو پولیس کے مطابق تمہارا گزر اس راستے سے ہو سکتا تھا، اس لیے انہوں نے بذریعۂ تار ہمیں اطلاع دی کہ انہیں تم سے کچھ بات کرنی ہے. بھلائی اسی میں ہے تم بلا کسی چوں و چرا کے میرے ساتھ چلو.. پولیس اسٹیشن جانے سے قبل یہ ایک خط ہے، جو کسی نے تمہیں دینے کو کہا تھا۔ یہ خط اس گشت کن پولیس ، ویلز کی جانب سے ہے‘‘
مغربی شخص نے اس کاغذ کے چھوٹے سے ٹکڑے کو کھولا. جب اس نے پڑھنا شروع کیا تو اس کا ہاتھ مستحکم تھا مگر جیسے جیسے اس نے خط مکمل کیا، اس کے ہاتھوں میں لرزش طاری ہو گئی۔ خط کا مضمون نہایت مختصر تھا:
’’باب! میں وعدہ کے مطابق متعین وقت و مقام پر حاضر تھا۔ مگر جب تم نے سگریٹ سلگانے کے لیے ماچس کی تیلی جلائی تو اس کی روشنی میں مجھے جو چہرہ نظر آیا، وہ ایک ایسے مجرم کا تھا، جس کی تلاش شکاگو پولیس کو تھی. میں خود تمہیں گرفتار کیسے کرتا؟ اس لیے میں واپس آگیا اور یہ کام ایک سادہ لباس
افسر کو سونپا اور تمہیں گرفتار کرنے بھیج دیا…
تمہارا دوست جمّی“
انیسویں صدی کا مایہ ناز افسانہ نگار ولیم سڈنی پورٹر، قلمی نام او ہنری (پیدائش : 11 ستمبر، 1862ء – وفات: 5 جون، 1910ء)
او ہنری گرینزبورو، شمالی کیرولائنا، ریاستہائے متحدہ امریکا میں پیدا ہوا۔ انہیں بچپن ہی سے مطالعے کا شوقین او ہنری کو پندرہ سال کی عمر میں ہی اسکول چھوڑ کر ٹیکساس کے ایک ڈرگ اسٹور میں ملازمت اختیار کرنی پڑی۔ سیمابی طبیعت کے سبب ہیوسٹن کا رخ کیا اور یہاں طرح طرح کی ملازمتیں کیں۔ ایک بینک میں کلرکی، ایک زرعی فارم میں دو سال ملازمت کی۔ 1887ء میں ایتھول ایسٹس روچ سے شادی کی جس سے ایک لڑکی اور ایک لڑکے کی پیدائش ہوئی۔ اس نے مزاحیہ ہفت روزہ رولنگ اسٹون کا اجرا کیا، لیکن ناکامی سے دوچار ہوا۔ بعد ازاں رپورٹر اور کالم نگار کے طور پر ہیوسٹن پوسٹ میں ملازمت اختیار کی۔ 1895ء میں فرسٹ نیشنل بینک میں دورانِ ملازمت ان پر غبن کا انکشاف ہوا، مقدمہ چلا اور اسی متنازع غبن پر عدالت کی طرف سے اسے پانچ سال کی سزا سنائی گئی۔ اسی دوران بیٹی کی پیدائش ہوئی۔ بیٹی کے لیے رقم کی فراہمی کی خاطر مختصر کہانیاں لکھنے کا آغاز کیا۔ 1899ء میں اس کی ابتدائی تخلیقات میک کلیوز میگزین میں شائع ہوئیں۔ پانچ سالہ سزا کے تین برس قید میں گزارنے کے بعد رہائی نصیب ہوئی اور پرانے نام سے چھٹکارا حاصل کر کے نئے نام او ہنری سے پہچان بنائی۔ 1902ء میں نیو یارک میں سکونت اختیار کی اور نیو یارک ورلڈ میں کہانیاں لکھنے کا ہفتے وار سلسلہ شروع کیا۔ اس کی زندگی میں تقریباً 600 کہانیوں پر مشتمل 10 مجموعے شائع ہوئے۔ اس کی وسطی اور جنوب مغربی امریکا کے پس منظر میں لکھی گئی مہم جویانہ کہانیاں کافی مقبول ہوئیں۔ اس کے علاوہ نیو یارک کے شہریوں کی زندگی پر مبنی کہانیاں بھی مقبول عام ہوئیں۔ او ہنری زندگی کے آخری چند برس کثرتِ شراب نوشی، خرابی صحت اور تنگ دستی سے نبرد آزما رہا۔ بالآخر جگر کے مرض میں مبتلا ہو کر 5 جون 1910ء کو نیو یارک میں وفات پا گیا۔ 1918ء میں اس کے نام پر بہترین کہانیوں کے سالانہ ”او ہنری میموریل ایوارڈ“ کا آغاز ہوا۔
یہ ان کی ایک بہترین کہانی After Twenty Years کا ترجمہ ہے