’تم نہیں کر سکتے‘ کے جواب میں بلوچستان کے ثناء اللہ نے سب کو کیسے حیران کیا؟

ویب ڈیسک

یہ کہانی ہے بلوچستان کے ثنااللہ فیض کی۔۔ جنہیں گلی محلوں میں اسکول کالج اور یونیورسٹی جاتے ہوئے اپنے پستہ قد کی وجہ سے ہمیشہ مذاق کا نشانہ بننا پڑا

اسی مذاق کے کرب نے انہیں اندر سے کہیں توڑ بھی دیا لیکن ٹوٹنے کے باوجود وہ اپنے حصے بکھرے جوڑنے سے کبھی پیچھے نہیں ہٹے

وہ ’تم نہیں کر سکتے‘ کے الفاظ سنتے سنتے بڑا ہوا لیکن اپنے دل میں وہ ’میں کر کے دکھاؤں گا‘ کی ٹھان چکے تھے

وہ منفی اور تکلیف دہ معاشرتی رویوں پر مبنی ماضی کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں ”بچے تو بچے، بڑے بھی مجھ پر آوازیں کستے تھے اور کہتے تھے کہ تم اپنے بیگ کا وزن نہیں اٹھا سکتے تو پڑھائی کیا کرو گے۔۔ کبھی دھکا دے کر نالے میں گرا دیتے تو کبھی سر پر مٹی ڈال دیتے۔۔“

لیکن بلوچستان کے ضلع مستونگ کے پسماندہ علاقے کانک کے لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے اس نوجوان نے تمام مشکلات کے باوجود اپنے ناقابلِ شکست عزم اور حوصلے کی بنا پر بلآخر اپنا لوہا منوا ہی لیا

پینتیس سالہ ثنءا اللہ نے دنیا کی پچاس بڑی یونیورسٹیوں میں شمار ہونے والی فرانس کی سربون یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے

ثناء اللہ فیض نے بچوں کو ٹیوشن پڑھا کر کوئٹہ میں اپنی پڑھائی کے اخراجات پورے کیے۔ انہوں نے 2018 میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کی اسکالرشپ حاصل کر کے فرانسیسی یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور پچھلے ہفتے اپنی تحقیقی مقالے کا کامیابی سے دفاع کر کے پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کر لی

انہوں نے خودکار گاڑیوں کے مواصلاتی نظام پر تحقیق کی ہے اور یہ تحقیق گاڑیوں کی مینوفیکچرنگ سطح پر کام آ سکتی ہے اور اس سے خود کار گاڑیوں کی حفاظتی خصوصیات میں اضافہ ہوسکتا ہے

ثناء اللہ فیض بتاتے ہیں ”میرا تعلق لوئر مڈل کلاس سے ہے، والد پرچون کی چھوٹی سی دکان چلاتے ہیں۔ والد نے ہمیشہ اعلٰی تعلیم کے لیے میری حوصلہ افزائی کی۔ یہی وجہ تھی کہ میں گریجویشن کرنے والا خاندان کا پہلا فرد تھا، اس کے بعد چھوٹے بھائی نے بھی ایم بی اے کیا“

ثناء اللہ فیض کہتے ہیں ”میں شروع سے ہی پڑھائی میں اچھا تھا، پانچویں اور آٹھویں جماعت کے بورڈ امتحان میں پورے ضلع میں ٹاپ کیا۔ میٹرک کا امتحان بھی اچھے نمبروں سے پاس کیا۔۔ والد نے مالی پریشانیوں کے باوجود کوئٹہ کے ایک اچھے نجی تعلیمی ادارے میں داخلہ دلوایا۔ کوئٹہ میں گھر نہ ہونے کی وجہ سے کئی بار ماموں کے گھر رہنا پڑا، انہوں نے بھی ہمیشہ مدد کی“

انہوں نے بتایا ”میں اپنی فیس اور دوسرے اخراجات پورے کرنے کے لیے پڑوسیوں کے بچوں کو ٹیوشن پڑھاتا تھا“

بچپن سے ثناء اللہ کا ایک خواب تھا کہ ان کے نام کے ساتھ انجنیئیر یا ڈاکٹر لگے ”میں ٹی وی پر کسی کے نام کے ساتھ انجینیئر، ڈاکٹر یا پروفیسر کا نام دیکھتا تھا تو کزن سے پوچھتا تھا کہ یہ انجینیئر اور ڈاکٹر کیسے بنتے ہیں؟ اس وقت میں نے فیصلہ کیا کہ اپنے نام کے ساتھ انجینئر اور ڈاکٹر لگانا ہے“

ان کا کہنا تھا ”میں نے دل لگا کر پڑھائی پر محنت کی۔ کمپیوٹر میں زیادہ دلچسپی تھی، اس لیے کمپیوٹر انجینئرنگ کی۔ انٹرمیڈیٹ کے بعد کوئٹہ کی بیوٹمز یونیورسٹی سے کمپیوٹر انجینئرنگ میں بی ایس اور ایم ایس کیا۔ 2018ع میں ہائرایجوکیشن کمیشن کی جانب سے بلوچستان کے طلبہ کے لیے پی ایچ ڈی اسکالرشپس کا اعلان ہوا تو میں امتحان پاس کر کے فرانس آ گیا“

ثناء اللہ فیض کا کہنا تھا ”بلوچستان میں اساتذہ کا رویہ اچھا اور بہتر تھا وہ رہنمائی اور مدد کرتے تھے لیکن ہمارا معاشرہ ابھی بھی اس مقام پر نہیں پہنچا، جہاں جسمانی طور پر کمزوری کے شکار افراد کو عزت و احترام اور حقوق ملیں“

ان کے مطابق ”بدقسمتی سے بچے تو بچے بڑے بھی جسمانی طور پر کسی کمزوری کے شکار فرد کا مذاق اڑاتے ہیں۔
قد چھوٹا ہونے کی وجہ سے یونیورسٹی آتے جاتے ہوئے لوگ تنگ کرتے تھے، دھکے دیتے تھے، ایک بار تو لڑکوں نے نالے میں گرا دیا اور ایک بار سر پر مٹی پھینک دی“

ثناء اللہ کا کہنا تھا ”اسکول میں سینیئر لڑکے اپنی کتابوں سے بھرا بیگ میرے سر پر رکھ دیتے تھے اور کہتے تھے کہ ’تم سے تو یہ بیگ بھی نہیں اٹھتا، تم پڑھائی کر کے کیا کرو گے۔۔ اپنے والد کی دکان پر بیٹھا کرو۔۔‘ ایسے واقعات سے دکھ ہوتا تھا اور حوصلہ شکنی بھی۔۔ لیکن اس کے باوجود آگے بڑھنے کی تڑپ موجود رہی“

ثناء اللہ کہتے ہیں ”آج جدید اور ٹیکنالوجی کے دور میں جسمانی سے زیادہ دماغ کی طاقت کی ضرورت ہوتی ہے“

ثناء اللہ فیض کے مطابق ”جب بھی مجھے کوئی کہتا ہے کہ یہ کام آپ نہیں کر سکتے تو میں اسے چیلنج سمجھ لیتا ہوں اور کر کے دکھاتا ہوں“

انہوں نے اس کی مثال کے لیے بتایا کہ فرانس میں جسمانی طور پر نارمل افراد کے لیے ڈرائیونگ لائسنس لینا بھی مشکل ہے۔ یہاں میرے کچھ دوست پانچ چھ سال کی کوششوں کے باوجود ناکام ہیں۔
دوست کہتے تھے ’آپ کبھی ڈرائیونگ لائسنس نہیں لے سکیں گے کیونکہ آپ کو تو فرنچ بھی نہیں آتی‘

ثنا اللہ نے ڈرائیونگ کے ساتھ ساتھ فرنچ زبان بھی سیکھی اور لائسنس بھی حاصل کیا

انہوں نے بتایا ”پاکستان کی نسبت فرانس میں لوگ زیادہ احترام سے پیش آتے ہیں، لوگوں کے سوچنے کا انداز مختلف ہے۔ بس ڈرائیور تک آپ کی مشکل کا احساس کرتا ہے۔ اسی طرح یونیورسٹی نے مجھے ایگزیکٹیو اسٹیٹیس دے کر ہر جگہ تک خصوصی رسائی دی ہے، جہاں باقی طلبہ کو اجازت نہیں“

ثناء اللہ اب جلد واپس آ کر اپنے علاقے میں لوگوں کو تعلیم کی طرف راغب کرنے کا عزم رکھتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ شعور اور تعلیم ہی تمام مسائل کا حل ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close