حیات، حیات ہے

ڈاکٹر سالم سید

حسبِ روایت میرے ہاتھ کا کالعدم قلم اپنے ساتھی دہشتگرد قلم کی شہادت پر دلی رنج وغم اور آفسوس کا اظہار کرتا ہے۔ جس کا کالعدم ساتھی جدید ہتھیاروں اور بارودی مواد سے لیس ایک طویل دہشتگردانہ مقابلہ کرتا ہے۔ جب اس کی گولیاں ختم ہوجاتی ہیں تو سرنڈر کرنے کے بجائے بارودی مواد سے خود کش حملہ کرکے حیات کے ساتھ شہید ہوکر شہادت کے اعلیٰ مقام تک پہنچ جاتا ہے۔ ملزم قلم دعاگو ہے کہ اس کے دیگر دہشتگرد اور سوگوار قلموں کو اللہ تعالیٰ اس عظیم نقصان پر صبر و جمیل اور استقامت عطا فرمائے۔

ہاں! یہاں ہر گھر میں موجود ہر کتاب تخریب کار ہے، ہر جیب میں ہر قلم دہشتگرد ہے، تعلیمی ادارے سلیپر سیل ہیں، ہر استاد تخریب کاری کا ماسٹر مائینڈ ہے، ہر بچہ خودکش بمبار ہے، کتابوں کی دکان اور لائبریریاں دہشتگردی کے باسشن ہیں!

ہاں! گیت گانا بھی دہشتگردی ہے، کیونکہ ہر شاعر مجرم، گلوکار ملزم، میوزک سہولت کار اور کلب تخریب کاری کا سنٹر ہے…

آہ ! یہاں پر جنگ کی کوکھ سے جنم لینے والی دکھ درد بھری کہانیاں بستی ہیں۔ ایک کہانی حیات بلوچ کی ہے۔ ہم کو پتہ نہیں تھا کہ تربت کا ایک زخم مندمل نہیں ہونے پاتا کہ دوسرا زخم لگا دیا جاتا ہے۔
تربت کو ہر طرف آگ لگ رہی ہے۔
ڈنک جل رہا ہے۔
تمپ دازن سلگ رہا ہے۔
آبسر میں طوفان رقص کر رہا ہے۔
بلوچستان کشت و خون کا دردناک نظارہ پیش کر رہا ہے۔

آہ! حیات بلوچ کے دلخراش، افسوسناک، المناک اور درد ناک واقعے کو قلمبند کرتے ہوئے ہاتھ کانپ جاتے ہیں، وجود تھر تھرانے لگتا ہے۔ بڑا دُکھ ہوتا ہے جب ایک ہشاش بشاش اور پڑھے لکھے نوجوان کو اپنوں سے زبردستی چھین کر بے دردی سے قتل کیا جاتا ہے۔ یہ دن بہت تکلیف دہ تھا۔ جب موت ایک نئی بارات لیکر کجھور کے درختوں میں داخل ہوتی ہے۔ حیات کا دل دھڑکنے لگتا ہے۔ ماں خیالات میں گم سم تھی۔ باپ اور ماں کے دلوں کے سرور، آنکھوں کے نور کو گھسیٹ کر سڑک پر خون کی محفل سجائی گئی.. کیا تم کو معلوم نہیں کہ اس سر زمین کی اقدار بدل گئی ہیں، ہم اپنے بس میں نہیں رہے کہ موت جب بھی چاہے دہلیز پر دستک دیتی ہے۔

حیات ہونہار، کمسن اور محنتی طالب علم تھا. اپنی پڑھائی میں مگن تھا۔ کرونا وائرس نے وقتی طور پر اس کو کراچی سے تربت منتقل کیا مگر یہاں اس کو سفاکیت کا نشانہ بنا کر ابدی نیند سلا دیا گیا۔

حیات کی ماں جب الماری میں حیات کی کتابوں کو دیکھتی ہوگی، تو ان کے دل میں حسرت و یاس کی کون سی کیفیت پیدا ہوتی ہوگی؟
اب ان کتابوں کو الماری سے نکال کر کون پڑھے گا؟
کتابیں اب یتم ہوگئیں!

آہ! حیات کی غمزدہ ماں بستر سے لپٹ کر کیسے نیند لانے کی کوشش کرے گی؟
اب کالی رات کی صبح کیسے ہوگی؟

اولاد ﷲ پاک کی طرف سے بڑی نعمت ہے۔ وحشی قاتل کو کیا پتہ کہ حیات کی ماں نے حیات کو نو ماہ کی مشقت، درد اور سخت تکالیف کے بعد جنم دیا ہے۔ جب حیات پیدا ہوا تھا تو گھر میں خوشیوں کا سماں تھا۔ بہنوں کی خوشیاں رنگ بکھیرتی تھیں۔ وہ کیا کیا امیدیں لگائے بیٹھی تھیں۔ کیسے کیسے خواب دیکھتی تھیں۔ سب چکنا چور ہوگئے۔ حیات کی ولادت کے بعد حیات کے ماں باپ نے حیات کی تعلیم و تربیت، خوراک، صحت اور اس کے لئے سازگار ماحول کو اولین ترجیح دی۔ حیات کے ماں باپ نے کس ارمان سے حیات کو پالا ہوگا۔ باپ نے کیسے اپنا پیٹ کاٹ کاٹ کر حیات کی تعلیم اور دیگر اخراجات پورے کرنے کے لئے اپنے دن اور رات ایک کیے ہونگے۔ اس امید پر کہ بیٹا معاشرے میں کل اپنا نام روشن کرے گا۔ جب اسے سہارے کی ضرورت ہو گی، بیٹا اس کا سہارا بنے گا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ سہارے کو طاقت نے چھین لیا۔

کیا اربابِ اختیار اس اندوہناک اور کربناک واقعہ کو مقتول کی ماں اور باپ کی نگاہ سے دیکھتے اور کان سے سنتے ہیں؟ یا اپنی نگاہ سے دیکھتے اور کان سے سنتے ہیں؟

حیات کے ماں باپ دونوں کے ارمان قتل ہوئے۔ نیک خواہشات اور تمنائیں زخمی ہوگئیں۔
امیدیں اور سپنے گہری قبر میں دفن ہوگئے۔
لازوال پیار محبت اور شفقت بے چین ہوگئے۔
بلوچستان کو قصائی کا گھر بنا دیا گیا ہے۔
آہ ! قلم قتل ہوا۔
آہ! علم قتل ہوا۔
کتابوں کے الفاظ شہید ہوئے۔
بلوچوں کا قیمتی سرمایہ شہید ہوا۔
نوجوانوں کا روشن مستقبل تاریک کیا جارہا ہے اور سیاسی گدھ وجود کو نوچ رہے ہیں!
کیچ کی رونقیں خون کی برسات سے سوگ میں بدل گئیں۔
معطر فضا بے رحم گولیوں کی گرجدار آوازوں سے آلودہ ہوگئی،
ہوا کے جھونکوں کی چیخیں نکلیں،
گولیوں کی تڑ تڑاہٹ سے چرند پرند سہم گئے،
بے بسی کے آنسوں جانوروں کی آنکھوں سے چھلک پڑے،
خوف کے مارے لوگ دبے پاؤں اپنی زندگیاں بچانے بھاگ نکلے،
بے قصور کالے پتھر خون سے سُرخ ہو کر شکوہ کرنے لگے،
مٹی شدید زخمی ہوکر اپنے وارثوں کو اونچی صدا میں پکارنے لگی،
حیات کی خون کے بوند سے سڑک کا نقشہ بدل گیا،
ہاں! ظلم کی ٹہنی کبھی پھلتی نہیں..

آہ ! کتنے بدنصیب ماں باپ تھے، ان کے سامنے ان کے جگر کا ٹکڑا گولیوں سے چھلنی ہوکر ان کو مسکرائے بغیر ہمیشہ کے لئے الوداع کہہ گیا..
بڑا دردناک لمحہ ہے جب ماں باپ معصوم بیٹے کے خون کے سیلاب میں نوحہ کناں ہیں۔
اُف ! بیٹا ماں باپ کو الوداع کہے بغیر دائمی سفر کے لئے روانہ ہوگیا۔
کتنا تکلیف دہ منظر ہوگا ، حیات پیٹ کے بل زمین سے چمٹا ہوا تھا۔ جب بے بسی عروج پر تھی، ماں اپنے بیمار کمزور سے ہاتھ اٹھا کر ﷲ تعالٰی سے اپنی بے بسی کا واسطہ دیتی ہے
دونوں ملائم ہتھیلیوں کو بیٹے کے نازک جسم پر رکھتی ہے
ماں کی فریاد اور آہ وفغاں سے عرش بریں لرز اٹھتا ہے
ماں باپ کے آنسو تھمتے نہیں،
آنسوؤں کی لڑی بہتی رہتی یے، مگر زمین کے سینے پر خون کے سیلاب کو دھو نہیں پاتی۔
دکھی ماں باپ میں طاقت کہاں سے عود کر آئی، کہ ان کی چیخ و پکار اور گریہ و زاری کے درد سے آبسر کی دیواروں میں دراڑیں پڑ گئیں۔
کون ان کا درد و دکھ بانٹے گا،
کون ان کی آنکھوں سے بہتے آنسوں پونچھ سکتا ہے،
کون ان کو تشفی دے پائے گا،
بیچارے معصوم چکی کے دو پاٹوں میں پس رہے ہیں۔
کتنا کربناک منظر تھا جب حیات زمین کو اپنی آغوش میں لیکر بوسہ دے رہا تھا۔ ظالم بھلا عمر کہاں دیکھتے
ظلم تہذیب کے آداب بُھلا دیتا ہے، احساس کو مٹا دیتا ہے اور دلوں کو پتھر بنا دیتا ہے..

ہاں ! حیات کے ماں باپ کو وہ بد قسمت جگہ مت دکھائیں، جہاں حیات خون سے لت پت تھا۔ زمین رنگین تھی، قلم کی میت پڑی تھی۔ اس بد قسمت جگہ پر اگر غلطی سے ان کے نظریں پڑ جائیں تو وہ دوبارہ مر جائیں گے… ان بد نصیب کجھور کے درختوں میں جہاں حیات اپنے باپ کی مشکلات کو کم کرنے میں ان کی مدد کر رہا تھا، اب اگر حیات کا باپ کہیں کجھور کا دانہ کھائے تو کجھور کے دانہ اس کو کانٹے کی طرح چھبے گا۔

ہاں ! پِلیز اب کجھور کے کسی سوداگر کو کجھور کی خریداری کے لئے حیات کے مرے ہوئے باپ کے پاس مت جانے دینا، حیات کی ماں کی تڑپ حیات کی ماں کو ضعیف کر دے گی، باپ کو کمزور کر کے اس دارِ فانی سے وقت سے پہلے رخصت کروا دے گی۔
حیات کے شفیق باپ کے چہرے کی جھریوں کی دبیز تہہ میں چھپی ایک درد بھری کہانی کس انسان دوست کو نظر آئے گی؟
آنکھوں میں اداسی کے ڈھیر کون دیکھ سکتا ہے؟
جب معصوم چہرے پر ایک معصومانہ خوشی رقص کر رہی تھی، خوشیوں کا جنازہ پڑھنے کا حکم نازل ہوا۔
ہر آنکھ آشکبار تھی۔
باپ کے آرام اور سکون کے دن بے چینی بے قراری میں بدل گئے۔
حیات آپ کو اتنی جلدی جانا نہیں چائیے تھا، ماں باپ کے ارمانوں پر اترنا تھا۔ بہنوں کا سایہ ہونا تھا۔
مگر کیا کریں، ہم اپنے بس میں کہاں ہیں۔

حرفِ آخر! حیات تم سے ایک ٹیسٹ لیا گیا، غیر سرکاری و غیر حتمی نتائج کے مطابق تم کامیاب ہو، لیکن سرکاری و حتمی فائنل رزلٹ کا آنا ابھی باقی ہے۔ الوداع حیات… الوادع حیات….
حیات ننھی برمش کا سلام ملک ناز کو پہنچانا۔
بی بی کلثوم اور ملک ناز سے کہنا سر زمین لاوارث ہے، وہاں خون کی ہولی کھیلنا آسان ہے، مگر انصاف ملنا بہت مشکل ہے…
حیات مجھے معاف کردو، میں نے اس تحریر کا حق پورا ادا نہیں کیا، کیونکہ میں تحریر کی حق ادائیگی کے انجام سے ڈرتا ہوں۔
جو بے رحمی آپ کے ساتھ ہوئی، اس کے آفٹر شاکس سے مجھے بہت خوف آتا ہے…
میں اپنوں سے، اپنی زندگی کے بھاگتے لمہوں سے نہایت خائف ہوں۔
مجھے مسلح انسان نما درندے کے غیض و
غضب کی دعوت سے سے ڈر لگتا ہے۔ مجھے وقت کا حاکم برداشت نہیں کرتا۔
مجھ میں اتنی سکت نہیں، کہ خندہ پیشانی سے بھیانک نتائج بگھت سکوں،
اے حیاتِ جاوداں کے مسافر!
میں ہاتھ جوڑتا ہوں
آپ کے قدموں پر گِر جاتا ہوں
پِلیز مجھے معاف کردو،
بس مجھے معاف کردو….

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close