رانا شمیم عدالت نہیں آئے. ثبوت لے آئیں، ثاقب نثار کے خلاف کارروائی کریں گے، اسلام آباد ہائی کورٹ

نیوز ڈیسک

اسلام آباد : سپریم ایپلیٹ کورٹ گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا محمد شمیم کے بیانِ حلفی پر خبر شائع کرنے کے معاملے میں عدالتی نوٹس کے باوجود سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم عدالت نہیں آئے، جبکہ ان کے بیٹے احمد حسن رانا ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے نواز شریف اور مریم نواز کی سزاؤں کے خلاف اپیلوں سے متعلق خبر پر سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم، صحافی انصار عباسی ، خبر شائع کرنے والے اخبار کے چیف ایڈیٹر اور ریزیڈنٹ ایڈیٹر کے خلاف کیس پر سماعت کی۔ سماعت سے قبل ‏رانا شمیم کے بیٹے نے عدالتی عملے سے کمرہ عدالت میں ویڈیو چلانے کی اجازت مانگ لی

سماعت کے دوران جسٹس اطہر من اللہ نے خبر شائع کرنے والے اخبار کے چیف ایڈیٹر کو روسٹرم پر بلا کر ریمارکس دیئے کہ آزادی اظہار رائے بھی بہت ضروری ہے لیکن انصاف کی فراہمی بھی اہم ہے، آپ کی رپورٹ نے لوگوں کے حقوق کو متاثر کیا ہے، اگر مجھے اپنے ججز پر اعتماد نا ہوتا تو یہ سماعت شروع نہ کرتا، میں نے سماعت اس لیے شروع کی کیونکہ ہم بھی احتساب کے قابل ہیں، اس عدالت کے ہر جج نے کوشش کی کہ عوام تک انصاف کی فراہمی یقینی بنائی جائے ، اگر عوام کا اعتماد عدلیہ پرنا ہو تو یہ بہت الارمنگ ہے، آپ ایک بڑے میڈیا ہاؤس اور اخبار کے مالک ہیں، اگر کوئی حلف نامہ کہیں بھی دے دے تو کیا آپ اس کو پہلے صفحے پر چھاپ دیں گے؟

سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم کے بیٹے احمد حسن رانا ایڈووکیٹ نے بتایا کہ والد صاحب رات اسلام آباد پہنچے ہیں، ان کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ لوگوں کا اس کورٹ پر اعتماد تباہ کرنے کے لئے حقائق کو نظر انداز کر کے اسیکنڈل چھاپا گیا، میرے سامنے اگر کوئی چیف جسٹس ایسی کوئی بات کرے تو میں تحریری طور پر سپریم جوڈیشل کونسل کو آگاہ کروں گا، چیف جسٹس کے سامنے کوئی جرم کرے اور وہ تین سال خاموش رہے

دوران سماعت چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے صحافی انصار عباسی سے استفسار کیا کہ یہ حلف نامہ تو جوڈیشل ریکارڈ کا بھی حصہ نہیں، 6 جولائی کو نواز شریف اور مریم نواز کو سزا ہوئی ، 16 جولائی کو اپیلیں فائل ہوئیں ، میں اور جسٹس عامر فاروق اس وقت بیرون ملک چھٹی تھے، جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کے سامنے کیس مقرر ہوا، اپیلوں کی پیروی خواجہ حارث کررہے تھے، کیا آپ نے خواجہ حارث سے پوچھا کہ الیکشن سے پہلے کیس سماعت کے لیے مقرر کرنے کی انہوں نے کوئی درخواست کی تھی؟، خواجہ حارث جانتے تھے کہ اسی روز سزا معطل ہو ہی نہیں سکتی ، عدالت نے سب سے جلدی کی تاریخ 31 جولائی کی دی کیونکہ ان دنوں چھٹیاں تھیں، جس جج کا نام آپ نے لکھا نہیں اور عدلیہ پر سوال اٹھا ہے، لوگوں کا عدالت پر اعتماد تباہ کرنے کے لیے باتیں بننا شروع ہو گئیں، کیا اس عدالت کا جج کہیں سے ہدایات لیتا ہے؟۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ میری عدالت کے جج کے گھر یا چیمبر میں کوئی رسائی لے رہا ہے تو میں اس کا جواب دہ ہوں، اگر رانا شمیم یا انصار عباسی ثبوت لے آئیں تو میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے خلاف کارروائی کروں گا

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکم دیا کہ تمام لوگ 26 نومبر کو ذاتی حیثیت میں عدالت میں پیش ہوں

سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم کے وکیل عدالت میں پیش ہوئے جن سے چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ رانا شمیم خود کیوں پیش نہیں ہوئے؟

رانا شمیم کے وکیل نے بتایا کہ سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم کل رات ہی عارف والہ سے پہنچے ہیں، ان کی طبیعت خراب ہے، ان کے بھائی کی وفات ہوئی ہے، ایک اور نوٹس بھی جاری ہونا چاہیئے، فیصل واؤڈا نے رانا شمیم کے بارے میں اول فُول کہا ہے

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے انہیں ہدایت کی کہ آپ اس حوالے سے الگ درخواست دے سکتے ہیں، اس کیس کے ساتھ اسے مکس نہیں کیا جائے گا

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ اگر بیانِ حلفی جھوٹا ثابت ہو تو اس کے کیا نتائج ہو سکتے ہیں؟

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ رانا شمیم کے بھائی کی وفات 6 نومبر کو ہوئی اور لندن جا کر 10 نومبر کو انہوں نے یہ بیانِ حلفی دیا، بیانِ حلفی کی ٹائمنگ بھی بہت اہم ہے، صبح سے شام تک ٹی وی چینلز پر ایک ہی موضوع ہوتا ہے

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ میں آپ سب کو شوکاز نوٹس جاری کر رہا ہوں، تمام لوگ 26 نومبر کو ذاتی حیثیت میں عدالت پیش ہوں

چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ انصارعباسی صاحب! آپ پیغام رساں نہیں، میں پوچھتا ہوں کہ آپ نے یہ کیا کیا؟ ہماری عدالت سائلین کے سامنے جوابدہ ہے، پلیز ہیڈ لائن پڑھیں

انصار عباسی نے دی نیوز میں اپنی اسٹوری کی ہیڈ لائن پڑھ کر سنائی

چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے استفسار کیا کہ کیا ہماری کورٹ کے ججز کسی سے ہدایات لیتے ہیں؟ یہ بیانِ حلفی کسی جوڈیشل ریکارڈ کا حصہ نہیں، آپ نے اس بات کی تحقیق کی کہ بیانِ حلفی لندن میں نوٹرائزڈ کیوں کرایا گیا؟ آپ نے پتہ کیا کہ ایون فیلڈ کا فیصلہ کب آیا؟ میں اور جسٹس عامر فاروق اس وقت چھٹیوں پر بیرونِ ملک تھے، جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب نے ابتدائی سماعت کی. ایک خدشہ ہے کہ یہ بیانِ حلفی جعلی ہے

چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے صحافی انصار عباسی کو ہدایت کی کہ آپ فردوس عاشق اعوان کے خلاف توہینِ عدالت کیس کا فیصلہ پڑھ لیں

انصار عباسی نے کہا کہ میں نے تو اپنی اسٹوری میں ہائی کورٹ کے جج کا نام بھی نہیں لکھا، سابق چیف جج نے سابق چیف جسٹس پاکستان پر ایک الزام لگایا ہے

چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ یہ الزام اس کورٹ کے خلاف لگایا گیا ہے، الزام لگایا گیا ہے کہ یہ ہائی کورٹ ہدایات لیتی ہے، اس عدالت کے وقار پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے

چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا جیسا آپ سوچ رہے ہیں، مسلسل یہ بات کی جا رہی ہے کہ کہا گیا، انہیں الیکشن سے پہلے نہ چھوڑیں

اسلام آباد ہائی کورٹ نے فریقین کو 7 روز میں شوکاز نوٹس کا جواب جمع کرانے کی مہلت دے دی۔

معاملہ کیا ہے؟

گزشتہ روز اخبار میں ایک خبر شائع ہوئی تھی جس میں سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم کے حلف نامے کا ذکر ہے، حلف نامے میں رانا شمیم نے کہا ہے کہ سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار 14جولائی 2018ع کو ایک 27 رکنی وفد کے ہمراہ گلگلت بلتستان آئے تھے، وہ اپنی اہلیہ کے ہمراہ لان میں بیٹھے تھے اور ٹیلی فون پر ہدایات دے رہے تھے۔

رانا شمیم اپنے حلف نامے میں مزید کہتے ہیں کہ انھوں نے دیکھا کہ سابق چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار پریشان تھے اور اپنے رجسٹرار سے مسلسل فون پر بات کر رہے تھے، انھیں ہدایات دے رہے تھے کہ فلاں جج کے پاس جاؤ۔ اس جج سے میری بات کرواؤ اور اگر بات نہ ہو سکے تو اس جج کو میرا پیغام دے دیں کہ 2018 کے عام انتخابات سے قبل نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز شریف کو کسی بھی قیمت پر ضمانت پر رہائی نہیں ملنی چاہیے۔ ٹیلی فون پر گفتگو کے دوران دوسری جانب سے یقین دہانی ملی تو میاں ثاقب نثار پُرسکون ہو گئے اور اس کے ساتھ ہی انھوں نے ایک اور چائے کا کپ طلب کیا۔

ثاقب نثار کا موقف

سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کا کہنا ہے کہ نہ تو انھوں نے اس وقت کے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک سے ملاقات کی اور نہ ہی انہوں نے نواز شریف اور مریم نواز کو ضمانت نہ دینے کے سلسلے میں کسی کو ہدایات دی تھیں، جب وہ خود پاکستان کے چیف جسٹس تھے تو انھیں سابق وزیر اعظم کو جیل میں رکھنے سے متعلق کسی جج سے ملاقات کرنے یا ہدایات دینے کی کیا ضرورت تھی۔ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے اس لیے وہ اس بیان پر چارہ جوئی کرکے رانا شمیم کے اس بیان کو اہمیت نہیں دینا چاہتے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم، میر شکیل الرحمان، عامر غوری اور انصار عباسی کو شوکاز نوٹس جاری کردیئے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close