کتاب: ”کلمت ھما روچ کلمت اَت“
مصنف : غلام رسول کلمتی
ناشر: ابابگر کلمتی اکیڈمی (پلیری،گوادر)
تحریری زبان: بلوچی
کل صفحات: 400
قیمت: 800روپے
سال اشاعت:2021ع
(ذیل میں ہم غلام رسول کلمتی کی شاہکار تاریخی تصنیف”کلمت ھما روچ کلمت اَت“ کے مضامین کا خلاصہ پیش کر رہے ہیں. اگرچہ اس خلاصے میں اختصار کی وجہ سے ربط کی کمی ضرور کھٹکتی ہے، لیکن گراں مایہ تاریخی حقائق سے پردا اٹھاتی یہ تحریر یقیناً اپنے موضوع کے اعتبار انتہائی اہمیت کی حامل ہے)
بادشاہت یا حاکمیت زمانہ قدیم سے رواج پا گئی ہے، بادشاہ کسی خاص علاقے میں بیٹھ کر دوسرے علاقوں پر اپنا کنٹرول رکھنے کے لیے والی یا نمائندگان سے کام لیتا تھا۔ ایران (فارس اور کردستان سمیت پورا بلوچستان) میں قبلِ مسیح سے ہمیں اسی طرح کی بادشاہت دیکھنے کو ملتی ہے۔ اس کی بنیاد اس خطے میں مدین قوم نے کیقباد کی سرکردگی میں 853 قبل مسیح میں رکھی اور اس تمام خطے میں مدستان یا مادستان کے نام سے ہمیں ایک وسیع سلطنت دکھائی دیتی ہے ،جس کا مرکز اگبتانہ (موجودہ ھمدان) تھا۔
مدستان کے شاہوں یا بادشاہوں نے اگبتانہ میں بیٹھ کر دیگر تمام خطوں میں اپنے والی یا نمائندگان کے ذریعے حکومت کی۔ اس زمانے میں ہر والی اپنے ساتھ مکمل قبیلہ رکھتا تھا۔ اس خطے میں، جسے بلوچستان کہا جاتا ہے، بادشاہ مدستان نے چار والی مقرر کیے، جو اپنے مکمل قبیلوں کے ساتھ حاکمیت کرنے لگے. وہ والی براخوی، ادرگانی ، ماملی اور کرمانی قبائل سے تعلق رکھتے تھے۔ لہٰذا وہ اپنے قبائل کے ساتھ اس سرزمین کے مختلف علاقوں پر حاکمیت کرنے لگے۔
مدین بادشاہت کاخاتمہ 560 قبل مسیح میں ہوا۔ بادشاہت کے خاتمے کے ساتھ ہی مدین قوم دو حصوں میں بٹ گئی۔مدین قوم کے مذکورہ چاروں قبائل، جو اس سرزمین پر مدین بادشاہوں کے والی یا نمائندے تھے، ایک الگ قوم کے شکل میں سامنے آئے. یہ بلوچ کہلانے لگے اور مرکزی قوم کے قبیلے کرد کے نام سے آج بھی مشہور ہیں (چند مورخین مازندرانی اور گیلکی کی نسبت کو بھی مدین قوم سے جوڑتے ہیں) مدین قوم کا زوال ھخامنشیوں کے ہاتھوں ہوا، جنہوں نے 546 قبل مسیح میں تمام علاقوں پر قبضہ کر لیا اور ھخامنشی بادشاہت کی بنیاد رکھ دی۔ 327 قبل مسیح میں یونان سے سکندر کی سرکردگی میں ٹڈی دل لشکر نے ھخامنشی سلطنت پر یلغار کر کے ان کی بادشاہت کا خاتمہ کر دیا اور تمام خطہ یونانیوں کے زیر اثر آگیا.
سکندر کے مرنے کے بعد یونانی بھی انتشار کا شکار ہوئے۔ 250 قبل میسح میں مدین باقیات سے اشکانی (Parthian) طاقت میں آگئے اور انہوں نے یونانیوں سے بادشاہت دوبارہ چھین لی۔ لیکن اشکان (اشکانی بادشاہ) کے بعد اشکانیوں میں خودسری اور بے راہ روی انتہا کو پہنچی ، تو ساسانیوں نے 227 بعد مسیح ان کے اقتدار کا خاتمہ کر کے تمام خطہ اپنے زیر تسلط لے آئے۔ ساسانیوں کے انتشار کے زمانے میں دریائے سندھ کے مغرب سے حملہ آور بدھ مت کے پیروکار بھی عرصے تک یہاں حکومت کرتے رہے۔
یہ تو صدیوں پہلے کی باتیں ہیں، اس زمانے کی جس زمانے میں سیاسی اور ریاستی صورتحال مختلف تھی۔ سرحدیں بادشاہوں کی کمزوری یا طاقت ور ہونے کے ساتھ ساتھ بدلتی رہتی تھیں۔ قومی ریاست کا گمان بھی نہ تھا اور نہ اس زمانے میں قومی تصور موجودہ شکل میں تھا۔
بارہویں صدی عیسوی میں پوری دنیا میں تبدیلیوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ وسط ایشیائی سیاست پورے خطے میں نئے رنگ سے متعارف ہوئی۔ یہ سلسلہ دو صدیوں تک اسی طرح جاری رہا۔ اگرچہ مذہب شروع سے ہی سیاست کا حصہ تھا، لیکن چودھویں صدی عیسوی میں سیاست میں مذہبی فروغ کے ساتھ ساتھ تجارتی عنصر شدّت کے ساتھ ابھر کر سامنے آیا۔ بادشاہوں نے اپنے نظریہ کو متعارف کرانے کے لیے مذہبی اور تجارتی سرگرمیوں میں اضافہ کیا، جس کے بعد ھندوستان، وسط ایشیا اور یورپ کے جنوب مغربی علاقوں میں ایک ہلچل مچ گئی۔ اس زمانے میں بھی بادشاہ اپنے نمائندوں یا والیوں کی مدد سے اس کام کو مضبوط بنیادوں پر انجام دینے لگے۔
اس سیاسی ہلچل میں اس خطے (بلوچستان) میں بلوچ حاکمیت کس صورتحال سے دوچار تھی، یہ بذاتِ خود ایک تحقیق طلب موضوع ہے۔ لیکن چھ سات سو سال پر محیط بلوچ حاکمیت کی تاریخ پر ضرور بات کرنی چاہیے، اگرچہ چھ سات سو صدیاں اقوام کی تاریخ میں زیادہ طویل نہیں ہوتیں۔ بلوچ حاکموں میں سے ہمیں ان صدیوں میں بہت کم ایسے حاکم دیکھنے کو ملتے ہیں، جنہوں نے دور دراز کے علاقوں پر اپنی عمل داری برقرار رکھنے کے لیے باقائدہ نمائندہ یا والی رکھے ہوں۔ عباسی، تیموری، منگول، صفاری، آل مظفر، خوارزمی، آل بویہ ، غزنوی، سلجوق اور دیگر حاکم یا بادشاہ، جن کا مرکز وسط ایشیا کے دور دراز شہروں میں ہوا کرتا تھا ، ان کے نمائندے یا والیان بلوچ علاقوں میں ان کی حاکمیت کو مستحکم کرنے میں پیش پیش رہتے تھے۔ اس میں شک نہیں کہ کئی ایسے بلوچ حاکم بھی گزرے ہونگے، جنہوں نے دیگر علاقوں میں اپنا نمائندے مقرر کیے ہوں ۔ لیکن اس سلسلے میں تاریخی مواد ناپید ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بلوچ سرزمین پر حکومت کرنے والے حاکموں کے پاس چیزوں کو تحریری صورت میں رکھنے کا رواج نہ ہونے کے برابر تھا، اس لیے بہت ساری باتیں وقت کی دھول تلے پوشیدہ ہیں۔ ویسے تو بلوچ سرزمین بہت وسیع ہے، لیکن ہم اپنی تحریر کا رخ بلوچ سرڈگار کے ایک اہم حصے مکران کی طرف موڑتے ہیں.
مکران کے حاکموں میں سے ایک ھوت عالی تھا. ہمیں روایتوں میں نظر آتا ہے کہ اس نے اپنے بیٹے میر نوتک (نوت) کو ساحلی علاقوں کی عملداری کے لیے بھیجا۔ میر نوتک نے گزدان کے علاقے بلّ میں جاکر قیام کیا ۔ ساحل مکران پر کلمت بندرگاہ اسی گزدان کے علاقے میں ہے ۔ یہ علاقہ آج بھی ”گزدانءِ بلّ“ کے نام سے معروف ہے۔ البتہ پہلے کلمت بندرگاہ گزدان میں تھی، لیکن اب گزدان کا علاقہ کلمت میں ہے، یعنی کلمت زیادہ معروف ہے۔
میر نوتک ایک سمجھ دار اور منصوبہ ساز شخص تھا۔ انہوں نے کلمت سے لے کر جاشک تک کے علاقے اپنے تصرف میں لے لیے اور آگے دیبل تک اپنے لوگ بھیجے۔ جن دنوں میر نوتک کلمت سے لے کر جاشک تک کا علاقہ اپنے زیر تصرف لائے، اسی زمانے میں کیچ کی مرکزی حاکمیت کمزور ہوچکی تھی ۔ چند سالوں میں ہی کیچ کی مرکزی حاکمیت پر ھوت حاکموں کی جگہ ملکوں نے لے لی اور ھوت زوال پذیر ہوئے ، لیکن کلمت کے علاقے میں ان کی طاقت میں اضافہ ہوا۔ اس لیے اس زمانے کی ضروریات کے مطابق کلمت ایک ریاست کی شکل اختیار کر گیا۔
اس سلسلے میں اگر ہمیں پہلی مرتبہ کوئی تحریری مواد دستیاب ہوتا ہے تو وہ سندھ کے معروف دانشور ڈاکٹر نبی بخش خان بلوچ سے ملتا ہے ۔
میر نوتک نے جب اپنے آپ کو ساحلی علاقوں میں مستحکم کیا، تو انہوں نے اپنے بیٹے حاجی کو برّی راستے سے روانہ کیا تاکہ وہ مغرب اور جنوب مغربی علاقوں کو اپنی عملداری میں شامل کرے۔ میر حاجی نے وندر کے علاقے بالا کو اپنا مرکز بنایا اور پھر ان کے لوگ آہستہ آہستہ قرب و جوار کے علاقوں میں آگے بڑھتے رہے ۔ ھبّ، ملّیر اور مال ماڑی تک کے علاقے انہوں نے اپنی حاکمیت میں شامل کیے ۔ بعد ازاں بالا سے مرکز ملّیر منتقل ہوا ۔ یہاں یہ لوگ کلمتی کہلانے لگے ۔ پرتگیزوں نے بھی اپنی کتابوں میں ان کی حاکمیت کے دو مراکز کا ذکر کیا ہے۔ جس زمانے میں کلمت بندرگاہ کو میر نوتک نے اپنا مرکز بنایا، ساتھ ساتھ انہوں نے پسنی بندرگاہ کو اپنے تجارتی بندرگاہوں میں شامل کیا۔ عرصۂ دراز تک پسنی تجارتی بندرگاہ اور مرکز کے طورپر استعمال ہوتا رہا، یہاں تک کہ 1580ع میں پرتگیزوں نے پسنی پر حملہ کرکے اسے آگ لگا دی۔
پندرہویں اور سولہویں صدی عیسوی میں کلمتیوں کے ملّیر اور ھبّ کی حاکمیت پر کلہوڑا، ارغون، ترکان (ترخان) اور دیگر طاقتور حکمران وقتاً فوقتاً حملہ کرتے رہے ، لیکن اس کے باوجود بھی یہ حاکمیت برقرار رہی، یہاں تک مغلوں نے انہیں کمزور کرنے کے لیے سرداران کو جاگیریں عطا کیں، جس کے بعد ہم ان کو دو حصوں میں تقسیم ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ لیکن پھر بھی کسی نہ کسی طرح ان کی طاقت برقرار تھی۔
ملّیر اور ھبّ کے علاقوں میں انگریز کے اوائلی ادوار میں ہم ان کو انگریز کے خلاف مزاحمت اور کہیں انگریز سے مذاکرات کرتے ہوئے دیکھتے ہیں ، لیکن درمیان میں وہ مکمل طور پر منظر سے غائب ہیں۔ انگریز کے آخری دور میں ملّیر اور کراچی کے دیگر علاقوں میں ہمیں کلمتی لسبیلہ اور مکران سے آتے دکھائی دیتے ہیں۔
جن دنوں میر نوتک کا بیٹا حاجی، وندر بالا میں اپنا مرکز تشکیل دے چکا تھا ، انہی دنوں میر نوتک کا بھائی دوستین ان علاقوں میں اپنے بھتیجوں سے ملنے آیا اور وہ سیرو سیاحت کرتے کرتے بمبور پہنچا۔ بمبور پہنچ کر وہ سسئی نامی ایک دھوبی لڑکی کے عشق میں مبتلا ہوا۔ اسی عشق میں دوستین پنہوں بن گیا اور شاہ عبداللطیف بھٹائی کے کلام اور سُروں کی وجہ سے پنہوں نے شہرت حاصل کی ۔ اگر شاہ عبداللطیف بھٹائی پنہوں کو اپنے اشعار میں جگہ نہ دیتا تو ، شاید پنہوں یا دوستین کا ہمیں پتہ بھی نہ چلتا۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی کی شاعری سے یہ بات واضح ہے کہ ان دنوں ان کا مرکز وندر بالا میں تھا۔
لائیندیس لنگن کھے، ملیراں مہندی،
وندر آؤں ویندیس، آری جام اجھو کرے.
(میں ہاتھ اور پیروں میں ملیر کی مہندی لگا کر جب وندر پہنچوں گی ، تو میں جام عالی کے پناہ میں ہوں گی)
واضح رہے کہ بمبور کے آس پاس میر عالی کے پسماندگان اور میر نوتک کے فرزندان کے ہاتھوں میں تھا۔ دوسری طرف کلمت سے لے کر جاشک تک کا ساحلی علاقہ ان کی عملداری میں تھا۔ اور یہاں سے ان کے تجارتی رابطے ھندوستان، خلیج تک پھیلے ہوئے تھے۔ اگرچہ بڑے تاجروں میں ایرانی، عرب اور ھندوستان کے مسلمان تھے، لیکن میر نوتک کے زمانے میں ان کے پسماندگان بھی اس کاروان میں شامل تھے۔ اگرچہ بلوچوں میں تجارت کا رجحان کم تھا ، لیکن ان کی بندرگاہوں سے باقاعدہ جو تجارتی سامان دیگر بندرگاہوں کی طرف لے جایا کرتا تھا ، اس میں ان کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس کی وجہ سے انہیں ٹیکس اور دیگر مد میں کافی آمدنی بھی ہوا کرتی تھی. اگرچہ اس زمانے میں ہمیں بلوچستان کے دیگر علاقوں سے بڑے پیمانے پر تجارتی سرگرمیوں کا ذکر نہیں ملتا، لیکن ہمیں مکران کے بندرگاہوں سے تجارتی احوال ضرور ملتا ہے ۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو کہ ساحلی علاقے نہ کاشت کاری کے لیے موزوں ہیں اور نہ ہی گلہ بانی کے لیے ۔ لوگوں کی زندگیوں کا دارو مدار ماہیگیری پر تھا یا پھر تجارت پر.
ھورمز سے آگے ، سمندر کے ان علاقوں پر جہاں موتی نکالے جاتے ہیں ، وہاں بھی ہم دیکھتے کہ میر نوتک کے لوگ اس کام میں برابر کے شریک ہیں، جو اس زمانے میں ایک بڑا تجارتی ذریعہ ہوا کرتا تھا۔ یہ کام میر نوتک کی پانچویں پشت تک ان کے ہاتھ میں تھا۔ پندرہویں صدی میں عمانی عربوں نے طاقت حاصل کی اور موتیوں والے علاقوں پر قابض ہوگئے ۔ یہاں ہم عرب اور ان کے درمیان ایک کشمکش بھی دیکھتے ہیں۔ عمانی عربوں نے جب زیادہ طاقت حاصل کی تو ہم انہیں بلوچ بندرگاہوں میں دیکھتے ہیں ۔ میناب ندی جہاں سمندر میں ملتی ہے ، وہاں ایک بہت بڑا” ھور“ (فارسی میں خور) ہوا کرتا تھا اور یہ ھور ایک بہت بڑا تجارتی مرکز ہوا کرتا تھا۔ بلوچ علاقوں سے گزرتے ہوئے مارکو پولو دو مرتبہ 1272ع اور 1293ع میں اس شہر میں آیا تھا اور اس نے اسے بہترین تجارتی شہر قرار دیا تھا۔ وسط ایشیائی ترکوں کے مسلسل حملوں کی وجہ سے اس تجارتی مرکز کو کافی نقصان اٹھانا پڑا، جس کے بعد مقامی حاکموں نے اس تجارتی مرکز کو وہیں قریب ہی جیرون نامی جزیرے پر منتقل کر دیا، جسے اس ‘ھور’ کی نسبت سے ھورمز کا نام دیا گیا ۔ بعد ہم دیکھتے کہ وہاں بھی عرب غالب آگئے، بلکہ یہاں تک انہوں نے وہاں اپنی حاکمیت بھی شروع کی.
جو تجارت مکران کی بندرگاہوں سے اس زمانے میں ہوتی تھی، ان میں خشک مچھلی، کھجور اور اس قسم کے دیگر اشیاء شامل تھیں۔ جو ھندوستان کی جنوبی بندرگاہوں، سری لنکا، افریقہ کے زنجبار تک لے جائی جاتی تھیں ۔ افریقہ سے خاص طور پر کُندرک (خوشبو کے لیے حاصل کیا جانے والا درختوں کا خشک شِیرا) ان علاقوں میں لایا جا تھا۔ اگرچہ گرم مصالحہ بھی اس زمانے کے بڑی بحری تجارتوں میں شامل تھا، لیکن کہیں بھی ایسا احوال نہیں ملتا کہ بلوچ براہ راست اس میں شامل ہوں، البتہ براستہ بصرہ یورپ جانے والے مال کا گزر مکران کے ساحلوں سے ہی ہوتا تھا۔ اس زمانے میں موسموں کے حساب سے کشتیاں سفر کیا کرتی تھیں اور میں سب سے بڑا خطرہ سمندری طوفانوں کا ہوا کرتا تھا۔ لیکن سمندر میں ڈاکؤں کا خطرہ اس زمانے میں نہیں تھا۔
پندرہویں صدی عیسوی میں وسط ایشیا، عرب سرزمین اور یورپ کے جنوب مغربی علاقوں میں ایک ہلچل سر اٹھا چکی تھی۔ بلوچ سر زمین اس ہلچل سے میلوں دور تھی اور اس سرزمین کے لوگوں کے وہم و گمان میں بھی تھا کہ یہ ہلچل مکران کے ساحل کو اپنے لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ 1435ع عیسوی میں جب عثمانی ترکوں نے سلطنت رومہ پر قبضہ کر لیا اور سلطنت رومہ کے وارث پسپا ہونے پر مجبور ہوئے۔ اگرچہ جنگ مذہبی بنیادوں پر لڑی گئی لیکن اس میں یورپ کو تجارتی خسارے کا بھی سامنا کرنا پڑا، جسے پورا کرنے کے لیے 45 سال بعد پرتگال نے ایک بحری بیڑہ تیار کیا، جو 8 جولائی 1498ع کو پرتگال سے روانہ ہوا. جو ہلچل یورپ کے ساحلوں سے شروع ہوئی تھی، اس نے پرتگال کو از خود اس جا حصہ بنا دیا۔ پرتگالی جب افریقہ، عرب، ساحلِ مکران اور ہندوستان کے ساحلوں تک پہنچے تو انہوں نے یہاں ہلچل مچا دی۔ دوسری طرف عثمانی ترک سپر پاور کی شکل میں عرب سرزمین پر موجود تھے۔
1515ع میں جب صفوی ھورمز تک پہنچے اور وہ ساحل مکران کے مزید علاقوں تک پہنچنے کی کوشش میں تھے کہ اسی دوران افونسو ڈالبوکرک بھی پہنچا اور اس نے ھورمز پر قبضہ کرلیا۔صفوی نے فوراََ پرتگالیوں کو قبول کر لیا، کیوں کہ صفوی بحری قوت سے محروم تھے اور وہ پرتگالیوں کی مدد سے ساحل مکران میں آگے بڑھنا چاہتے تھے۔ ساحل کے بلوچ اگرچہ تجارتی میدان میں نہ ہونے کے برابر تھے، لیکن محدود پیمانے پر وہ تجارت سے وابستہ ضرور تھے۔ صفوی-پرتگال اتحاد نے اس پورے علاقے کی تجارت پر منفی اثرات مرتب کیے۔ یہاں تک کہ صفویوں نے پرتگالیوں سے ایک معاہدہ کیا، جس کا تیسرا نقط ساحلِ مکران سے متعلق تھا۔ جس میں صفویوں نے پرتگالیوں سے درخواست کی تھی کہ گوادر تک کا علاقہ نوتکیوں سے خالی کرنے میں صفویوں کی مدد کریں۔ اگرچہ پرتگالیوں نے گوادر کے حصول میں صفویوں کی براہ راست مدد نہیں کی، لیکن انہوں نے اس خطے پر یہ پابندی عائد کی کہ پرتگالیوں کی اجازت کے بغیر کوئی تجارت نہ کی جائے۔ یہ تجویز دراصل صفویوں کی تھی. اس بات کو باقائده پرتگیز-صفوی معاہدے میں شامل کیا گیا۔ پرتگیزوں نے اس تمام خطوں کی تجارت کو قابو کرنے کے لیے ایستا دا انڈیا (Estado da India) نامی تجارتی کمپنی قائم کی.
اس زمانے میں مکران کے ساحل پر شاہی بِنگؤ حاکم تھا اور تجارتی اور سمندری معاملات ان کے بھائی سمائیل بنگؤ کے پاس تھے ۔ یہ دونوں میر ھمّل کلمتی کے چچا تھے۔ مقامی روایتوں کے مطابق سمائیل بنگؤ کے تعلقات مملوکوں اور عثمانی ترکوں سے تھے۔
دوسری طرف صفویوں نے شیعہ کی بنیاد پر سنّیوں پر مظالم ڈھانا شروع کر دیے، خاص طور پر کرمان کے بلوچ علاقوں میں ان کے مظالم زیادہ بڑھ گئے۔ ان مظالم کی وجہ سے بلوچ حاکموں کی ہمدردیاں عثمانی ترکوں کی طرف منتقل ہوئیں۔ اسی زمانے میں پرتگیزوں نے عربوں کے قبیلے، جسے انہوں نے نکولس نام دیا تھا، کو لا کر ھورمز کے قریب لاڑک میں اس شرط پر آباد کیا، کہ وہ آلِ نوتک یعنی نوتک کے خاندان کو ھورمز کی طرف آنے سے روکیں گے۔ بلوچوں نے ایک دو مرتبہ ان عربوں پر حملہ کرکے انہیں پسپا کیا لیکن وہ دوبارہ ان علاقوں میں آکر بس گئے، کیوں کہ پرتگیزی ان کی پشت پناہی کرتے رہے۔
صفوی اور پرتگیزوں کے ان اقدامات سے ساحلِ مکران پر تجارت کو کافی نقصان پہنچا ۔
پرتگیزوں نے 1453ع کا بدلہ لینے کے لیے تجارتی کشتیوں سمیت مسلمان بحری جہازوں کو نشانہ بنانا شروع کیا ۔ خاص طور حجاج کرام کے بحری جہازوں کو انہوں نے نشانہ بنایا ۔ چونکہ مدینہ منورہ اور مکہ معظمہ اس زمانے میں عثمانی ترکوں کے پاس تھے ، انہوں نے پرتگیزوں کے اس عمل کو روکنے کے لیے بحری بیڑے تشکیل دیئے اور پرتگیزوں سے باقائدہ جنگیں شروع ہوئیں. ان جنگوں میں بھی پرتگیزوں کا پلّہ بھاری رہا ۔ ھر حملہ میں وہ سلطنت عثمانیہ کے بحری بیڑے کو نقصان پہنچاتے رہے ۔ سلطنتِ عثمانیہ کا بحری بیڑہ نقصان کے بعد ساحلِ مکران کا رخ کیا کرتا تھا، تاکہ ان کشتیوں کی دوبارہ مرمت کی جاسکے ۔ ایک تو مکران کے تجارتی راستے بند ہونے سے مکران کے حاکموں اور پرتگیزوں کے درمیان ایک جنگ کا آغاز ہو چکا تھا، دوسری طرف ترکوں کی مدد پر پرتگیز اور زیادہ بلوچ حاکموں پر برہم تھے۔
صفویوں نے جن کو نوتکی کا نام دیا تھا ، یہ میر نوتک کی ہی اولاد تھے اور اس زمانے میں ان کی قیادت سمائیل بنگؤ کر رہا تھا۔
پرتگیزوں نے آتے ہی اس خطے کی تجارت کو کافی نقصان پہنچایا۔ انہوں نے پورے خطے کو افریقہ کے ساحلوں سے لے کر مکران کے ساحلوں تک، اور یہاں سے لے کر ہندوستان کے جنوبی ساحلوں تک خوف کی تجارت شروع کی ۔ اگرچہ ان کا مرکز ہندوستان کا گوا تھا لیکن سکوترا، راس الحد، بحرین کلہات، قریات مسقط ، سور، خورفکان اور دیگر علاقے ان کے قبضے میں تھے ۔ تاجروں کو معلوم تھا کہ پرتگیزوں کی اجازت کے بغیر اگر ہم تجارت کریں گے تو نقصان اٹھائیں گے۔ اس خوف کو پرتگیزوں نے خوب پروان چڑھایا۔ اس لیے ساحلِ مکران سے تجارت انتہائی محدود ہوکر رہ گئی ۔ پرتگیز اور صفوی اپنی تمام تر کوششوں اور متعدد حملوں کے باوجود ساحلِ مکران اور اس کی تجارت پر دسترس حاصل کرنے سے قاصر رہے۔
پرتگیزوں کو لفظ ”نوتکی“ سے عربوں یا فارسیوں نے متعارف کروایا۔ بعد ازاں ہم پرتگیزیوں کی کتاب میں اس لفظ کو انہی لوگوں کے لیے پاتے ہیں، جو مکران خاص طور پر پسنی پر حاکمیت کرتے تھے۔ اسی نسبت سے پرتگیزوں نے جاشک سے لے کر دیبل تک ساحلِ مکران کو (Costa dos Noutaques) کا نام دیا تھا۔یہی نام انگریزی کتابوں میں (coast of the Nautaques) لکھا گیا ہے۔ سمائیل بنگؤ کئی سالوں تک اس ساحل کی حفاظت کرتے رہے، اس نے کئی جنگوں میں پرتگیزوں کو شکست دی۔ پرتگیزوں کے مطابق نوتکی ماہر انداز ہیں اور یہ دیبل سے لیکر جاشک تک ساحل پر قابض ہیں۔ ملک سمائیل بنگؤ کا مقبرہ گوادر میں کوہِ باتیل کے دامن میں ہے۔
جن دنوں ملک سمائیل بنگؤ کے پاس تمام معاملات تھے ، ان دنوں ان کا بھانجا میر ھمّل علاقے کی نگرانی پر معمور تھا۔ چونکہ میر ھمّل کی ایک شادی تیس کے سردار کی بیٹی سے ہوئی تھی ، اس لیے گزدان (کلمت) اور پسنی کے ساتھ ساتھ وہ تیس میں بھی سرداری کے معاملات کا نگران تھا۔ ملک سمائیل بنگؤ کے زمانے میں ان کے والد بنگؤ ملّیر میں سرداری کے فرائض انجام دے رہے تھے ۔ ان کا مقبرہ بھی ملّیر کے کوہستان میں کاٹھور اور کہنکور (کونکر) کے درمیان تھا (اب بحریہ ٹاون نے ان قبروں کو مسمار کردیا ہے)
ملک سمائیل بنگؤ کے وفات کے بعد تجارتی اور عسکری معاملات میر ھمّل جیئند کے حصے میں آئے ۔ بزرگوں کی روایتوں کے مطابق میر ھمّل نے پرتگیزوں کے خلاف تبوک کے والی سے معاہدہ کیا ۔ میر ھمّل کے زمانے میں سری لنکا میں یہاں سے خشک مچھلی اور کھجور کی تجارت ہوا کرتی تھی اور وہاں سے مصالحہ اور اس قسم کی دیگر اشیاء مکران تک لائی جاتی تھیں اور زنگبار سے کندرک کا کاروبار بھی جاری تھا، البتہ پرتگیز وقتاََ فوقتاََ رکاوٹ ڈالتے رہے.
میر ھمّل کے زمانے میں دنیا کے تین سپر پاور تھے. ان میں ایک عثمانی ترک تھے، جو ترکی سے لےکر مصر تک طاقت کے مالک تھے۔ عثمانی ترکوں نے مملوک بادشاہوں کے علاقوں کو زیردست لانے کے بعد مزید طاقت حاصل کرلی ۔ دوسری طرف دو سپر پاور ایران کے صفوی اور پرتگیز، بلوچ ساحلوں کو گھیرے ہوئے تھے۔ اپنی تمام تر طاقت استعمال کرنے کے باوجود یہ دونوں سپر پاور بمبور سے لے کر جاشک، جسے پرتگیزوں نے نوتکیوں کا ساحل (Costa dos Noutaques) قرار دیا تھا ، قابض ہونے سے قاصر تھے۔ البتہ بعد میں جاشک سے آگے بندرگاہوں پر صفوی قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ انہوں نے گمبرون بندرگاہ کو اپنے تصرف میں لے کر اس کا نام ”بندرعباس“ رکھا۔
ھورمز پر قبضے کے اوائلی دور میں پرتگیزوں کی سربراہی افونسو ڈوالبوکرک کر رہا تھا، جو ایک فوجی کے ساتھ ساتھ شدّت پسند مذہبی آدمی بھی تھا۔ اس کی موت کے بعد پرتگیز زیادہ خودسر ہوگئے۔ پرتگیزیوں کی طرف قرب و جوار میں اور سمندر میں حملے مزید تیز ہوگئے۔ عثمانی ترکوں نے بھی پرتگیزوں کے مقبوضات پر حملوں میں تیزی لائی ۔ پرتگیزوں کا ان پر بس نہ چلتا تو وہ مکران کے ساحل کی طرف آتے اور لوٹ مار کرکے واپس چلے جاتے۔
بزرگوں کی روایت کے مطابق میر ھمّل اور تبوک کے والی کے درمیان ایک معاہدہ ہوا تھا، کہ دونوں مل کر پرتگیزوں کے پانی کے ذخائر پر حملہ کریں گے، اگرچہ اس معاہدے سے متعلق کوئی تحریر دستیاب نہ ہوسکی، لیکن یہ بات سامنے آچکی ہے کہ نوتکیوں نے لاڑک جزیرے پر پرتگیزوں کے پانی کے کنووں میں مردہ مچھلیاں ڈال کر ان کو خراب کردیا تھا۔ بعد میں پرتگیزوں نے پانی کے ذخائر کی حفاظت کے لیے چار کشتیوں پر مشتمل ایک بیڑا وہیں تعینات کر دیا تھا۔ پانی کے ذخائر پر مسلسل حملوں کی وجہ سے پرتگیز پریشان ہوگئے تھے اور انہوں نے میر ھمّل سے ایک معاہدہ کیا. اس معاہدے کا (1569 یا 1570) ذکر کتابوں میں موجود ہے۔ بعد میں اس معاہدے کو پرتگیزوں نے اس الزام کے بنیاد پر ختم کیا، کہ معاہدے کے باوجود انہوں نے لوٹ جاری رکھی اور وہ ہمارے دشمنوں کو اسلحہ فروخت کرتے رہے۔
1580ع کے زمانے میں تمام تر پابندیوں کے باوجود گوادر اور پسنی سے تجارتی سلسلہ جاری تھا۔1581ع میں عثمانی ترک اور پرتگیزوں کے درمیان بہت بڑی سمندری لڑائی کا آغاز ہوا ۔ یہ لڑائی عمان کے گرد و نواح سے پھیلتی ہوئی مکران کے ساحلوں تک پہنچی ۔ سمندری لڑائی میں اگرچہ پرتگیز ، عثمانی ترکوں پر بھاری تھے، لیکن دونوں طرف شدید نقصان ہوا ۔طپرتگیزوں نے اپنے تمام تر نقصان کا زہر ساحل مکران پر اگھلل دیا ۔ پرتگیزوں نے کلمت، پسنی، گوادر، اورماڑہ اور تیس کے شہروں کو لوٹ مار کے بعد آگ لگادی۔ 1581ع کے حملے کے بعد پرتگیزوں کی طرف سے حملوں کا سلسلہ کئی سالوں تک جاری رہا۔
پرتگیزوں نے نوتکیوں سے 1568 کے بعد کیا جانے والا معاہدہ 1600 میلادی میں یہ الزام لگا کر ختم کرنے کا اعلان کیا کہ نوتکی معاہدے کے باوجود سمندر میں لوٹ مار کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے تھے اور ہمارے دشمنوں کے ہاتھوں اسلحہ فروخت کیا کرتے تھے۔
حملوں میں مسلسل تیزی کی وجہ سے میر ھمّل کو معلوم تھا کہ ان کے لیے اکیلے زیادہ دیر تک ان کو روکنا ناممکن ہے، وہ ایک مرتبہ پھر تبوک کے والی سے ملاقات کے ارادے سے ایک وفد کے ساتھ نکل گئے۔ انہوں نے اپنی کشتیاں نہ لیں تاکہ پرتگیزوں کو شکّ نہ گزرے ۔ انہوں نے ایک کشتی کرائے پر لی اور سفر پر روانہ ہوگئے۔ جس دن وہ کلمت کے بندرگاہ سے سفر پر روانہ ہوئے وہ شمبے یعنی ہفتے کا دن تھا اور تاریخ 21 نومبر 1592ع تھی۔ قمری مہینے کے حساب سے مہینہ 16 صفر، سال 1001 ھجری اور دن ہفتہ کا تھا
جس دن میر ھمّل اپنے وفد کے ساتھ روانہ ہوا ۔ دوسرے یا تیسرے دن سمندر میں تیز ہوائیں چلنے لگیں ۔ یہ طوفانی ہوائیں کشتی کو دھکیلتے ہوئے ۔ عمان کے ساحل کی طرف لے گئیں ۔ وہیں پرتگیزوں کے ایک بیڑے نے ان کو گھیر لیا ۔ پرتگیزی بیڑے میں چار لانچیں شامل تھیں ۔ میر ھمّل نے آخر تک مقابلہ کرنے کی کوشش کی، لیکن وہ پرتگیزوں کی کثیر تعداد کی وجہ سے مغلوب ہوئے۔
میر ھمّل کو پرتگیز گرفتار کرکے ہندوستان کے جنوبی ساحل گوا لے گئے، جو پرتگیزوں کا مرکز تھا۔ پرتگیزوں نے میر ھمّل کو کئی پیش کشیں کیں لیکن انہوں نے پرتگیزوں کے تمام پیش کشوں کو ٹھکرا دیا ۔ میر ھمّل پرتگیزیوں کے قید میں انتقال کر گئے ۔ ان کی موت سے متعلق کوئی علم نہیں کہ کس طرح ان کی موت واقع ہوئی۔ لیکن وہ جسمانی موت کے باوجود، اپنے مزاحمتی کردار کے باعث آج بھی بلوچ قوم کے دلوں میں زندہ ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔