اسلام آباد : آج کل پاکستان میں عراق سے آئے ہوئے مَلا علی محمود کردستانی / کردی کا خوب چرچا ہے، جس کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ دم کے ذریعے گونگے بہرے بچوں کا علاج کرتا ہے۔ پاکستان کے مختلف شہروں سے لوگ اپنے بچوں کو اس کے پاس علاج کروانے کے لیے لا رہے ہیں اور سوشل میڈیا پر اس کا پتہ اور فون نمبر پوچھا جا رہا ہے
سوشل میڈیا سے شہرت پانے والا متنازع ”روحانی معالج“ مَلا علی کردستانی ’علاج‘ کی وڈیوز کو اپنے آفیشل فیسبک پیج پر لائیو دکھاتا ہے، اور یو ٹیوب پر بھی اپ لوڈ کرتا ہے. وہ اپنے روحانی معالج کے تاثر کو ابھارنے کے لیے سوشل ميڈیا کا بھرپور استعمال کرتا ہے
کردستانی نے گذشتہ ہفتے مقامی چینل سماء ٹی وی کے پروگرام ’قطب آن لائن‘ میں بتایا کہ وہ مختلف بیماریوں کا ’روحانی علاج‘ کرتا ہے ، البتہ بعض بیماریوں کے علاج میں مہینے یا سال لگتے ہیں، جس کے لیے ادویات بھی دینا پڑتی ہیں
فیسبک پر بعض لوگوں نے چیلنج کیا ہے کہ اگر مَلا کردی مصدقہ طور پر کسی گونگے بہرے کو ٹھیک کر دے تو اسے ایک کروڑ روپے انعام دیا جائے گا
اس کے ساتھ ہی یہ خبریں بھی چل رہی ہیں کہ مَلا علی کردی کو فراڈ کے الزام میں سعودی عرب میں حراست میں لیا گیا تھا اور عراق اور ترکی میں بھی ان کے خلاف پولیس نے کارروائی کی ہے
مَلا علی کردی یا مالا علی کردستانی خود کو طبیب کہتا ہے اور اس کا دعوٰی ہے کہ وہ قرآن اور سنتِ نبوی کی مدد سے جسمانی طور پر معذور افراد کا علاج کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ سوشل میڈیا پر اس کے نام سے اکاؤنٹ موجود ہے، جہاں چند وڈیوز میں دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ وہ ’لوگوں پر آئے جن نکال رہا ہے‘ یا قوت بینائی اور قوت سماعت سے محروم افراد کو ٹھیک کر رہا ہے
چند روز قبل مَلا علی کردی نے پاکستان آنے کا اعلان کیا تھا۔ اپنے دورہ پاکستان کے دوران وہ پہلے صوبائی دارالحکومت لاہور پہنچا اور اس کے بعد گذشتہ چند روز سے اسلام آباد میں موجود تھا۔ اسلام آباد میں اس نے پاکستان کی کئی سیاسی اور مذہبی شخصیات سے ملاقاتیں بھی کیں
چند روز قبل سابق وزیرِاعظم یوسف رضا گیلانی نے اپنی رہائش گاہ پر اُس کا استقبال کیا تھا جس کی وڈیو بھی جاری کی گئی تھی۔ اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر، سابق وزیر فردوس عاشق اعوان، سینیٹر طلحہ محمود اور دیگر کئی سیاستدانوں کے ساتھ ملاقات کی تصاویر بھی مالا علی کردستانی کے فیسبک پیج پر موجود ہیں
پاکستان میں وہ جہاں بھی سفر کر رہا ہے، اس کی رہائش پوش علاقوں میں رہی ہے۔ اس کے یوٹیوب چینل اور فیسبک پیج پر موجود ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اسلام آباد میں وہ سینیٹر طلحہ محمود کے ہمراہ ان کے فارم ہاؤس میں موجود ہیں
وہاں لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس سے ملاقات کرنے کے لیے موجود ہے۔ یہ لوگ بظاہر ان سے ‘علاج’ کروانے کے خواہاں تھے۔ ان کے یوٹیوب چینل پر موجود ایک وڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ علاج کے خواہاں لوگوں سے اکثر ملاقات کرتا ہے
وہ ایک ویڈیو میں ویل چیئر پر بیٹھی ایک معمر خاتون کے قریب کھڑا ہے اور عربی میں خاتون سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ ’ڈرنا نہیں۔‘ بظاہر اس کے بعد وہ ان کی ٹانگ پکڑ کر جھٹکا دیتا ہے، جس سے خاتون کی سسکی نکلتی ہے۔ پھر یہی عمل وہ بظاہر دوسری ٹانگ پر کرتا ہے اور اس کے بعد دکھایا گیا کہ وہ ان کی گردن کو بھی ایک خاص انداز سے بازوؤں میں دبا کر جھٹکتا ہے، جس پر ایک مرتبہ پھر معمر خاتوں کی سسکی سنائی دیتی ہے. پھر وہ خاتون کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر کھڑا کر دیتا ہے اور تھوڑا چلاتا ہے۔ خاتون بمشکل چند قدم چلتی ہیں۔ اس کے بعد مَلا علی کردی ان سے عربی میں کہتا ہے کہ ”اب انھیں ڈرنے کی ضرورت نہیں، اب وہ ٹھیک ہو چکی ہیں“
اس طرز کی کئی تشہیری وڈیوز اس کے سوشل میڈیا پر موجود ہیں
پاکستان میں سوشل میڈیا پر صارف یہ سوال کرتے نظر آ رہے ہیں کہ یہ مَلا علی کردی ہے کون اور کیا اس کے پاس واقعی علاج کرنے کی بظاہر ’جادوئی‘ قابلیت موجود ہے؟
کئی صارفین نے چند ایسی خبروں کا حوالہ بھی دیا جن کے مطابق چند ماہ پہلے اگست میں مَلا علی کردی کے دفتر کو ترکی میں پولیس نے بند کر کے سیل کر دیا تھا۔ خبروں کے مطابق گذشتہ برس انھیں ’دھوکہ دہی‘ کے الزام میں سعودی عرب کے شہر مدینہ میں گرفتار کیا گیا تھا
مَلا علی کردی کون ہے؟
ترکی میں وہ اپنا نام مَلا علی کلکی استعمال کرتا تھا۔ اِن دنوں ان کے فیسبک پیج کے مطابق اس کا نام ’طبیب مالا علی محمود کردی‘ ہے، جبکہ ساتھ ہی اپنے تعارف میں اس نے اپنا نام علی محمود حسن بھی بتا رکھا ہے
آن لائن اخبار ’رووداو‘ کے مطابق مَلا کردستانی کا کلینک اربل شہر سے چالیس کلومیٹر دور کلک نامی قصبے میں واقع ہے، جسے عراقی محکمۂ صحت کے حکام کئی بار بند کر چکے ہیں۔ کردستان ریجن کی جانب سے اسے متعدد بار گرفتار کیا جا چکا ہے
بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق ترکی میں مقیم بی بی سی فارسی کے نمائندے مہرداد فراہمند کا کہنا ہے کہ مالا علی کردستانی کا تعلق عراقی کردستان کے ایک علاقے کلک سے ہے جو اربیل شہر سے باہر واقع ہے
ابتدا میں اس نے کلک میں اپنا ایک کلینک قائم کیا تھا، جہاں لوگ بڑی تعداد میں معذور افراد کو اس سے ’علاج‘ کروانے کی غرض سے لے کر آتے تھے۔ تاہم بعد میں کردستانی حکام نے انھیں کردستان سے بیدخل کر دیا جس کے بعد وہ سعودی عرب چلے گیا
مہرداد فراہمند نے بتایا کہ ابتدا میں مَلا علی انگریزی زبان کا استاد تھا۔ تاہم کچھ عرصہ قبل اچانک اس نے عالم یا مذہبی شخص کا روپ دھار لیا اور مذہبی شخصیات کی طرح کا لباس پہننا بھی شروع کر دیا
بی بی سی فارسی کے ترکی میں مقیم نمائندے کے مطابق مالَلا علی کردی نے کبھی کسی دینی مدرسے وغیرہ سے شریعت کی تعلیم حاصل نہیں کی۔ مہرداد فراہمند کے مطابق یہی وجہ تھی کہ عراق اور خاص طور پر عراقی کردستان میں علما اور مذہبی شخصیات اس کی شدید مخالف ہیں
یاد رہے کہ مَلا علی کردی یہ دعوٰی کرتا ہے کہ وہ ’اسلامی طریقے سے لوگوں کا روحانی علاج‘ کرنے کی قابلیت رکھتا ہے
مَلا علی کردی کے یوٹیوب چینل پر موجود وڈیوز میں دکھایا گیا ہے کہ وہ اس کے پاس ’علاج‘ کی غرض سے آنے والوں پر بظاہر کچھ پڑھ کر دن کرتا ہے
اس کی کئی وڈیوز پر عامیانہ انداز میں یہ بھی لکھا دیکھا گیا ہے کہ یہ ”خوفناک وڈیو ہے، اس میں جن نے مَلا علی پر حملہ کر دیا۔‘ اس وڈیو میں دکھایا جاتا ہے کہ مذکورہ شخص جذباتی انداز میں پیش آ رہا ہے اور وہ اسے قابو کرنے کی کوشش کر رہا ہے
ان وڈیوز میں وہ یہ بھی دعوٰی کرتے ہوئے نظر آتا ہے کہ گونگے اور بہرے افراد سننے اور بولنے لگتے ہیں یا نابینا افراد دیکھنے لگتے ہیں
ایسی ہی ایک وڈیو میں گذشتہ برس سعودی عرب کے شہر مدینہ میں وہ ایک بظاہر نابینا شخص کی آنکھوں پر لعاب لگا کر کچھ پڑھتا ہے، جس کے بعد وہ شخص کہتا ہے کہ ”اسے نظر آنا شروع ہو گیا ہے“
سعودی ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق اس واقع کے بعد مَلا علی کردی کو سعودی عرب میں لوگوں کو دھوکہ دینے اور شعبدہ بازی‘ کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا تھا، جبکہ سعودی حکام سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق اسے گرفتار تو نہیں کیا گیا تھا، تاہم اسے وارننگ دی گئی تھیکہ وہ مقدس شہر مدینہ میں شعبدہ بازی کا مرتکب ہو رہا ہے، اس لیے وہ عمرہ اور روضہ رسول پر حاضری دینے کی جس غرض سے حاضر ہوا ہے، باقی زائرین کی طرح وہی کرے اور شعبدہ بازی سے باز رہے
مقامی صحافی کے مطابق سعودی حکام نے انہیں بتایا کہ مَلا علی کردستانی نے سعودی عرب میں جس شخص کی بینائی واپس لانے کا دعوٰی کیا تھا وہ کوئی سعودی شہری نہیں تھا، بلکہ مَلا علی کے اپنے علاقے کا رہنے والا تھا اور یہ کہ وہ نابینا بھی نہیں تھا، اس کی صرف بینائی کمزور تھی
بی بی سی فارسی کے نمائندے مہرداد فراہمند کے مطابق مَلا علی کردی نے اپنے چند نظریات پیش کیے تھے جو انتہائی غیر معمولی نوعیت کے تھے. ایک موقع پر اس کا یہ کہنا تھا کہ اگر کوئی گنجے پن کا شکار ہو اور بال اگانا چاہتا ہو تو وہ گائے وغیرہ کے گوبر کو ایک خاص قسم کے تیل کے ساتھ ملا کر سر پر لگائے تو اکہتر دنوں کے بعد اس کے سر پر بال اگنا شروع ہو جائیں گے. تاہم بعد میں معلوم ہوا کہ مَلا علی جو کہ خود گنجے پن کا شکار تھا، وہ ترکی سے مصنوعی طریقے یعنی سرجری کے ذریعے بال لگوا کر آیا تھا
مہرداد فراہمند کے مطابق ایک موقع پر عراق کے شہر اربیل میں اسے ایک لائیو ٹی وی شو میں مدعو کیا گیا اور اسے پہلے سے بتائے بغیر وہاں ایک ایسے شخص کو بھی بلایا گیا تھا جو کہ جسمانی طور پر مفلوج تھا یعنی فالج کا شکار تھے
لائیو ٹی وی پروگرام میں اس سے کہا گیا تھا کہ وہ فالج کا شکار اس شخص کو ٹھیک کرے، لیکن مَلا علی کردی ایسا نہیں کر پایا تھا. بلکہ یہ بہانہ گھڑ لیا کہ اس کے لیے چند شرائط ہونا ضروری ہوتی ہیں جیسا کہ اسے روزے کی حالت میں ہونا چاہیے اور کچھ خاص انتظامات کرنے ہوتے ہیں۔ لیکن اس ٹی وی پروگرام کے بعد عراقی کردستان میں اس کی قلعی بڑی حد کھل گئی تھی اور اس کی مقبولیت کو کافی دھچکا پہنچا تھا
ترکی کے ایک مقبول جریدے ’یینیشفک‘ نے رواں برس سات اگست کو ایک خبر شائع کی جس میں بتایا گیا کہ مَلا علی کردی نے استنبول کے ایک علاقے بشک شہر میں دفتر قائم کیا تھا۔ تاہم پولیس نے لوگوں کو چھڑی سے مارنے کی شکایات پر ان کا دفتر سیل کر دیا تھا
استنبول میں مقیم ایک مقامی صحافی بتایا کہ ان کی اطلاعات کے مطابق مَلا علی کردی کے پاس ایک تو کوئی لائسنس وغیرہ نہیں تھا اور علاج کرنے کی کوئی ڈاکٹری قابلیت نہیں تھی
ساتھ ہی اس کے خلاف ایک خاندان نے پولیس کو شکایت بھی کی تھی کہ ان کے آٹزم کے شکار بچے کو بظاہر علاج کے دوران تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا
اس کے بعد اس کے دفتر پر پولیس نے چھاپہ مار کر اسے بند کر دیا تھا جبکہ جریدے یینیشفک کے مطابق پولیس اس کی گرفتاری کے لیے کوششیں کر رہی تھی۔ جریدے کے مطابق اس پولیس کارروائی کے بعد بھی مَلا علی کردستانی چوری چھپے ہوٹلوں اور گاڑیوں کے اندر لوگوں کا ”روحانی علاج“ کرتا رہا تھا
ایک شخص مصطفیٰ کپلان نے ’حریت‘ کو بتایا، ’میرے ایک بچے کو آٹزم ہے۔ میں نے سنا کہ ملا علی کردستانی نامی ایک شخص ترکی آیا ہے اور باشاک شہر میں مریضوں کا علاج کر رہا ہے۔ ہم جانتے تھے کہ آٹزم میں مبتلا بچوں کا علاج ممکن نہیں، مگر ہم پھر بھی اس کے پاس چلے گئے۔ جب میں ان کے دفتر میں داخل ہوا تو میں نے دیکھا کہ وہ بچوں کے سروں کو پکڑے کچھ پڑھ رہے تھے۔ اس کے بعد وہ ایک بچے کو الگ کمرے میں لے گئے اور اس کے پیروں پر ایک سوا فٹ لمبی چھڑی سے ضربیں لگانا شروع کر دیں۔ اس کے بعد انہوں نے بچوں کے والدین سے کہا کہ یہ عمل ایک سال تک جاری رہے گا اور وہ ہر دو ماہ بعد چیک اپ کے لیے آتے رہیں۔ اس نے کہا کہ یہی اس کا طریقۂ علاج ہے اور وہ اس کے 200 لیرا وصول کرتا ہے
فلیز دوغرو نامی ایک ماں کا بچہ بھی آٹزم کا شکار ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’اس وقت ہماری واحد امید یہ شخص مَلا علی کردستانی ہے جو باہر سے آیا ہے۔ اس شخص کو اس کے اپنے ملک سے جلاوطن کیا گیا ہے، اسے سعودی عرب میں گرفتار کیا گیا تھا اور وہ ازبکستان میں کام کرتا ہے
اخبار ’حریت‘ کے مطابق ایک اور شخص نے کہا کہ اس کا بچہ سن نہیں سکتا تھا۔ وہ مَلا کردستانی کے پاس آئے، جنہوں نے ان سے 1400 لیرا وصول کیے اور بچے کے کان کھینچ کر اس کی کمر پر چھڑی سے ضربیں لگائیں۔ اس کے بعد انہوں نے بچے کو کوئی دوا بھی دی جو ٹافی کی طرح کی کوئی چیز تھی۔‘
احمد کی اہلیہ مریم ازکایہ کہتی ہیں، ’ہم منتظر ہیں کہ ہمارا بچہ بات کر سکے اور وہ چل پھر سکے۔ لیکن انہوں نے ہم سے پچیس ہزار یوروز مانگے ہیں۔‘
آٹزم سے متاثر ایک بچے کی والدہ کا کہنا تھا کہ ’ہماری امیدیں ایک شخص ملا علی کردستانی سے وابستہ ہیں۔ انہیں پہلے اپنے ملک سے نکالا گیا تھا، پھر انہیں سعودی عرب میں گرفتار کیا گیا اور اب وہ اپنا کام ازبکستان میں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کئی لوگ سوشل میڈیا پر ان کو دیکھتے ہیں اور ان پر یقین کرتے ہیں۔‘
اس سے قبل سال 2020ع میں ملا کردستانی کو سعودی عرب میں بھی گرفتار کیا گیا تھا۔ گرفتاری سے دو روز قبل انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے مدینہ میں ایک نابینا شخص کی بینائی لوٹا دی ہے. مدینہ پولیس نے ان کی گرفتاری کی وجہ دھوکہ دہی بتائی تھی
حال ہی میں لگ بھگ دو سے تین ہفتے قبل مَلا علی کردستانی پاکستان پہنچا تھا۔ یہاں اس نے سوشل میڈیا پر اپنا نام طبیب ”مالا علی محمود کُردی“ بتایا۔
خیبر پختونخوا کے شہر پشاور میں مجلسِ علما حیات آباد کے سیکریٹری جنرل مولانا ظہیر الرحمان نے بتایا کہ اسلام آباد میں سینیٹر طلحہ محمود کے فارم ہاؤس پر ان کی مَلا علی کردستانی سے ملاقات ہوئی تھی. وہ پشاور جانے کا ارادہ رکھتا تھا جہاں کئی افراد اس کے منتظر تھے تاہم چند وجوہات کی بنا پر اس نے پشاور جانے کا ارادہ ترک کر دیا تھا
وہ یکم نومبر کو پاکستان پہنچا۔ پہلے اس نے لاہور میں قیام کیا اور آج کل اسلام آباد آئا ہوا ہے، جہاں ہزاروں کی تعداد میں لوگ علاج کی غرض سے اس کے پاس آ رہے ہیں
اس حوالے سے پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن لاہور کے صدر ڈاکٹر اشرف نظامی کا کہنا ہے کہ پاکستان اور دنیا کے بہت سے ممالک کے اندر مذہب کا سہارا لے کر عام لوگوں کو بے وقوف بنایا جاتا ہے، اور اس کے ساتھ یہ شعبدہ بازی چلتی رہتی ہے
انہوں نے کہا کہ ہم بطور پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن، سائنسی بنیاد پر سمجھتے ہیں کہ ایک سائیکو تھراپی ہوتی ہے، لیکن ایسے جو معجزے ہیں ان کا امکان ممکن نہیں۔ ہم ثبوت کی بنیاد پر ہونے والی چیزوں پر یقین کرتے ہیں۔ اب ایک بندہ جو عربی بولتا ہے اس کا حلیہ بھی اسی قسم کا ہوگا تو ظاہر ہے کہ یہاں کے سادہ لوگ اس سے متاثر ہوئے ہوں گے۔ لیکن بطور ڈاکٹر میں سمجھتا ہوں کہ غالباً ایسے معجزوں کا کوئی وجود نہیں
اگر طبی ادارے ملا کردستانی کے طریقۂ علاج کو شعبدہ قرار دے رہے ہیں تو کیا حکام ان کے خلاف کوئی کارروائی کر رہے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں اسلام آباد کے میئر حمزہ شفقات کا کہنا ہے کہ جب تک وہ کوئی قانون نہیں توڑیں گے، تب تک ہم ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کر سکتے۔ ہم تک جو اطلاعات پہنچی ہیں ان کے مطابق وہ قرآن کا ورد کر رہے ہیں یا دم درود کر رہے ہیں، یہ کسی قانون شکنی کی ذیل میں نہیں آتا
حمزہ شفقات نے ٹوئٹر پر ملا علی سے برات کا اعلان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’میں نے سنا ہے کہ کوئی روحانی معالج اسلام آباد آیا ہوا ہے۔ لوگ ان سے اپائنٹمنٹ لینے کے لیے ہم سے رابطہ کر رہے ہیں۔ بطورِ وضاحت عرض ہے کہ ہمارے دفتر کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے
ملا علی کردستانی ہیں کون؟
کردستانی کی سوشل میڈیا ہر وڈیو بھی وائرل ہیں اور سینکڑوں افراد ان کا پتہ پوچھتے رہتے ہیں
متنازع شخصیت
مَلا علی کردستانی کا تعلق عراق سے ہے اور وہ خود کو ’حکیم‘ کہتے ہیں۔ لیکن وہ متنازع شخصیت ہیں
ترکی میں انہیں گرفتار کرنے کے لیے چھاپے مارے گئے، جب کہ عراق اور سعودی عرب میں انہیں گرفتار بھی کیا جا چکا ہے
وہ مشرقِ وسطیٰ کے مختلف ملکوں میں لوگوں کا ”روحانی“ علاج جا دعویٰ کرتا ہے اور سوشل میڈیا پر اپنے طریقۂ علاج کی تشہیر کرتا ہے۔ اس کے یوٹیوب چینل پر مختلف وڈیوز موجود ہیں، جن میں اسے لوگوں میں سے جن نکالنے اور ناقابلِ علاج بیماریوں کا علاج کرتے دکھایا گیا ہے
اس نے استنبول میں بھی ایک دفتر قائم کیا تھا، جہاں ان لوگوں کا علاج کیا جانا تھا، جنہوں نے مَلا علی کردستانی سے علاج کی درخواست سوشل میڈیا کے ذریعے بھیجی تھیں
وہاں علاج کے لیے آنے والے ایک خاندان نے ملا علی کردستانی کے طریقہ علاج کو دیکھنے کے بعد شکایت کی، جب کہ ایک شخص نے اس طریقۂ علاج کی وڈیو بھی بنا لی جس میں مَلا علی کردستانی کے ایک معاون کو مریض کے پیروں پر ڈنڈے مارتے دیکھا جا سکتا تھا
لیکن اس کے باوجود اگلی صبح ان کے دفتر کے باہر لوگوں کا ایک جمگھٹا پھر سے موجود تھا، جس میں امریکا اور جرمنی تک سے آنے والے لوگ شامل تھے
ترک اخبار ’حریت‘ کے مطابق مَلا علی کردستانی کے معاون علاج کے لیے ان کے دفتر آنے والے افراد کے نام اور فون نمبر درج کرتے تھے اور انہیں بتایا جاتا تھا کہ علاج کے لیے صرف محدود تعداد کو ہی ’کورس‘ میں داخلہ دیا جائے گا، لیکن ہجوم کو بار بار مطلع کرنے کے باوجود بھی علاج کی غرض سے آنے والے لوگ باز نہیں آتے
وڈیو سامنے آنے کے بعد ترک حکام نے مَلا علی کردستانی کے دفتر پر چھاپہ مار کر اسے سیل کر دیا، جب کہ مَلا علی کردستانی کو گرفتار کرنے کے لیے چھاپے مارے گئے
تفصیلات کے مطابق پولیس کو ان کے دفتر پر چھاپے کے دوران ڈنڈے، لکڑی کے ٹکڑے، اسٹریچر اور کئی کتابیں ملیں جن پر مَلا علی کردستانی کی تصاویر چھپی ہوئی تھیں۔ یہ تمام چیزیں اس ’طریقۂ علاج‘ میں استعمال ہوتی تھیں
چھاپے کے دوران حکام کو ایسے افراد کا بھی سامنا کرنا پڑا جو مَلا علی کردستانی کا دفاع کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ ’وہ ہمارا علاج کر رہے ہیں۔ آپ نے ان کے خلاف شکایت کیوں درج کی ہے؟‘
جرمنی سے آنے والے احمد ازکایہ کا کہنا تھا کہ ’ہم جرمنی سے آئے ہیں۔ ہم نے اپنا رہائش کا اجازت نامہ بھی حاصل نہیں کیا، لیکن وہ یہاں نہیں ہیں۔ اب ہم ان کا انتظار نہیں کریں گے۔ ہم نے ان کے بارے میں سوشل میڈیا سے سنا تھا اور اسے سچ سمجھ لیا۔‘
اس سے قبل 2017ع میں مَلا کردستانی نے دعویٰ کیا تھا کہ اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر جنوں کا سایہ ہے، اور وہ ان کا علاج بھی پیروں کے تلووں پر چھڑیاں مار کر کر سکتا ہے. لیکن ڈونلڈ ٹرمپ نے بہرحال انہیں اپنے جن نکالنے کے لیے نہیں بلایا لیکن پاکستانیوں نے بلا لیا.