پینسٹھ سالہ ہَیر بی بی کے ماہر ہاتھوں میں موجود سوئی ایک روایتی بلوچی لباس پر چل رہی تھی۔ بلوچستان کے ضلع کیچ کے گاؤں کڈن کی رہائشی ہَیر بی بی کپڑوں پر کڑھائی کی ماہر ہیں جنہیں مقامی طور پر دوچ گیر کہا جاتا ہے
اپنی عمر کے باوجود وہ گزر بسر کرنے کے لیے کام کرتی ہیں اور تقریباً دس ہزار روپے ماہانہ کما لیتی ہیں۔ انہوں نے سولہ سال کی عمر سے کڑھائی کا کام شروع کیا تھا
ہَیر بی بی کا کہنا ہے کہ ’میرے پاس کڑھائی کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے، میرے بیٹے بے روزگار ہیں، میرے شوہر ایک دکاندار ہیں اور صرف ان کی کمائی ہمارا پیٹ پالنے کے لیے ناکافی ہے‘۔ ہَیر بی بی کی دو بیٹیاں بھی کڑھائی کا کام کرتی ہیں اور گھر کی آمدن میں حصہ ڈالتی ہیں
ہَیر بی بی ان ہزاروں بلوچ خواتین میں سے ایک ہیں جو چاغی، جھل مگسی، مکران، ڈیرہ بگٹی، جھل، سبّی، کوہلو، مستونگ اور قلات جیسے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں دوچ گیر کے طور پر کام کرتی ہیں
شام تک گھر کے کام مکمل کرنے کے بعد وہ کپڑا اور دھاگا لیے چارپائی پر بیٹھ جاتی ہیں اور کڑھائی شروع کردیتی ہیں۔ کبھی کبھی تو وہ چھ گھنٹے تک بھی کام کرتی ہیں خاص طور پر اس وقت جب انہوں نے صبح سویرے گھر کے کام شروع کرنے سے قبل کڑھائی نہ کی ہو۔ گھنٹوں تک سیدھے بیٹھے رہنا اور کڑھائی پر توجہ دینا بہت مشکل کام ہوتا ہے، اسی وجہ سے دوچ گیروں میں کمر درد اور نظر کمزور ہونے کی شکایت عام ہوتی ہے
بلوچ خواتین فراک کی طرح کے جس روایتی لباس کو پہنتی ہیں اسے پشک کہا جاتا ہے۔ پشک پر ہونے والی کڑھائی کمر سے دامن کے کنارے تک جانے والی جیبوں اور آستینوں پر کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ پشک کے ساتھ پہنی جانے والی شلوار کے پائنچوں پر بھی کڑھائی ہوتی ہے
یہ کڑھائی عموماً پشک کے رنگ یا اس سے مختلف رنگ سے کی جاتی ہے اور بعض اوقات رنگ برنگے دھاگوں کے ساتھ شیشے کا بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ پشک عام طور سے ماؤں کے بعد بیٹیوں کو دی جاتی ہے کیونکہ اس پر ہونے والی ہاتھ کی پیچیدہ کڑھائی خراب نہیں ہوتی۔ اگر پشک کا کپڑا خراب بھی ہوجائے تو اس کڑھائی کو کاٹ کر کسی اور کپڑے پر بھی سیا جاسکتا ہے
واحد بزدار ایک بلوچ مؤرخ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’نوجوان بلوچ لڑکیاں بڑے ہوتے ہوئے یہ ہنر سیکھتی ہیں اور اسے ایک سے دوسری نسل کو منتقل کیا جاتا ہے‘
ان کے مطابق ’بلوچی کڑھائی مکمل طور پر ہاتھ سے کی جاتی ہے اور یہ بہت ہی باریک اور پیچیدہ ڈیزائن پر مشتمل ہوتی ہے۔ اس کڑھائی میں بنائے جانے والے نقش و نگار مہر گڑھ کی تہذیب کے آثار سے ملنے والے ظروف پر موجود نقوش سے ملتے جلتے ہیں۔ یہ ظروف تقریباً گیارہ ہزار سال پرانے تھے اور یہ بولان پاس کے قریب کچھی کے علاقے میں کھدائی کے دوران برآمد ہوئے تھے‘
کڑھائی شدہ روایتی بلوچی لباس کی قیمت کا دار و مدار اس کے ڈیزائن پر ہوتا ہے۔ روزمرہ استعمال کا لباس پندرہ ہزار روپے سے شروع ہوتا ہے اور خاص مواقع پر پہنے جانے والا لباس ستر ہزار روپے تک کا ہوسکتا ہے۔ دوسرے دیہاتوں کی خواتین سے ملنے والے آرڈر کے علاوہ کڈن کے ہنر مندوں کے پاس اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کے ذریعے تربت، کوئٹہ اور مشرق وسطیٰ سے بھی آرڈر آتے ہیں
ان دوچ گیروں کو آرڈر دینے والے انہیں دھاگا اور کپڑا بھی فراہم کرتے ہیں جو کراچی، تربت یا گوادر سے خریدا جاتا ہے۔ کڑھائی ہوجانے کے بعد یا تو صارف خود اسے سیتا ہے یا پھر کسی درزی سے سلواتا ہے
ایک دوچ گیر کی آمدن کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ وہ ایک سال یا مہینے میں کتنے کپڑوں پر کڑھائی کرلیتی ہے۔ اوسطاً ایک دوچ گیر مہینے میں ایک لباس پر کڑھائی مکمل کرلیتی ہے جس کی قیمت تقریباً تیس ہزار روپے ہوتی ہے۔ اگر صرف آستینوں یا جیبوں پر کڑھائی کرنی ہو تو ایک دوچ گیر کی کوشش ہوتی ہے کہ اسے زیادہ سے زیادہ آرڈر ملیں تاکہ انہیں خاطر خواہ آمدن ہوسکے
بیالیس سالہ راشدہ نے اپنی والدہ سے کڑھائی کرنا سیکھی تھی۔ وہ کڑھائی کے ذریعے ہر مہینے پندرہ ہزار روپے کمالیتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ’میرے شوہر کی کمائی ہمارے پیٹ پالنے اور بچوں کی تعلیم کے اخراجات کے لیے پوری نہیں پڑتی یوں میں نے کچھ اضافی آمدن کے لیے کڑھائی شروع کی تھی‘۔ راشدہ چاہتی ہیں کہ ان کی چھوٹی بیٹی حلیمہ جو اسکول جاتی ہے وہ اپنی تعلیم مکمل کرے۔ وہ اپنی بڑی بیٹی کی طرح اس کی جلد شادی نہیں کرنا چاہتیں
انہوں نے بتایا کہ ’میں پڑھی لکھی نہیں ہوں لیکن مجھے معلوم ہے کہ تعلیم کے بغیر کوئی بھی اس دنیا میں مقابلہ نہیں کرسکتا۔ حلیمہ کڑھائی کرنا سیکھ رہی ہے لیکن اسے صرف اس کے اپنے کپڑوں پر کڑھائی کرنے کی اجازت ہے کیونکہ میں چاہتی ہوں کہ اس کی توجہ پڑھائی پر رہے‘
پینتیس سالہ عائشہ کے شوہر ایک دیہاڑی دار مزدور ہیں جو ماہانہ تقریباً سولہ ہزار روپے کماتے ہیں۔ عائشہ نے بتایا کہ ’جب ان کے پاس کام نہیں ہوتا تو میری آمدن سے ہی گھر چلتا ہے‘۔ اسی طرح اٹھائیس سالہ فہمیدہ بھی اپنی شادی سے قبل گھریلو اخراجات اور اپنے چھوٹے بھائی کی تعلیم کے لیے اپنے والد کی آمدن میں حصہ ڈالتی تھیں
انہوں نے اپنے کمسن بچے کے ساتھ کھیلتے ہوئے ہمیں بتایا کہ ’بعض اوقات میں ہنگامی نوعیت کی طبّی ضرورت میں دیگر خواتین سے کچھ رقم ادھار لے لیتی تھی اور بدلے میں انہیں ایک لباس پر کڑھائی کرکے دے دیتی تھی‘۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ’میں اب بھی ایک دوچ گیر کے طور پر کام کرتی ہوں کیونکہ اس طرح میں اپنی ضرورت کی کوئی بھی چیز خریدنے میں آزاد ہوتی ہوں اور یہ میرے لیے اطمینان کا باعث ہوتا ہے‘
بلوچی کڑھائی کو عالمی سطح پر بھی سراہا جاتا ہے۔ ایک برطانوی گلوکار اور لکھاری فلو موریسی کے ساتھ ساتھ شبانہ اعظمی اور کنگنا رناوت جیسی کچھ بولی وڈ اداکاراؤں کی بھی بلوچی لباس میں تصاویر موجود ہیں۔ 2020ء میں ایک نوجوان بلوچ کینیڈین خاتون حلیمہ حوسِن زہی کی پشک میں ملبوس تصاویر وائرل ہوئیں جس میں وہ اپنی بہن سارہ کے ساتھ باسکٹ بال کھیل رہی تھیں۔ ان تصاویر کے بعد ووگ میگزین نے بھی ان کا انٹرویو کیا
ہانی بلوچ بحرین میں مقیم ایک فنکار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ہمیں ان فنکاروں اور ان کے فن کو مزید فروغ دینا چاہیے۔ میں نے بلوچی کڑھائی کے ڈیزائن ایچ اینڈ ایم اور زارا کے کپڑوں پر بھی دیکھے ہیں لیکن وہاں اس ڈیزائن، بلوچ ثقافت اور دوچ گیروں کا کوئی حوالہ نہیں تھا۔ ہم اس عمل کو پسے ہوئے طبقے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے منافع کمانا کہہ سکتے ہیں لیکن حقیقت تو یہ ہے ہم نے خود بھی اپنی ثقافت کو فروغ نہیں دیا ہے‘
واحد بزدار کے مطابق ’یہ بلوچ خواتین بغیر کسی تعلیم یا بہت کم تعلیم کے ساتھ سخت حالات میں اپنے خاندان کی مدد کررہی ہیں اور صدیوں پرانی روایت کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ انہیں حکومت اور این جی اوز سے ستائش کی ضرورت ہے۔ ان کی صلاحیتوں کے فروغ اور انہیں تکنیکی مدد فراہم کرنے سے نہ صرف زیادہ سے زیادہ خواتین کو خودمختار بنایا جاسکے گا بلکہ اس سے بلوچ ثقافت کو بھی ترقی دی جاسکے گی‘