مہسا امینی کی ہلاکت پر احتجاج میں شدت، مزید ہلاکتیں ”اخلاقی پولیس کیا ہے؟“

ویب ڈیسک

ایران میں مہسا امینی عرف ژینا نامی بائیس سالہ خاتون کی پولیس حراست میں ہلاکت کے بعد پھوٹ پڑنے والا احتجاج کا سلسلہ جاری ہے، جبکہ انٹرنیٹ سروسز بھی تقریباً معطل کر دی گئی ہیں اور ملک میں موجود دو مغربی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز انسٹاگرام اور واٹس ایپ تک رسائی متاثر ہوئی ہے

یاد رہے کہ انسانی حقوق کے کارکنوں نے الزام لگایا ہے کہ حراست کے دوران مہسا پر تشدد کیا گیا، سر پر چوٹ لگنے کے بعد وہ کوما میں چلی گئی تھیں اور تین دن بعد ہسپتال میں دم توڑ گئی تھیں

جمعے کے روز حکام نے سکیورٹی کیمرے کی فوٹیج جاری کی تھی جس میں مہسا امینی کو پولیس اسٹیشن کے اندر گرنے سے پہلے اپنے کپڑوں کے بارے میں ایک دوسری خاتون سے بحث کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ وہ دل کا دورہ پڑنے کی وجہ سے ہلاک ہو گئیں

لیکن ان کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ انہیں دلی کی ایسی کسی بیماری کی کوئی شکایت کبھی نہیں تھی۔ رشتہ داروں نے بتایا ہے کہ بعض عینی شاہدین نے پولیس کار کے اندر انہیں پھینکتے ہوئے دیکھا تھا

مہسا امینی کے والد امجد امینی نے ایک مقامی نیوز ویب سائٹ کو بتایا، ”میں نے گاڑی کے اندر موجود کیمروں اور پولیس اسٹیشن کے صحن سے بنائی گئی (وڈیوز) تک رسائی مانگی ہے، تاہم انہوں نے اس کا ابھی تک کوئی جواب نہیں دیا۔“

مہسا امینی کی ہلاکت کے خلاف ملک بھر میں اٹھنے والی احتجاجی لہر کے بعد انٹر نیٹ کی بندش اور رابطوں کے ذرائع کے فقدان کے باعث لوگوں کے لیے احتجاج کو منظم کرنا اور حکومت کی جانب سے اختلاف رائے رکھنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن کے حوالے سے معلومات کی فراہمی مشکل ہو گئی ہے

واضح رہے کہ درست طور پر حجاب نہ اوڑھنے پر پولیس کے ہاتھوں گرفتاری اور پھر دوران حراست ہی بائیس سالہ خاتون کی ہلاکت کے بعد ایران میں شدید احتجاج ہو رہا ہے، جس میں کئی مقامات پر مظاہرین اور پولیس کے درمیان شدید جھڑپیں بھی ہوئی ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ مظاہرین پر لاٹھی چارج اور آنسو گیس کا استعمال کیا گیا جبکہ جھڑپوں کے دوران آٹھ افراد ہلاک بھی ہوئے ہیں، جن میں چار کو فورسز نے نشانہ بنایا جبکہ سینکڑوں کی تعداد میں زخمی ہیں

نومبر 2019 میں ایندھن کی قیمتوں میں اضافے پر ہونے والے مظاہروں کے بعد یہ ملک میں سب سے بڑا احتجاج ہے

دوسری جانب ایرانی حکام نے کا کہنا ہے کہ صرف تین ہلاکتیں ہوئی ہیں اور اس کا الزام انہوں نے ’نامعلوم مسلح گروپ‘ پر لگایا ہے

فارس نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق گورنر نے اصرار کیا کہ وہ سب ’دشمن کی سازش‘ کے تحت ’مشتبہ طریقے سے مارے گئے۔‘

دوسری جانب ایران کے قدامت پرست سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے بدھ کو عوام سے خطاب کیا لیکن انہوں نے امینی کی موت کے واقعے اور ملک میں پھیلتی ہوئی بدامنی کا کوئی ذکر نہیں کیا

اخلاقی پولیس (گشتِ ارشاد فورس) کیا ہے اور یہ کیسے کام کرتی ہے؟

ایران کی اخلاقی پولیس کے ایک افسر نے شناخت نہ ظاہر کرنے کی شرط پر برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں اخلاقی پولیس فورس میں کام کرنے کے اپنے تجربے سے متعلق بتایا

انہوں نے کہا ”وہ (ایرانی حکام) ہمیں اخلاقی پولیس میں کام کرنے کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ یہ فورس خواتین کے تحفظ کے لیے کام کرتی ہے کیونکہ اگر وہ مناسب لباس نہیں پہنیں گی تو مرد انہیں دیکھ کر جذبات پر قابو نہیں رکھ پائیں گے اور انہیں نقصان پہنچا سکتے ہیں“

انہوں نے بتایا کہ وہ چھ اہلکاروں پر مبنی ٹیموں میں کام کرتے ہیں، جن میں چار مرد اور دو خواتین ہوتی ہیں۔ اور ڈیوٹی کے دوران اُن جگہوں پر توجہ مرکوز رکھتے ہیں جہاں پیدل چلنے والے افراد یا بھیڑ زیادہ ہوتی ہے

وہ کہتے ہیں ”ویسے یہ کافی عجیب ہے کیونکہ اگر ہم صرف لوگوں کی رہنمائی کرنے جا رہے ہیں تو ہمیں کسی مصروف جگہ کو منتخب کرنے کی ضرورت کیوں ہے؟ کیونکہ اس کا ممکنہ طور پر یہ مطلب ہو سکتا ہے کہ ہم زیادہ لوگوں کو گرفتار کریں؟“

اُس افسر نے بتایا کہ اگر انہوں نے لباس کے ضابطہ کار کی خلاف ورزی کرنے والے کافی افراد کی نشاندہی نہیں کی یا ان کے خلاف کارروائی نہیں کی تو اُن کے کمانڈر انہیں اس فورس سے ہٹا دیں گے یا کہیں گے کہ وہ ٹھیک سے کام نہیں کر رہے

وہ کہتے ہیں ’افسران ہم سے توقع کرتے ہیں کہ ہم طاقت کا استعمال کر کے ان افراد کو وین میں دھکیلیں، کیا آپ جانتے ہیں ایسا کرتے ہوئے کتنی مرتبہ میری آنکھوں میں آنسو آئے؟‘

’میں انہیں بتانا چاہتا ہوں کہ میں ان میں سے نہیں ہوں۔ ہم میں سے زیادہ تر عام سپاہی ہیں جو لازم فوجی سروس کر رہے ہیں، مجھے بہت بُرا لگتا ہے۔‘

واضح رہے کہ 7 مارچ 1979 کو انقلاب کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ روح اللہ خمینی نے حکم جاری کیا کہ تمام خواتین کے لیے ان کی کام کی جگہوں پر حجاب لازمی ہوگا اور وہ بے پردہ خواتین کو ’برہنہ‘ تصور کرتے ہیں

سنہ 1983ع میں ایرانی پارلیمان نے فیصلہ کیا کہ جو خواتین سرعام اپنے بال نہیں ڈھانپتی ہیں، انہیں 74 کوڑوں کی سزا دی جا سکتی ہے۔ ابھی حال ہی میں، اس قانون میں 60 دن تک قید کی سزا کا اضافہ کیا گیا ہے

اس کے باوجود حکام اب تک اس قانون کو نافذ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں دوسری طرف ملک میں خواتین گھروں سے باہر اپنی حدود کو بڑھانے کی کوشش کر رہی ہیں

اس قانون کے نافذ کیے جانے کے بعد سے ان برسوں کے دوران ملک کے اقتدار پر رہنے والے صدر کے مطابق اس قانون کی سزاؤں میں تبدیلیاں اور شدت آتی گئی

تہران کے اس وقت کے انتہائی قدامت پسند میئر محمود احمدی نژاد نے جب 2004ع میں صدارت کے لیے انتخابی مہم چلائی تھی تو اس معاملے پر زیادہ ترقی پسند دکھائی دینے کی کوشش کی تھی

انہوں نے ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں کہا تھا ’لوگوں کے مخلتف پسند ہے اور ہمیں اس سب کا خیال رکھنا ہے۔‘

لیکن صدارتی انتخاب میں کامیابی کے فوراً بعد اس برس انہوں نے گشتِ ارشاد (اخلاقی پولیس) کو باضابطہ طور پر قائم کیا تھا۔ اس وقت تک دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں اور نیم فوجی یونٹوں کے ذریعہ خواتین کے لباس کے ضابطوں کو غیر رسمی طور پر نافذ کیا گیا تھا

ایران کی اس اخلاقی پولیس فورس کو اکثر عوام کی طرف سے اُن کے سخت رویے کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے، اور خواتین کو اکثر حراست میں لیا جاتا ہے اور صرف اس صورت میں رہا کیا جاتا ہے جب کوئی رشتہ دار یقین دہانی کرائے کہ وہ مستقبل میں قوانین کی پابندی کریں گی

ایران کے وسطی شہر اصفہان سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون نے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو بتایا کہ ’مجھے اپنی بیٹی کے ساتھ اس وقت گرفتار کیا گیا جب ہمیں ہماری لپ اسٹک کی وجہ سے روکا گیا تھا۔‘

انہوں نے کہا ’وہ ہمیں پولیس اسٹیشن لے گئے اور میرے شوہر سے کہا کہ وہ آئیں اور ایک کاغذ پر دستخط کریں کہ وہ ہمیں حجاب کے بغیر باہر نہیں جانے دیں گے۔‘

تہران سے ایک اور خاتون کا کہنا تھا کہ ایک خاتون افسر نے ان سے کہا کہ ان کے جوتے مردوں کے لیے ’بہت شہوت انگیز‘ ہیں اور انھیں حراست میں لے لیا گیا

انہوں نے بتایا ’میں نے اپنے شوہر کو کال کی اور کہا جوتے کا ایک اور جوڑا لا کر دیں۔ پھر میں نے ایک کاغذ پر دستخط کیے جس میں، میں نے اعتراف کیا کہ میں نے غیر مناسب لباس پہنا ہوا تھا اور اب میرا مجرمانہ ریکارڈ موجود ہے۔‘

ابراہیم رئیسی، جو ایک سخت گیر عالم ہیں، گذشتہ سال ایرانی صدر منتخب ہوئے تھے، نے 15 اگست کو پابندیوں کی ایک نئی فہرست کو نافذ کرنے کے حکم پر دستخط کیے تھے

ان میں نگرانی کرنے والے کیمروں کو شامل کیا گیا تھا تاکہ نقاب نہ کرنے والی خواتین کی نگرانی اور جرمانے کیے جا سکے یا انھیں ’کونسلنگ‘ کے لیے بھیجا جا سکے، اور کسی بھی ایرانی خاتون جو آن لائن حجاب کے قوانین کے خلاف سوال یا مواد پوسٹ کرے کو لازمی سزا یا قید دیے جانا شامل ہے

ان پابندیوں کی وجہ سے گرفتاریوں میں اضافہ ہوا لیکن ساتھ ہی خواتین کی سوشل میڈیا پر ہیڈ سکارف کے بغیر اپنی تصاویر اور وڈیوز پوسٹ کرنے میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، اور اس میں مہسا امینی کی موت کے بعد مزید شدت آئی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close