کوئٹہ : معروف قانون دان اور سپریم کورٹ کے وکیل علی احمد کرد ایڈووکیٹ نے کہا ہے کہ ستر سالوں سے جاری رویے کے خلاف عوام کو اٹھ کھڑا ہونا ہوگا
عاصمہ جہانگیر کے حوالے سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے علی احمد کرد کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں لوگوں کو لاپتہ کر دیا جاتا ہے اور ان کا کچھ پتہ نہیں چلتا. عدالتی انصاف کے لحاظ سے پاکستان 130 میں 126 پر کھڑا ہے
انہوں نے سوال کیا کہ ہمارے پاس کون سی عدلیہ موجود ہے؟ وہ جوڈیشری جہاں صبح آٹھ بجے سے لے کر ڈھائی بجے تک لاکھوں لوگ انصاف کے لیے کھڑے ہوتے ہیں اور جب گھر لَوٹتے ہیں تو اپنے سینوں پر زخم لے کر لَوٹتے ہیں
انہوں نے کہا کہ انصاف کے نام پر یہ مذاق اب بند ہونا چاہیے. جو عدلیہ اس وقت موجود ہے، ہم نے اس کے لیے قربانیاں نہیں دی تھیں
انہوں نے کہا کہ عدلیہ کے لیے قربانی دینے میں، علی احمد کرد ہمیشہ آگے تھا، اس لیے مجھے حق ہے کہ میں عدلیہ پر بات کروں. 126 نمبر پر موجود عدلیہ تقسیم کا شکار ہے. آخر ہم اس حالت تک کیسے پہنچے
علی احمد کرد نے کہا کہ یہ بائیس کروڑ عوام کا ملک ہے لیکن یہاں ایک جرنیل ان پر بھاری ہے، اس لیے یا تو اب اس جرنیل کو نیچے آنا ہوگا یا پھر عوام کو اوپر جانا پڑے گا، اب برابری ہوگی
ان کا کہنا تھا کہ عام پاکستانی اور ایک جرنیل میں کوئی فرق نہیں ہوگا، اسی جرنیل نے ہماری عدلیہ کو 126 ویں نمبر پر پہنچایا ہے، آج اس ملک میں انٹلیکچول کلاس ختم ہو چکی ہے اور کوئی مڈل کلاس درمیان میں نہیں رہی، اوپر بیٹھے لوگ چھوٹے چھوٹے قد کے لوگ ہیں
انہوں نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کریں، جو ستر سال سے آنکھیں دکھا رہے ہیں
علی احمد کرد نے کہا کہ ہم نے بحیثیت سیاسی کارکن ملک کی بہتری کے لئے ایک طویل جدوجہد کی ہے، اپنے تجربے کی بنیاد پر کہتا ہوں کہ اٹھو یہ ملک ریت کے ذرے کی طرح گر رہا ہے، اب بھی عوام کے پاس وقت ہے، جس طرح کے حالات ہیں اس میں ملک کو نہیں رکھا جاسکتا، ملک کی بہتری کے لئے ہمیں کشتیاں جلانا پڑیں گی.