تین عظیم مسلمان ریاضی دان، جن کے کام کو سمجھنے میں یورپی سائنسدانوں کو صدیاں لگیں

ویب ڈیسک

تھیوریٹیکل فزیسسٹ جِم الخلیلی کہتے ہیں ”الجبرا کے بغیر ریاضی تو کیا جدید فزکس بھی وجود میں نہ آ پاتی، الگورتھم کے بغیر کمپیوٹر نہ ہوتے اور الکلی کے بغیر کیمسٹری نہ ہوتی“

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے لیے دستاویزی فلم ’سائنس اینڈ اسلام‘ بنانے والے یونیورسٹی آف سرے کے پروفیسر جم الخلیلی کا کہنا ہے ”بارہویں سے سترہویں صدی کے دوران یورپی اسکالرز باقاعدہ طور پر ماضی کی اسلامی تحریروں کا حوالہ دیا کرتے تھے، جبکہ جدید سائنس میں اب بھی کئی عربی حوالے موجود ہیں“

اگر آپ فیبوناشی کے نام سے جانے جانے والی لیونارڈو آف پیسا کی حساب سے متعلق مشہور کتاب دیکھیں، جنہیں یورپ کے پہلے عظیم ریاضی دان کا اعزاز حاصل ہے، تو اس کے شواہد آپ کو مل سکتے ہیں

الخلیلی کہتے ہیں ”اس کتاب کے صفحہ نمبر 406 پر عربی نام ’محمد‘ کو لاطینی انداز میں لکھا گیا ہے۔ یہ حوالہ محمد بن موسیٰ الخوارزمی کی تحریر کا ہے، جنہوں نے اپنی زندگی سال 780 سے 850 کے دوران گزاری

خوارزمی وہ شخص ہیں، جنہوں نے ریاضی میں ایک انقلابی خیال پیش کیا کہ آپ کسی بھی نمبر کو صرف دس آسان حروف سے ظاہر کر سکتے ہیں

انہوں نے مشرقی فارس سے نکل کر بغداد میں پناہ لی تھی اور ان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے مغربی دنیا کو اعشاریے اور عددی نظام دیا۔ انھیں اکثر ’فادر آف الجبرا‘ کے طور پر جانا جاتا ہے

’سائنس اور اسلام‘ نامی دستاویزی فلم کے تخلیق کار الخلیلی

برطانیہ میں سینٹ اینڈریوز یونیورسٹی کے جان جوزف کہتے ہیں کہ ایسے کئی خیالات ہیں جنہیں سولہویں، سترہویں اور اٹھارہویں صدیوں کے دوران یورپی ریاضی دانوں کی خدمات سمجھا جاتا رہا، لیکن حقیقت میں عربی یا اسلامی ریاضی دان اسی نوعیت کے خیالات چار صدیوں قبل پیش کر چکے تھے

وہ کہتے ہیں ”جو ریاضی آج ہم پڑھتے ہیں، یہ یونانیوں سے زیادہ عربی یا اسلامی خدمات کے زیادہ قریب ہے“

عرب اور اسلامی دنیا کی تاریخ میں ایسے کئی عظیم ریاضی دان پیدا ہوئے ہیں. اس رپورٹ میں ان میں سے تین کا ذکر کیا گیا ہے

جابر بن سنان البتانی

میڈرڈ کی یونیورسٹی میں عربی اور اسلامی تعلیم کے شعبے کے سابق ڈائریکٹر اور ریٹائرڈ پروفیسر ہوان کساڈا کہتے ہیں ”عرب ریاضی دانوں کی بڑی خدمات میں سے ایک یہ تھی کہ انہوں نے ترجمے کی مدد سے یونانی اور لاطینی سائنس کو محفوظ کیا۔ اور وہ انڈینز کی سائنسی دریافتوں کو بھی مزید آگے لے گئے“

ہوان کساڈا نے بتایا ”البتانی کی اہمیت یہ ہے کہ انہوں نے فلکیات اور ریاضی کو اکٹھا کیا اور اسے ایک ہی شعبہ تعلیم بنایا“

انھوں نے ریاضی کے فارمولے فلکیات پر عائد کیے۔ مثلاً انہوں نے بڑی مہارت سے یہ تعین کر لیا کہ شمسی سال میں 365 دن ہوتے ہیں، جو بڑی کامیابی تھی۔ ہوا کساڈا زور دے کر کہتے ہیں ”یاد رکھیں، ہم یہاں نویں صدی کے اواخر اور دسویں صدی کے اوائل کی بات کر رہے ہیں“

’سورج کی حرکت سے ملنے والی معلومات کا مطالعہ کر کے انہیں معلوم ہوا کہ بطلیموس کی تحقیق میں غلطیاں تھیں اور اس طرح عربی ریاضی دانوں نے بطلیموس کے یونانی ورثے کو درست کیا‘

پولینڈ میں کوپرنیکس کا مجسمہ

انھوں نے مثلیات یا ٹرگنومیٹری کے اصول بھی متعارف کرائے

الخلیلی نے اٹلی میں یونیورسٹی آف پادووا کا دورہ کیا اور انہیں سائنس کی تاریخ کی اہم ترین کتابوں میں سے ایک ملی، جو نکولس کوپرنیکس نے تحریر کی تھی

الخلیلی کا کہنا ہے ’اس کتاب کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ اس میں کوپرنیکس نے قدیم یونانی عقیدے کے برعکس دلیل دی کہ زمین سمیت تمام سیارے سورج کے گرد گھومتے ہی۔‘

’کئی مؤرخ انہیں یورپ کے سائنسی انقلاب کا موجد کہتے ہیں۔‘ مگر کوپرنیکس نے بھی اپنی کتاب میں البتانی کا حوالہ دیا تھا

’یہ بڑی بات ہے کہ وہ نویں صدی کے ایک مسلمان کا حوالہ دیتے ہیں، جنہوں نے انہیں اپنے مشاہدے سے متعلق کافی معلومات دی تھیں‘

البتانی شام میں اورفہ کے قریب 858 میں پیدا ہوئے اور ان کا انتقال 929 میں عراق میں ہوا ’کوپرنیکس نے سیاروں، سورج، چاند اور ستاروں کے وجود کو سمجھانے کے لیے البتانی کے مشاہدوں کو استعمال کیا‘

اسپین میں یونیورسٹی آف سالامانکا میں عربی اور اسلامی تعلیمات کے پروفیسر جیمی کورڈیرو کا کہنا ہے کہ ابن الشاطر ایک ماہر فلکیات اور ریاضی دان تھے، جو سال 1304 کے قریب دمشق میں پیدا ہوئے۔ ’انہیں مغرب میں بہت کم پہچانا جاتا ہے کیونکہ ان کے کام کا ترجمہ لاطینی زبان میں نہیں ہوا تھا‘

تاہم وہ کہتے ہیں کہ 1980 کی دہائی کے دوران محققین نے الشاطر کے سیاروں کا ماڈل دریافت کیا اور انہیں احساس ہوا کہ یہ وہی ماڈل ہے، جو کوپرنیکس نے کچھ صدیوں بعد تجویز کیا تھا

ابن الہیثم

بھارت کی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں فزکس کے پروفیسر شیخ محمد رضا اللہ انصاری نے یونیسکو کی ویب سائٹ کے لیے ایک تحریر لکھی تھی۔ اس میں وہ دسویں اور گیارہویں صدی کے ایک ایسے عرب اسکالر کے بارے میں بتایا، جنہوں نے نہ صرف اپنی زندگی ریاضی بلکہ فزکس، مکینکس، فلکیات، فلسفے اور طب کے لیے وقف کر دی

وہ عظیم سائنسدان ابو علی الحسن ابن الہیثم البصری کی بات کر رہے تھے، جنہیں مغرب میں الہیزن یا ہسپانوی زبان میں الہیسن بھی پکارا جاتا ہے

وہ 965 میں عراق میں پیدا ہوئے اور ان کا انتقال 1040 میں مصر میں ہوا۔ وہ قاہرہ کے معروف سائنسدانوں میں سے ایک ہیں، جنہیں عرب اسکالرز کا ’بطلیموس دوئم‘ بھی کہا جاتا ہے

انہیں جدید سائنسی طرز کا بانی سمجھا جاتا ہے۔ رضا اللہ انصاری کہتے ہیں کہ انہوں نے کسی بنیادی مفروضے کی آزمائش کے لیے تجربے کا طریقہ بنایا تھا۔ کساڈا کہتے ہیں کہ انہوں نے مختلف شعبوں میں بہت خدمات دی ہیں

انصاری کے مطابق ان کی معروف کتاب ’فی المناظر‘ کا ترجمہ بارہویں اور تیرہویں صدی کے دوران لاطینی زبان میں کیا گیا تھا۔ اس کتاب کی سات جلدیں ہیں، جن میں وہ تجربے اور ریاضی کی مدد سے روشنی کی خصوصیات پر معلومات دیتے ہیں

میڈرڈ یونیورسٹی میں ریاضی کے پروفیسر ریکارڈو مورینو انہیں ایک عظیم ریاضی دان قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں ”وہ ان پہلے عربی ریاضی دانوں میں سے تھے، جنہوں نے بڑے سوالوں کو حل کرنا سکھایا۔ انھوں نے ہندسوں کی مدد سے ایک تہائی سوالوں کے جواب دیے۔ یہ وہ سوال تھے، جو ارشمیدس نے 1200 سے زیادہ سال قبل پوچھے تھے“

الہیثم نے نمبر تھیوری کے شعبے میں کامل عدد جبکہ ہندسوں پر کافی اہم کام کیا۔ اور انہوں نے اقلیدس کے تھیورم کے مخصوص سوالوں پر تحقیق کی

ابو کامل الحاسب

ریکارڈو مورینو بتاتے ہیں ”خوارزمی کی موت کے بعد مصر میں ابو کامل شجاع بن اسلم بن محمد بن شجاع الحاسب کی پیدائش ہوئی جنہیں ’مصری کیلکولیٹر‘ بھی کہا جاتا ہے

اپنی اَسّی سالہ زندگی کے دوران انہوں نے ریاضی میں بے شمار خدمات سرانجام دیں۔ ان میں الجبرا میں ان کی تحقیق شامل ہے، جس کی اصل عربی شکل گم ہو گئی تھی۔ لیکن اس کے لاطینی اور عبرانی میں دو ترجمے اب بھی دستیاب ہیں

’اپنے بغدادی پیشرو کی طرح انہوں نے ہندسوں کی مدد سے دو درجی مساوات کو حل کیا۔‘

ابو کامل کی زندگی کے بارے میں بہت کم معلومات موجود ہے۔ لیکن الجبرا کی تحقیق میں ان کا نمایاں کردار رہا ہے۔ وہ اس شعبے میں خوارزمی کے جانشین سمجھے جاتے ہیں۔ ’کامل خود بھی الخوارزمی کو الجبرا کے بانی کہتے ہیں‘

تاہم ابو کامل کے کام کی اہمیت اور بھی زیادہ ہے۔ فیبوناشی کی کتابوں کی بنیاد اسی کام پر ہے۔ ”کامل محض عربی الجبرا کی ترقی میں اہم نہیں بلکہ فیبوناشی کے ذریعے انھوں نے یورپ میں الجبرا کو متعارف بھی کروایا“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close