چہرہ در چہرہ (عربی افسانہ)

محمد حسن الکواری (مترجم: محمد فیصل)

وہ اس کے سامنے کرسی پر بیٹھی ہوئی تھی۔ اس کے ہاتھ رانوں پر دھرے تھے۔ کرسی کے اوپری حصے نے اس کے آدھے جسم کو گھیرا ہوا تھا۔ وہ بے پردہ تھی۔ اس کے بال چھوٹے اور لباس عمدہ تھا۔ وہ اپنے سامنے پڑی کرسی کو ایسی تیز نظروں سے گھور رہی تھی، جیسے وہاں کوئی براجمان ہو۔ اس کے چہرے پر تکان تھی مگر اس کے چہرے کو دیکھ کر ہلکا سا گمان گزرتا تھا کہ اس ایک چہرے کے پیچھے بہت سے چہرے مستور ہیں۔

اس نے گہرا کش لیا اور دھواں اس کے چہرے پر چھوڑ دیا۔ چہرہ مرغولوں سے گھِر جانے کے باوجود وہ آرام سے بیٹھی رہی۔ اس نے دھواں ہٹانے کی کوشش بھی نہ کی۔ دھواں آہستہ آہستہ روشن دان اور کھڑکی سے باہر نکل گیا۔ وہ اس کے سامنے آ کر بیٹھ گیا اور پوچھا ’’تم نے اپنے خاوند کو کیوں قتل کیا ہے؟‘‘

’’میں نے اسے قتل نہیں کیا‘‘

’’سارے شواہد تمہاری طرف اشارہ کر رہے ہیں۔۔ اس نے تمہیں دوسروں کے سامنے ذلیل کیا اور کئی بار پیٹا بھی۔۔۔ اس نے ایک درہم بھی تمہیں نہیں دیا بلکہ اس نے تمہارے زیور اور رقم بھی ہتھیا لی۔ وہ تمہیں کبھی ہسپتال نہیں لے کر گیا۔ نہ اس نے تمہیں تمہارے خاندان سے ملنے کی اجازت دی۔۔۔ اور سب سے بڑھ کر، وہ بے روزگار تھا‘‘

’’ہاں! اس نے یہ سب کچھ کیا مگر میں نے اسے نہیں مارا‘‘

’’کیا اسے مر جانا چاہیے تھا؟ کیا تم چاہتی تھیں کہ وہ مر جائے؟‘‘

’’ہاں اسے مرجانا چاہیے تھا۔۔۔ مگر میں نے کچھ نہیں کیا‘‘

وہ کھڑا ہو گیا اور اس کی طرف بڑھا۔ چند قدم چل کر وہ اس کی کرسی کے پاس جا کھڑا ہوا۔ وہ سامنے والی دیوار پر نصب تصویر کو یوں گھور رہا تھا، جیسے تصویر میں موجود شخص سے آنکھیں چار کر رہا ہو۔ اس نے سگریٹ کا کش بھرا اور تصویر کی طرف دھواں اڑا کر بولا ’’اگر میں تمہاری جگہ ہوتا تو اسے کب کا مار چکا ہوتا۔۔ تم نے اتنا عرصہ صبر سے کیسے بسر کیا؟ تم اسے کیسے برداشت کرسکتی ہو؟‘‘

’’میں کیا کر سکتی تھی؟ میں ایک کمزور عورت ہوں، میں کیسے ایک مرد کو کچھ کہہ سکتی ہوں؟‘‘

’’پھر اس کی موت سے کس کو فائدہ ہوسکتا ہے؟‘‘

’’میں کیا جانوں۔۔ اس کے بہت سے دشمن تھے‘‘

’’حال ہی میں اس کا آنا جانا کن جگہوں پر تھا؟‘‘

’’میں نہیں جانتی۔۔ آخری دنوں میں اس سے کم ہی ملاقات ہو پاتی تھی۔ وہ دو تین راتیں باہر گزارتا تھا‘‘

سراغ رساں اس کے قریب آیا اور بغور اس کے چہرے کا جائزہ لیا ’’یہ تمہارے چہرے پر خراشیں کیسے پڑیں‘‘

’’اس نے مارا تھا‘‘

’’اسے مرے دو مہینے ہو چکے ہیں‘‘

’’عورت کا جسم مرد کے جسم سے مختلف ہوتا ہے۔۔ عورت کے زخم جلدی نہیں بھرتے‘‘

اس نے یوں ظاہر کیا، جیسے اس نے آخری جملہ سنا ہی نہیں۔ پھر اس نے اچانک نیا پینترا آزمایا ’’کیا ایک عورت ایسے مرد کو معاف کر سکتی ہے، جو اس پر ظلم ڈھاتا ہو؟‘‘

’’معاف تو شاید کر دے، مگر بھول نہیں سکتی‘‘

’’تم کیا کرو گی؟ تمہارے خاوند نے تمہارے ساتھ جو کیا ہے، کیا اس کے بعد بھی تم اسے معاف کر سکتی ہو؟‘‘

’’میں نے اسے معاف کیا ہے نہ بھول سکتی ہوں۔۔۔ مگر میں نے قتل نہیں کیا‘‘

عورت نے اپنی ناک کو دوبار رگڑا اور پھر ذرا ہچکچاتے ہوئے سوال کیا ’’کیا تم اپنی بیوی کو زدوکوب کرتے ہو؟‘‘

سراغ رساں نے ایک میز پر دھرے تھرماس سے سیاہ چائے انڈیلی اور پورے اطمینان سے گھونٹ بھر کر سپاٹ چہرہ لیے بولا ’’ان دنوں کون نہیں مارتا؟‘‘

’’اسے مارنے کے بعد تم اس کے پاس بیٹھتے ہو؟‘‘

’’نہیں! اس کے خراشوں بھرے چہرے کی طرف دیکھنا میرے لیے ممکن نہیں ہوتا‘‘

عورت نے سر ہلایا ’’کتنی عجیب بات ہے؟ باوجود اس کے کہ وہ خراشیں تمہاری وجہ سے پڑی ہیں۔۔۔ خیر تم اسے مارنے کے بعد پیار کرتے ہو‘‘

’’اگر ضرورت محسوس ہو تو‘‘

’’ضرورت یا طلب‘‘

’’طلب ہی ضرورت ہے‘‘

اس نے ڈبی سے ایک سگریٹ آدھا باہر نکالا اور عورت کی طرف بڑھایا مگر اس نے ہاتھ کے اشارے سے منع کر دیا۔ اس نے سگریٹ سلگائے بغیر منہ میں ڈالا اور پوچھا ’’کیا تم نے ایسی عورتوں کے بارے میں پڑھا ہے جو قتل، ڈاکے اور چوریاں کرتی ہیں۔ بعض تو جرائم پیشہ گروہ کی سربراہی بھی کرتی ہیں‘‘

’’نہیں۔۔ بلکہ میں تو ایک ایسی عورت کو جانتی ہوں، جس نے اس مرد کو قتل کر دیا، جس سے وہ بے حد محبت کرتی تھی‘‘

’’تو تم کس طرح کی عورت ہو؟‘‘

’’کسی بھی طرح کی نہیں۔۔ میں قاتل نہیں ہوں‘‘

اس نے دونوں ہاتھ پیچھے باندھے اور اس کی کرسی کے گرد چکر لگایا ’’تم نے نوکری کیوں چھوڑی‘‘

’’اس نے مجھے چھوڑنے پر مجبور کیا‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’تاکہ میں صرف اس کی ہو کر رہوں۔۔ اسی کی خدمت کروں‘‘

’’کیا تمہارا خاوند بہت مذہبی تھا‘‘

’’بالکل بھی نہیں۔۔ وہ شراب اور نشے کا عادی تھا‘‘

’’تم نے اپنے خاوند کو کیوں قتل کیا ہے؟‘‘ سراغ رساں نے ایک ہاتھ سے چائے کا کپ اٹھا کر گھونٹ بھرا اور دوسرے ہاتھ سے کچھ کاغذات پلٹے اور پھر دونوں ہاتھ اٹھا کر مایوسی بھرے لہجے میں بولا ’’اگرچہ سارے سراغ تمہیں ہی قاتل قرار دیتے ہیں مگر مجھے تمہیں چھوڑنا پڑے گا۔۔ میرے پاس تمہارے خلاف کوئی پختہ ثبوت نہیں ہے‘‘

وہ کھڑی ہوئی، اپنے کپڑے درست کیے اور پوچھا ’’تم مجھے دوبارہ بلاؤ گے؟‘‘

وہ ساکت ہو گیا اور کچھ نہ بول سکا۔۔ وہ باہر جانے ہی لگی تھی کہ اس نے اسے مخاطب کیا ’’کیا تم دوبارہ شادی کرو گی؟‘‘

’’کیا مرد، عورت کے بنا رہ سکتے ہیں؟‘‘

’’میرے خیال میں نہیں‘‘

’’تو میں بھی شادی کروں گی‘‘

وہ طنزیہ انداز میں مسکرایا

’’بہت سے مرد۔۔ ایک تو یہاں کا محافظ عبدالتواب ہی خواہاں ہے‘‘

سراغ رساں نے بُرا سا منہ بنایا اور گھنٹی کے بٹن سے دیر تک ہاتھ نہیں ہٹایا۔ اس نے بے یقینی سے پوچھا ’’عبدالتواب؟ تم نے اسے کیسے پھانس لیا؟‘‘

وہ متانت سے گویا ہوئی ’’میں ایک بیوہ ہوں۔ شروع شروع میں اسے مجھ سے ہمدردی تھی، اب میں اس کے لیے دل میں اچھے جذبات رکھتی ہوں‘‘

’’تم نے اپنے خاوند کو کیوں قتل کیا ہے؟‘‘

عبدالتواب اندر آ کر مودب انداز میں کھڑا ہوگیا۔ سراغ رساں درشت لہجے میں عورت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا ’’کیا تم اس عورت سے شادی کرنے لگے ہو؟‘‘

’’اگر آپ اجازت دیں تو ضرور کروں گا‘‘

’’کیا تمہیں علم ہے کہ اس کا خاوند قتل ہوا ہے؟‘‘

’’جی جناب! سب سے پہلے مجھے ہی پتا چلا تھا‘‘

’’اور اس عورت پر اس کے قتل کا الزام ہے‘‘

’’جب تک الزام ثابت نہ ہوجائے، ملزم بے گناہ ہوتا ہے‘‘

’’آپ ہی تو ہمیشہ کہتے ہیں کہ مردوں کو عورتوں سے ڈرنا نہیں چاہیے‘‘ سراغ رساں کی آواز میں مایوسی در آئی ’’تو کب ہو رہی ہے تمہاری شادی‘‘

’’اس کی عدت کے خاتمے کے بعد۔۔ دو مہینے اور دس دن بعد‘‘

سراغ رساں نے اسے جانے کی اجازت دے دی۔ وہ مڑی اور کمرے سے باہر نکل گئی۔ سراغ رساں بھی سب کچھ بھول بھال گیا۔ ٹھیک تین مہینے بعد وہ پھر اسی کرسی پر اسی سراغ رساں کے سامنے، اپنے چھوٹے بال، عمدہ لباس اور بے نقاب چہرے سمیت براجمان تھی۔ سراغ رساں نے سگریٹ کا کش لے کر دھواں ایک طرف چھوڑا اور سپید کاغذ پر لکھنا شروع کیا ’’تمکارے خاوند عبدالتواب کو کس نے قتل کیا ہے؟‘‘

’’مجھے نہیں پتا‘‘

’’وہ تمہارے گھر مردہ پایا گیا ہے‘‘ اس نے آواز میں غصہ دبانے کی کوشش کی

وہ بھی مضبوط آواز میں گویا ہوئی ’’میں نے اسے نہیں مارا‘‘

’’وہ تم سے کس طرح پیش آتا تھا؟‘‘

’’وہ ایک جیلر تھا‘‘

’’اور تم اس سے کیسے پیش آتی تھیں؟‘‘

’’اس کی خواہشات پوری کرنے کے لیے میں سخت محنت کر تی تھی‘‘

سراغ رساں نے خجالت بھرے انداز میں سر کھجایا، غصہ دبایا اور اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا ’’کتنی عجیب بات ہے کہ مجھے ایک بھی ثبوت ایسا نہیں ملا، جو تمہیں اس قتل سے جوڑ دے۔ تم بے گناہ ہو اور جا سکتی ہو‘‘

وہ کھڑی ہوئی۔ کپڑے درست کیے اور باہر جانے لگی۔ دروازے کے قریب سراغ رساں نے اسے روکا۔ وہ اس کی طرف مڑی۔ سراغ رساں سکون سے اس کے قریب جا کھڑا ہوا اور رسان سے بولا ’’سچ کہوں تو مجھے اس کیس میں تم بے قصور لگ رہی ہو۔ مجھے تم سے ہم دردی ہے۔ جلد ہی کہیں ملتے ہیں‘‘

اس کے پژمردہ چہرے پر ایک عجیب سی مسکراہٹ ابھری۔۔ ایسا چہرہ جس میں بہت سے چہرے چھپے تھے۔۔۔

(معروف ادیب محمد حسن الکواری کا تعلق قطر سے ہے۔ وہ جدید افسانے کے اہم لکھاریوں میں شامل ہیں۔ آج کل وہ وزارت ثقافت، فنون اور تاریخی ورثے میں بطور محقق منسلک ہیں۔ بطور محقق ان کا اہم ترین کام قطری ادیبوں کی ایک ڈائریکٹری کی ترتیب ہے۔ یہ کتاب 2012 میں شائع ہوئی اور اس میں 226 لکھاریوں کی تفصیل شامل کی گئی ہے۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close