ولیم شیکسپیئر کے شہر میں ایک خوبصورت دن

سید شبیر احمد

ادب شناس اور کتابوں سے دوستی رکھنے والوں سے تعلق ہونے کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ آپ جب بھی ان سے ملیں تو کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ دوسرا آپ بہت سی دوسری خرافات سے بچ جاتے ہیں۔ برطانیہ کے شہر ڈربی میں رہنے ولے اپنے کشمیری بھائی ادب و علم دوست اور کتابوں کے شیدائی قیصر ریاض سے تعلق کچھ عرصہ قبل ادب کے حوالے سے بنا جو جلد ہی دوستی میں ڈھل گیا۔ چند دن قبل راقم نے قیصر ریاض سے ان کے شہر ڈربی کی پرانی عمارتیں دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا

وہ پروگرام تو طے ہو گیا لیکن اس پروگرام سے پہلے انہوں نے سٹریٹ فورڈ میں واقع شیکسپیئر کا گھر دیکھنے کی دعوت دے ڈالی۔ ولیم شیکسپیئر سولہویں صدی میں پیدا ہونے والا برطانیہ کا بہت بڑا شاعر اور ڈرامہ نگار ہے جس کے بغیر انگریزی ادب مکمل نہیں ہوتا۔ شیکسپیئر کی جائے پیدائش ہمارے شہر سے ایک گھنٹہ کی مسافت پر واقع ہے جہاں جانے کے لیے پانچ جولائی کا پروگرام طے ہوا

پانچ جولائی کو قیصر اپنے ساتھ اکالگڑھ یونین کونسل کے سابق چیئرمین محمد حفیظ کو لے کر ڈربی سے گیارہ بجے برمنگھم پہنچے۔ مجھے میرے گھر سے اپنی خوبصورت لش پش کرتی مرسیڈیز کار میں بٹھایا اور ہم تینوں کا یہ قافلہ سٹریٹ فورڈ کے لئے روانہ ہو گیا۔ سفر کے دوران ان سے ادب اور کتابوں کے حوالہ بہت سی علمی باتوں کے علاوہ آزاد کشمیر میں اپنے آبائی علاقہ کے حوالہ سے کافی ساری باتیں ہوئیں۔ ہم ساڑھے بارہ بجے شیکسپیئر کے شہر میں اس کے گھر کے نزدیک پہنچ گئے

برطانیہ میں مناسب پارکنگ کا حصول ایک بہت ہی مشکل کام ہے لیکن خوش قسمتی سے ہمیں شیکسپیئر کے گھر کے نزدیک ہی ایک پارکنگ پلازہ میں گاڑی کھڑی کرنے کی جگہ مل گئی گو کہ اس کے لئے ہمیں ایک معقول رقم خرچ کرنا پڑی۔ برطانیہ میں گاڑی پارک کرنے کے لیے آپ کو گاڑی کھڑی کرنے کی فیس ادا کرنی پڑتی ہے۔ پارکنگ پلازہ سے سو میٹر دور گلی میں شیکسپیئر کی جائے پیدائش واقع تھی۔ ہینلے نام کی اس گلی میں بہت سی دکانیں ہیں جن میں کچھ ریستوران اور کچھ سوینیئر کی دکانیں ہیں۔ گلی کے درمیان میں شیکسپیئر کا گھر کا ہے۔ ولیم شیکسپیئر کے گھر کی سیر کی روداد بتانے سے پہلے میں آپ کو اس کا مختصر تعارف کروا دوں

”ولیم شیکسپیئر سولہویں صدی کے برطانوی ڈرامہ نگار، شاعر اور اداکار تھے۔ انہیں انگریزی زبان کا سب سے بڑا مصنف اور دنیا کا سب سے بڑا ڈرامہ نگار ہونے کے علاوہ برطانیہ کا قومی شاعر بھی مانا جاتا ہے۔ انگریزی زبان کا ادب ان کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ وہ اپریل 1564 میں جان شیکسپیئر کے گھر سٹریٹ فورڈ برطانیہ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد چمڑے کے دستانے بنانے کا کام کرتے تھے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم سٹراٹ فورڈ کے کنگز نیو اسکول میں پائی

اٹھارہ سال کی عمر میں اپنے سے آٹھ سال بڑی خاتون سے شادی کی جس سے ان کے تین بچے ہوئے۔ یہ بات کسی کو بھی قطعی طور پر معلوم نہیں کہ انہوں نے لکھنا کب شروع کیا لیکن ایک اندازے کے مطابق ان کے کئی ڈرامے 1594 تک لندن کے اسٹیج پر آ چکے تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی لندن اور اپنے آبائی شہر سٹریٹ فورڈ میں گزاری۔ ابتدائی عمر میں اس نے رومانی مزاحیہ اور تاریخی ڈرامے تحریر کیے۔ رومانی مزاحیہ ڈراموں میں قابل ذکر کامیڈی آف ایرر، مرچنٹ آف وینس اور تاریخی ڈراموں میں ہنری چھ، کنگ جون، رچرڈ دوم اور رچرڈ سوم شامل ہیں

وقت کے ساتھ ان کی تحریروں میں پختگی آتی گئی۔ انہوں اس دوران چودہ مصرعوں والی دو طویل نظمیں لکھیں۔ پختگی آنے کے بعد انہوں نے رومانوی ٹریجڈی ڈرامے لکھے جن میں جو لئیس سیزر، ہملٹ، رومیو اور جولیٹ، کنگ لایئر، اوتھیلو اور میکبیتھ شامل ہیں۔ ان کے ڈراموں کو انگریزی زبان میں کلاسیک کی حیثیت حاصل ہے جن کے دنیا بھر کی زبانوں میں تراجم ہوئے۔ انہوں نے اپنے لکھے ہوئے ڈرامے لندن کے تھیٹر میں سٹیج کیے اور ان میں اداکاری بھی کی

1592 کے بعد ان کے ڈرامے صرف لارڈ چیمبرلینز کمپنی کے زیر اہتمام پیش کیے گئے۔ اس کے بعد سولہویں صدی کے آخری سالوں میں طاعون پھیلنے کی وجہ سے تھیٹر میں کام بند رہا۔ لارڈ چیمبرلینز کمپنی ولیم شیکسپیئر کی شراکت داری میں بنی تھی جو جلد ہی لندن کی سب سے بڑی ڈرامہ کمپنی بن گئی۔ بعد میں کنگز مین کے نام سے یہ کمپنی رجسٹر ہوئی جس نے دریا ٹیمز کے کنارے اپنا ایک شاندار تھیٹر گلوب کے نام سے بنایا۔ کنگز مین کمپنی نے ولیم شیکسپیئر کو ایک امیر آدمی بنا دیا تھا۔ زندگی کے آخری تین سال ولیم نے بڑی خاموشی سے گزارے۔ اپریل 1613 ء میں باون سال کی جوان عمر میں ان کا انتقال ہوا۔ انہیں اپنے آبائی شہر سٹریٹ فورڈ کے مقدس ٹرنٹی چرچ میں دفن کیا گیا۔“

ہنین سٹریٹ میں واقع ولیم شیکسپیئر کے گھر کے ساتھ والے گھروں میں ایک میوزیم بنایا گیا ہے جہاں شیکسپیئر سے متعلقہ سب چیزیں رکھی گئی ہیں۔ برطانیہ میں تقریباً سبھی تاریخی عمارات میں داخلہ کے لئے ٹکٹ لینا پڑتا ہے۔ ٹکٹوں سے وصول ہونے والی رقم میں سے بیس فیصد حکومتی ٹیکس کاٹ کر باقی رقم اس یادگار یا عمارت کی دیکھ بھال پر خرچ کی جاتی ہے شاید اسی لئے یہاں تاریخی اور تفریحی عمارات بہت اچھی حالت میں پائی جاتی ہیں

شیکسپیئر کمپلیکس میں داخلہ کے لئے ایک فرد کے لئے بائیس پاؤنڈ کا ٹکٹ ہے۔ باوجود کوشش کے قیصر نے کوئی بھی رقم خرچنے سے سختی سے منع کر دیا تھا اور ہم سب کے لئے ٹکٹ پہلے سے خرید لئے تھے، ساتھ میں ایک راہنما کتابچہ بھی میرے لئے لیا ہوا تھا۔ جوں ہی ہم عمارت میں داخل ہوئے، سامنے کی دیوار پر ولیم شیکسپیئر کا ایک بڑا سا پورٹریٹ نصب تھا جس پر اس کے دستخط ثبت تھے۔ سامنے والی دیوار پر غالباً کانسی سے بنے چھتیس گول کتبے لگے تھے جن پر ترتیب سے شیکسپیئر کے لکھے ہوئے ڈراموں کے نام کنندہ ہیں

اس کے ساتھ والی دیوار پر ولیم شیکسپیئر کا مکمل شجرہ لکھا ہوا ہے۔ ایک شو کیس میں ان کے ڈرامے کے بادشاہ کے کردار کا مکمل لباس لٹکا ہوا ہے۔ ایک شو کیس میں ان کے استعمال میں رہنے والی دو کتابیں رکھی ہیں۔ ایک شوکیس میں شیکسپیئر کی چار سو سالہ سالگرہ کے موقع پر ڈنمارک حکومت کا تحفے میں دیا ہوا ان کے ڈراموں کے کردار کا مجسمہ رکھا ہے۔ ایک کمرے میں ان کے استعمال میں رہنے والی لکھنے کی میز اور لکھنے کا سامان بھی رکھا تھا

یہاں سے باہر نکل کر ہم شیکسپیئر کے آبائی گھر میں داخل ہوئے۔ یہ ایک دو منزلہ چھوٹا سا گھر ہے جس کی چھت، دیواریں اور فرنیچر سولہویں صدی کا ہی ہے۔ ڈرائینگ روم، ڈائننگ روم اور بیڈ روم اپنی اصلی حالت میں ہیں۔ میں نے وہاں کھڑی نگرانی اور سیاحوں کی راہنمائی پر مامور خوبصورت دوشیزہ سے شیکسپیئر کے بیڈروم کی بابت پوچھا تو اس نے اپنی کھنکتی ہوئی آواز میں بڑی شستہ انگریزی میں بتایا کہ سب کمروں میں رکھا ہوا فرنیچر تو سولہویں صدی کا ہے لیکن ان پر بیڈ شیٹ اور کپڑے نئے ہیں

کمروں کا لکڑی کا فرش بھی پرانا ہے لیکن دیواروں پر رنگ اور کاغذ بعد میں لگایا گیا ہے۔ ان کے استعمال میں رہنے والی دیگر اشیا بھی کمروں میں رکھی ہیں۔ ایک گھنٹہ اس گھر میں گزارنے کے بعد ہم وہاں سے باہر آئے تو سامنے ایک اور گھر میں ایک بڑی سی دکان تھی جس میں شیکسپیئر کے ڈراموں کی ساری کتابوں کے علاوہ مختلف قسم کی یادگاری نشانیاں سیاحوں کی خریداری کے لئے رکھی تھیں۔ کا ؤنٹر پر کھڑی بڑی مستعد دوشیزہ سب سیاحوں کو مسکرا کر خوش آمدید کہہ رہی تھی

پتہ نہیں ہمارے ہاں ایسی خوش اخلاقی کیوں نہیں آ سکتی۔ یہاں سے شیکسپیئر کے نام کی کیپ خریدی جسے پہن کر کمپلیکس کے باہر قیصر ریاض کے ساتھ یادگاری تصاویر بنوائیں۔ اسی گلی میں ایک صاحب برطانیہ کے بارہویں صدی کے بادشاہ رچرڈ اول کا روپ دھارے کھڑے تھے۔ ایسے بہت سے کرداروں میں افراد آپ کو برطانیہ اور یورپ میں ملیں گے جو ہو بہو اصل کرداروں کی طرح نظر آتے ہیں۔ قیصر نے اس کے ہیٹ میں پانچ پاؤنڈ ڈالے اور اس کے ساتھ تصویر بنوائی

ولیم شیکسپیئر کو اس کے گھر سے پانچ سو میٹر دور چرچ آف ہولی ٹرنٹی میں دفن کیا گیا تھا۔ وہاں جانے کے لئے ہم نے فون پر گوگل میں جگہ تلاش کی اور اس کی ہمراہی میں پندرہ منٹ پیدل چل کر چرچ تک پہنچ گئے۔ بڑے بڑے درختوں اور بڑے سے خوبصورت گھاس کے قطعوں پر مبنی قبرستان تھا۔ شیکسپیئر کی قبر چرچ کے اندر واقع تھی اور چرچ بند تھا اس لئے اس کی قبر پر نہ جا سکے اور ہم قبرستان میں گھوم کر واپس شیکسپیئر کمپلیکس میں آ گئے

یہاں سے واپسی کا قصد کیا۔ واپسی کے سفر میں بھی قیصر ریاض اور حفیظ صاحب سے سکول کالج کے زمانے کی باتوں کے علاوہ بہت سی علمی باتیں بھی ہوئیں۔ قیصر ریاض دوپہر کے لئے طعام کا بہت اچھا خاصا بندوبست کر کے ساتھ لائے تھے جس میں فروٹ چاٹ، سینڈوچ، پراٹھے، رس ملائی اور پاکستان سے درآمد شدہ سندھڑی آم شامل تھے۔ برطانیہ کی علمی و ادبی شخصیات قیصر ریاض اور محمد حفیظ کے ساتھ ولیم شیکسپیئر کی جنم بھومی میں گزارہ ہوا یہ خوبصورت دن اور طعام مدتوں یاد رہے گا۔

بشکریہ: ہم سب

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close