اسلام آباد : قومی احتساب بیورو (نیب) کے مطابق 2001ع سے 2021ع کے دوران لگ بھگ ساڑھے چار سو سرکاری ملازمین نے پلی بارگین کے ذریعے خردبرد کی گئی رقوم کو سرکاری خزانے میں واپس جمع کروایا ہے
حال ہی میں پاکستان کی قومی اسمبلی میں نیب کی جانب سے جمع کروائے گئے اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے کہ ان سرکاری ملازمین میں سے میں سب سے زیادہ تعداد صوبہ پنجاب میں تعینات تھی، جبکہ سب سے کم بلوچستان میں ذمہ داریاں انجام دے رہی تھی
رکن قومی اسمبلی محمد عالم گیر خان نے یہ سوال قومی اسمبلی کے سوال جواب سیشن کے دوران اٹھایا تھا جس پر نیب نے تحریری اعداد و شمار جمع کروائے
واضح رہے کہ نیب کے قانون کے مطابق بیورو کے چیئرمین احتساب عدالت کی اجازت سے بدعنوانی کے مقدمے کا سامنا کرنے والے ملزم سے خرد برد کی رقم وصول کرنے کا اختیار رکھتے ہیں اور ایسے انتظام کو پلی بارگین کہا جاتا ہے
اس حوالے سے نیب کے سابق سپیشل پراسیکیوٹر عمران شفیق نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ پلی بارگین کے لیے کرپشن ریفرنس کا سامنا کرنے والے ملزم کا گناہ کا اعتراف ضروری ہے، یعنی پلی بارگین کی صورت میں ملزم ’مجرم‘ بن جاتا ہے
انہوں نے مزید کہا ’فرق صرف اتنا ہے کہ پلی بارگین کی صورت میں مجرم سزا (قید) سے بچ جاتا ہے
ایک دوسری صورت میں نیب کی تحقیقات کے دوران کوئی شخص رضاکارانہ طور پر مبینہ طور پر لوٹی ہوئی رقم واپس کرنے کو رضامند ہو جاتا ہے، جسے رضاکارانہ ادائیگی (Voluntary Return) کہتے ہیں
اس فہرست میں شامل بعض سرکاری ملازمین نے احتساب عدالت میں ان کے خلاف ریفرنس دائر ہونے سے قبل بھی نیب کے ساتھ رضاکارانہ ادائیگی کے معاہدات کیے ہیں
اس ضمن میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ پلی بارگین کرنے والے سرکاری ملازمین وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے مختلف محکموں سے منسلک تھے، جن میں تقریباً ہر گریڈ، صوبے، کئی محکموں اور مختلف اداروں میں ذمہ داریاں انجام دینے والے افراد شامل تھے
حتیٰ کہ صوبہ سندھ کے ضلع سکھر میں تعینات تین نائب قاصدوں، چار چوکیداروں ، پرائمری اسکول کے اساتذہ، جونئیر کلرکس اور ڈیٹا آپریٹرز نے بھی قید کی سزا سے بچنے کے لیے نیب کو پلی بارگین کے تحت کرپشن کی رقوم لوٹائیں
ان میں سے ایک چوکیدار نے پچیس لاکھ روپے سے زیادہ، جبکہ ایک نائب قاصد نے تقریباً سترہ لاکھ روپے واپس کر کے سلاخوں کے پیچھے جانے سے جان بچائی
جبکہ پلی بارگین کا معاہدہ کرنے والے سرکاری ملازمین میں کم از کم آدھا درجن پٹواری بھی شامل ہیں، جنہوں نے کرپشن کے ذریعے حاصل کی ہوئی بڑی بڑی رقوم قومی خزانے میں جمع کروائیں
نیب کی دستاویز کے مطابق محمد زمان نامی ایک پٹواری نے 2007ع میں نیب کے ساتھ پلی بارگین کا معاہدہ کر کے پانچ کروڑ بارہ لاکھ روپے واپس کیے، جبکہ ملتان میں تعینات ایک پٹواری نے پلی بارگین کے تحت ایک کروڑ روپے سے زیادہ کی رقم ادا کی
کرپشن کی اس بہتی گنگا میں کئی اساتذہ نے بھی ہاتھ دھونے سے گریز نہیں کیا۔ ایک سرکاری پرائمری اسکول کے استاد نے نیب کو تئیس لاکھ روپے سے زیادہ واپس کیے، جبکہ گورنمنٹ گرلز ہائی اسکول شکارپور کی سابق ہیڈ مسٹریس کو بھی سلاخوں کے پیچھے جانے سے بچنے کے لیے کرپشن کے تقریباً چار لاکھ روپے پلی بارگین کے تحت واپس ادا کرنا پڑے
اسی طرح قومی اسمبلی سے حاصل کی گئی پلی بارگین کرنے والے سرکاری ملازمین کی فہرست میں کئی ہیڈ ماسٹروں، اساتذہ، اور دوسرے تعلیمی اداروں کے سربراہوں اور اہلکاروں کے نام بھی شامل ہیں
دوسرے محکموں کی طرح قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کئی اہلکاروں کے نام بھی اس فہرست میں شامل ہیں، جن میں پولیس، ایف آئی اے، کسٹمز وغیرہ شامل ہیں
نیب کے ساتھ پلی بارگین کرنے والوں میں بی پی ایس 17 سے اوپر کے افسران کی بھی ایک بڑی تعداد موجود ہے، جن میں سیکریٹری، ڈائریکٹرز اور جنرل منیجرز کی سطح پر ذمہ داریاں انجام دینے والے سرکاری ملازمین بھی شامل ہیں
صوبے بلوچستان میں پانچ صوبائی سیکریٹریز نے نیب کے ساتھ الگ الگ پلی بارگین معاہدات کیے، اور کرپشن کے ذریعے کمائے ہوئے اربوں روپے لوٹائے
رواں سال کے دوران نیب کرپشن ریفرنسز کا سامنا کرنے والے ایک درجن سے زیادہ سرکاری ملازمین کے ساتھ پلی بارگین کے معاہدے کر چکا ہے
دوسری جانب نیب کے ساتھ پلی بارگین کرنے والے سرکاری ملازمین میں سب سے اہم شخصیت پاکستان بحریہ سے تعلق رکھنے والے سابق ایڈمرل منصورالحق تھے، جنہوں نے 2002ع میں کرپشن کے تقریباً اڑتیس کروڑ روپے قومی خزانے میں جمع کروا کر سزا سے جان بچائی
ایڈمرل منصورالحق پر فرانس کے ساتھ آبدوزوں کی خریداری کے معاہدے میں رشوت وصول کرنے کا الزام تھا، جس کے باعث وہ 1997ع میں اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے تھے
فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر، جو اس وقت سی بی آر تھا) کے سابق چیئرمین اور وفاقی سیکریٹری اقبال فرید پر کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) میں مکان کی منتقلی پر فیس سے اجتناب، وراثتی دکانوں کی فروخت کے ویلتھ ٹیکس ریٹرن میں عدم انکشاف اور الاٹ شدہ رہائشی پلاٹ کی جگہ میں تبدیلی کے ذریعے ایک کروڑ روپے کی کرپشن کا الزام تھا
نیب کے مطابق اقبال فرید نے 2001ع میں پلی بارگین کے ذریعے نیب کو ایک کروڑ روپے واپس ادا کیے تھے
ملٹری انجنئیرنگ سروسز (ایم ای ایس) کے سابق ایگزیکٹیو انجنئیر عبدالمجید بروہی پر پنوں عاقل کنٹونمنٹ میں تعمیراتی کام میں آٹھ کروڑ روپے سے زیادہ کی خرد برد کا الزام تھا، جو انہوں نے نیشنل سیونگ سرٹیفیکیٹس کی شکل میں رکھے ہوئے تھے، انہوں نے 2004ع میں نیب کے ساتھ پلی بارگین کے تحت خرد برد کی گئی رقم دو قسطوں میں واپس کی
کراچی میں تعینات سابق کمشنر انکم ٹیکس سلطان احمد (بی پی ایس 20) نے ان کے خلاف کرپشن کی تحقیقات کے دوران لوٹی گئی رقم میں سے رضاکارانہ طور پر بیس لاکھ روپے سے زیادہ واپس ادا کیے
بلوچستان کے سیکریٹری تعلیم عبدالسلیم درانی نے 2001ع میں نیب کے ساتھ پلی بارگین کا معاہدہ کیا، اور کرپشن کے ذریعے کمائے ہوئے تقریباً دو کروڑ روپے قومی خزانے میں واپس جمع کروائے
سرکاری دستاویز کے مطابق خیبر پختونخوا میں تعینات جنرل منیجر پی ٹی سی ایل سعید وزیر نے احتساب عدالت میں کرپشن ریفرنس کا سامنا کرنے کے بعد 2000ع میں نیب کے ساتھ پلی بارگین کا معاہدہ کیا، اور دو کروڑ روپے واپس ادا کیے
اسلام آباد میں نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ (این آئی ایچ) میں بحیثیت ایگزیکٹیو ڈائریکٹر تعینات ڈاکٹر سید محسن علی نے 2005ع میں پلی بارگین معاہدے کے تحت ساڑھے چار کروڑ روپے ادا کیے
سابق ڈائیریکٹر فنانس ایرا اسلام آباد اکرام نوید، جو پی ایچ اے لاہور میں بھی ڈائریکٹر فنانس کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے چکے تھے نے 2018ع میں نیب کے ساتھ پلی بارگین کے ذریعے تقریباً چورانوے کروڑ روپے قومی خزانے میں واپس جمع کروائے
چیف سینٹرل ایکسائز شوکت علی بھٹی نے 2003ع میں پلی بارگین کے تحت چودہ کروڑ روپے سے زیادہ کی رقم واپس ادا کی
بلوچستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے سابق چیئرمین سعادت انور پلی بارگین معاہدے کے تحت چار کروڑ روپے سے زیادہ کی رقم واپس کر چکے ہیں
واضح رہے کہ نیب کے ساتھ پلی بارگین کرنے کی صورت میں مجرم آئندہ دس سال کے لیے کسی عوامی عہدے پر فائز نہیں ہو سکتا، جس میں سرکاری ملازمت بھی شامل ہے
نیب کے سابق سپیشل پراسیکیوٹر عمران شفیق کے مطابق پلی بارگین کا معاہدہ کرنے والے سرکاری ملازم کو اس کی ملازمت سے بغیر کسی مراعات کے
نکال (ٹرمینیٹ کر دیا) دیا جاتا ہے
حالیہ دنوں میں اپوزیشن کی جانب سے نیب پر بدعنوانی کے خاتمے میں ناکامی کے الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں۔ بیورو ان الزامات کی تردید کرتا ہے اور کہتا ہے اس نے اپنی کوششوں سے سرکاری خزانے میں اربوں روپے واپس جمع کروائے ہیں.