برداشت یا مساوات، سب انسانوں کا اکٹھے رہنا ممکن بھی ہے؟

حسنین جمال

 

بزرگوں کی تجربہ گاہ سے بندہ باہر نکلے تو یہ سیکھ سکتا ہے کہ مل کر اکٹھے رہنا سب انسانوں کے لیے ممکن نہیں ہے۔

ہندوستان تھا۔ صدیوں سب اکٹھے رہے پھر ایک دم الگ ہو گئے۔ سوچیں کیوں؟ بہت سے چھوٹے گروہوں کو دو قوموں کے اندر تقسیم کیا اور الگ الگ دو ریاستیں بن گئیں۔ مساوات کی نئے سرے سے کوشش ہونے لگی۔

پھر یہ ہوا کہ ایک اور گروہ نے سر نکالا، وہ بولے ہم کو تمہاری زبان نہیں چاہیے، ہم تمہاری قومیت کے جھنڈے میں بھی نہیں آتے، عقیدہ ایک ہوگا لیکن کلچر ہمارا تم سے ڈھیر الگ ہے، تو بنگلہ دیش بن گیا۔

اب کیا ہوا کہ اپنے یہاں پھر پختون، پنجابی، بلوچ، سرائیکی، پشتون، کیلاش، بلتستانی، کشمیری اور بے شمار مختلف جگہوں کے لوگ مل کر رہنے لگے۔ کہا جانے لگا کہ ہم ایک قوم ہیں، برابر ہیں۔

اس ’ایک قوم‘ میں غالب عقیدہ وہ تھا، جو ہمارا آپ کا تھا، باقی ہندو، مسیحی، احمدی اور سکھ رہ گئے تھوڑے بہت۔

ہم جو غالب تھے، ہمارے بیچ میں بھی شیعہ، سنی اور پھر ان کی مزید شاخیں آ گئیں۔ ایک نظر اڑتی اڑتی ڈالیں اور بتائیں کہ اکٹھے رہنے یا انکلوسیونیس کے نام پہ ہمارے ملک میں سب سے زیادہ زیادہ سہولیات ان سب میں سے کن لوگوں کو حاصل ہیں؟

جو آبادی میں زیادہ ہیں، جن کی اکثریت ہے اور جن کی عبادت گاہیں سب سے زیادہ نظر آتی ہیں۔

تو وہ جو باقی ہیں، وہ اس انکلوسیونیس (اکٹھے رہنے) کے جھنڈے تلے کیوں آنا چاہیں گے؟

انسان کسی شناخت، کسی حوالے، کسی نسبت سے اگر تعلق چھڑا سکے، پھر تو بات سمجھ میں آتی ہے کہ بھئی ہم کسی خاص گروہ سے نہیں، ہم جو ہیں، وہ تم میں سے ہی ہیں اور تم جو ہو، وہ ہمیں قبول کر لو۔

لیکن دو سوال یہاں بھی کھڑے ہو جاتے ہیں۔ عام آدمی کیسے کہہ سکتا ہے کہ میں جو ہوں، میں فلاں مذہب سے نہیں ہوں، میری زبان مخصوص نہیں ہے، میں تمہارا کلچر جانتا ہوں اور میں اپنی ساری شناختی علامتیں ہٹا کر تمہارے ساتھ مل کر کھڑا ہونا چاہتا ہوں، کوئی وجہ تو ہو۔۔۔ کہ نہیں؟ وہ کیوں اکٹھا ہو کے رہے گا؟

دوسرا سوال یہ ہے کہ متحد ہونے کے چکر میں کوئی اقلیت والا آ گیا فرض کیجے، تو کیا اکثریت والے اسے اپنے علاقے میں زندہ بھی رہنے دیں گے؟

ہمارا تو ہر کام سڑک پہ ہوتا ہے۔ جلسہ، جلوس، عید کی نماز، مجلس، جس دن بڑا اجتماع ہوگا، اس دن سڑک بند ہو جائے گی۔

عقیدہ دِلوں میں چھپا کے رکھنا مشکل ہوتا ہے، یہ تو بھئی جو ہے سو ہے۔ تو اب ایک معزز شہری علاقہ، جس کا اکثریتی مذہب وہ ہے، جو فرض کیجے ہمارا آپ والا ہے، تو ہم کیسے اجازت دیں گے کہ دوسرے مذہب یا عقیدے کا بندہ ہمارا علاقے سے اپنے جلوس گزارے؟

یہی مثال زبان کو سامنے رکھ کے سوچ لیں، یہی چیز کلچر والے کیس میں دیکھ لیں۔ ہر سال پنجاب یونیورسٹی میں پختون کلچر ڈے پہ ساری انتظامیہ الرٹ کیوں ہوتی ہے؟

شاید یہ ہو کہ موٹی موٹی بنیادی چیزوں کو سامنے رکھ کے ہم نے اکٹھے ہونے کی ساری کوششیں کر لیں پر ابھی تک ہو نہیں پائے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اکٹھا رہنا ان کا مسئلہ ہی نہ ہو، جو اکثریت میں ہوتے ہیں۔۔۔ کیوں کہ وہ قدرتی طور پہ جڑے ہوتے ہیں۔

سروائیول کا سوال، زندہ رہ جانے کا سوال، یہ ساری چیزیں تو ان کو دیکھنی ہوتی ہیں جو اقلیت میں ہوتے ہیں، جو تعداد میں کم ہوتے ہیں، جن کو مسئلوں کا سامنا ہوتا ہے۔

جو لوگ اکثریت جیسے بن کے رہیں، ان کے حلیے اور نام تک اپنا لیں، تو بھی انہیں کوئی یہ نہیں کہتا کہ ہاں، تم ہم میں سے ہو۔

تو پھر ہم کیوں نعرہ مارتے ہیں کہ اکٹھے ہو جاؤ، اتفاق میں برکت ہے، اتحاد کر لو وغیرہ وغیرہ؟ برکت تو صرف ان کا حصہ ہوتی ہے جو تعداد میں زیادہ ہوں، وہ جتنے زیادہ ہوں گے برکتیں اتنی زیادہ ہوں گی، ان گنت ہوں گی۔

اس نعرے سے مگر تعداد میں جو لوگ کم ہوتے ہیں، وہ غریب ہوتے ہیں پریشان۔۔ انہیں سمجھ نہیں آتی کہ ساتھ رہیں تب بھی مار کھائیں، الگ ہوں تب بھی جوتے پڑیں، جائے رفتن نہ پائے ماندن۔

آپ کے اسکول یا کالج میں کوئی اسپیشل بچہ کبھی پڑھا تھا؟ اگر ہاں تو کیا اس سے آپ نے کبھی دوستی کرنے کے لیے کوشش کی؟ نہیں کی ہوگی! (ہمدردی شاید ہو، وہ انسانی جذبہ ہے۔)

کیوں نہیں کی؟ چونکہ آپ اکثریت میں تھے، آپ کو پتہ ہی نہیں تھا کہ ان لوگوں کے ساتھ کیا مسئلہ ہے، نہ کبھی جاننا بھی چاہا آپ نے۔ دوسری طرف ان بے چاروں کا اخلاق سب سے اچھا ہوتا ہوگا، وہ پڑھائی میں بھی محنت کرتے ہوں گے بلکہ اگر تعداد میں ایک سے زیادہ کبھی ہوتے ہوں گے تو اکٹھے بیٹھ جاتے ہوں گے۔

یہ حال ساری اقلیتوں کا ہے۔ جس علاقے میں، جس ملک میں، جہاں مرضی دیکھ لیں۔۔ جو لوگ تعداد میں زیادہ ہوں گے، وہ بڑے سکون کی زندگی گزاریں گے۔ مسئلہ ان کا ہوگا جو تھوڑے ہیں۔

تھوڑے لوگوں کے لیے ’انکلوسیونیس‘ لالی پاپ ہے۔ یہ بہت وسیع اصطلاح ہے لیکن اس کے اندر والا سین پیاز کی طرح ہے۔ ایک چھلکا اتاریں تو یہ والا ’اگر‘ ۔۔۔ دوسرا چھلکا اتاریں تو وہ والا ’مگر‘ ۔۔۔ پرتیں اتارتے جائیں، اگر مگر لیکن چونکہ، چنانچہ، اس لیے، اُس لیے، فلاں تناظر میں ۔۔۔ یہ سب لفظ لگاتے جائیں، جو اقلیت ہے اس نے ہر جگہ پِسنا ہے۔

اس کا حل صرف ایک ہے۔ بچوں میں اتنا ظرف پیدا کریں کہ وہ دوسرے کی ہر چیز سمیت اسے برداشت کر سکیں۔

ہمیں یہ نہیں کہنا کہ سب انسان ایک جیسے ہیں یا سب لوگ برابر ہیں۔ ہمیں یہ سمجھانا ہے کہ انسان ایک دوسرے سے الگ ہو سکتے ہیں، کسی بھی حساب سے ۔۔۔ لیکن تمہیں، میرے بچے! ان کے ساتھ رہنا سیکھنا ہے اور انہیں وہی احترام دینا ہے جو اپنے خاندان والوں کو دیتے ہو۔

برابری کے جھنڈے مت دکھائیں، مل کے رہنا سکھائیں۔ اسکول والی کتابوں میں ایک کا ہیرو دوسرے کا ولن نہ ہو، اپنے کلچر کو اچھا اور دوسرے کو غلط نہ کہا گیا ہو۔ صرف ایک زبان کی فضیلتیں نہ ہوں اور وہ سب کچھ نہ ہو، جس کی پگڑی باندھ کے دوسروں کو ہم ساری عمر رولتے پھریں۔

آخر میں پھر وہی سوال ۔۔۔ زبان، کلچر، علاقائی شناخت اور ایسا سب کچھ اگر کوئی ہمارے لیے چھوڑ بھی دے تو کیا پھر بھی اسے ہم قبول کریں گے؟

ہمارا تو پہلا سوال یہ ہوتا ہے کہ ’پچھوں کتھے دے او؟‘ (بزرگ کہاں سے تھے؟)

بشکریہ: انڈپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close