کوئٹہ – بلوچستان یونیورسٹی سے دو طلبہ کی مبینہ جبری گمشدگی کے خلاف طلبہ تنظیموں نے احتجاجاً بلوچستان بھر کے تعلیمی ادارے بند کر دیے ہیں
دوسری جانب کوئٹہ پولیس نے دونوں لاپتہ طلبہ کی گمشدگی سے متعلق اخبارات میں اشتہار شائع کرایا ہے اور عوام سے طلبہ کی تلاش میں مدد کی اپیل کی ہے
واضح رہے کہ بلوچستان یونیورسٹی کے شعبہ مطالعہ پاکستان کے طالب علم فصیح بلوچ اور سہیل بلوچ یکم نومبر سے لاپتہ ہیں۔ بلوچستان یونیورسٹی کے تھانہ میں دونوں طلبہ کے اغوا کا مقدمہ درج کیا گیا ہے
بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (بی ایس او) اور دیگرطلبہ تنظیموں کی جانب سے طلبہ کی عدم بازیابی کے خلاف بلوچستان یونیورسٹی میں دھرنا دے کر احتجاج کیا جارہا ہے
بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے چیئرمین زبیر بلوچ کا کہنا ہے کہ بلوچستان یونیورسٹی کے اندر سترہ دنوں سے دھرنا جاری ہے۔ احتجاج کے باعث جامعہ کے اندر ہر قسم کی تدریسی سرگرمیاں معطل ہیں اور مختلف شعبوں کے امتحانات بھی ملتوی کر دیے گئے ہیں
زبیر بلوچ کے مطابق کوئٹہ کی تمام یونیورسٹیاں اور کالجز بھی تین دنوں سے احتجاجاً بند رکھے گئے ہیں. بدھ کو احتجاج کا دائرہ کار وسیع کرتے ہوئے ایک دن کے لیے صوبے کے تمام اعلیٰ تعلیمی ادارے بند رکھے گئے
انہوں نے کہا کہ ہم نے حکومت کو تین دن کی مہلت دی ہے۔ اگر اس دوران طلبہ بازیاب نہ ہوئے تو پیر سے صوبے کے تمام تعلیمی ادارے مکمل بند کردیے جائیں گے اور مڈل کے امتحانات بھی نہیں ہونے دیں گے
بی ایس او کے چیئرمین نے کہا کہ صوبائی وزیر سردار عبدالرحمان کھیتران کی سربراہی میں مذاکراتی کمیٹی اور آئی جی پولیس بلوچستان نے مذاکرات کیے۔ جس میں آئی جی پولیس نے حلفیہ کہا کہ لاپتہ طلبہ پولیس کی تحویل میں نہیں
زبیر بلوچ نے کہا کہ طلبہ تنظیموں کو حکومتی بیانات اور مؤقف پر یقین نہیں، کیونکہ اس سے قبل بھی کئی طلبہ کو جبری طور پر لاپتہ کرکے طویل عرصہ تک حراست میں رکھا گیا.