سندھ سلطنت: سندھو کی کہانی، اسی کی زبانی (قسط53)

شہزاد احمد حمید

سفر شروع کئے گھنٹہ بھر گزر چکا ہے۔ سورج اوپر اٹھ آیا ہے۔ آفتابی کرنوں میں سندھو کی سطح پر جیسے سفید موتیوں کی لہریں اتار دی ہیں۔ ہمارے سروں سے پرندوں کی بڑی ڈار اڑتی ہم سے ذرا دور سندھو کے سینے پر چمکتے پانیوں پہ اتر گئی ہے۔ چاچا گاماں بولا، ”سائیں! یہ مرغابی ہے۔“ ہم پہلی بار مرغابیوں کے اتنے بڑے غول کو قریب سے دیکھ رہے ہیں۔ مجھے یاد ہے بہت سال پہلے میں لالہ اعجاز مرحوم کے ساتھ دریائے جہلم پر مرغابی کے شکار پر گیا تھا۔ احمد، عمر، ان کے خالو ’خالو خلیل‘ اور خالہ زاد بھائی اوزیر بھی ساتھ تھے۔ صبح بھر کی خواری اور سردی جھیلنے کے بعد صرف دو ہی مرغابیاں ہمارے ہاتھ لگی تھیں۔ حضوربخش اور چاچا گاموں نے بندوقیں تھامی، بندوق میں نے بھی اٹھا لی ہے۔ کشتی کا رخ مرغابیوں کی جانب موڑا گیا ہے۔ جب تک میں بندوق کندھے سے لگاتا، شست لیتا، تین فائر ہوئے، مرغابیاں فضاء میں بلند ہوئیں لیکن چار مرغابیاں پانی کی سطح پر ہی رہ گئیں۔ میں نے اسی خوشی میں بندوق فضاء میں ہی داغ دی ہے۔ آخری سانس لیتی مرغابیوں پر چاچا کی چھری اللہ اکبر کی تکبیر کے ساتھ چلی اور حضور بخش کا نعرہ بلند ہوا، ”سائیں شام کے کھانے کا بندوبست ہو گیا۔۔ آپ کو ایسی مرغابی کھلاؤں گا کہ آپ انگلیاں چاٹتے رہ جائیں گے۔“

حضور بخش شکار ہوئی مرغابیوں کو کشتی میں بنے ہوئے پیتل کے بکس میں محفوظ کر چکا ہے۔ سمجھ لیں کشتی کے فریج میں۔ چاچا بولا، ”اب جو مرغابیاں اڑ گئی ہیں، ہم سے دور ہی رہیں گی۔ فائرز کی آواز نے انہیں چوکنا کر دیا ہے۔ ہماری کسی بھی چالاکی میں وہ آسانی سے نہیں آنے والی اب۔“
مرغابی کے شکار کو زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ ہمارے قریب ہی پرسکون پانی کی لہروں میں ہلچل سی محسوس ہوئی ہے۔ مشتاق بولا، ”لگتا ہے بلھن پھر سے درشن دے گی“

نین نے اپنا موبائل کیمرا تیار کر لیا ہے۔ ساتھ ہی ڈولفن کا جوڑا فضاء میں بلند ہوا، انہوں نے منہ سے آواز نکا لی، جیسے قہقہہ لگا یا ہو (کیسے ہو سندھو کے دوستو) اور ہمارے قریب ہی سندھو کے پانی میں اتر کر غائب ہو گئیں ہیں۔ کیا درشن تھا نین تو اپنے کیمرے میں اس نظارے کو محفوظ کر چکی ہے۔ ”واہ کیا تصویر ہے۔“ باس بولے، ”کمال تکا لگا ہے آپ کا۔“ وہ بولی، ”باس! تکا آپ بھی لگا سکتے تھے؟“ اس کی آواز کا تیکھا پن سب نے محسوس کیا ہے۔

ڈولفن کا جوڑا ہم سے ذرا دور پھر پانی سے نمودار ہوا، قہقہہ لگا کر ایک لمبی جست لگائی، پانی میں گرا اور چھینٹے کشتی پر اڑا گیا ہے۔ چاچا بولا، ”سائیں! بلھن کا جوڑا آپ مہمانوں کو خوش آمدید کہہ گیا ہے۔“ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میرے دوست سندھو نے بلھن کے جوڑے کو جیسے حکم دیا تھا کہ وہ پانی سے ابھرے اور میرے دوست اور اُس کے مہمانوں کا استقبال کرے۔ بہت شایان شان استقبال کیا ہے بلھن کے جوڑے نے سائیں۔ میں نے خاموش زبان میں سندھو کو شکریہ کہا۔

میں نے حضور بخش سے پوچھا، ”سندھو کی ڈولفن میں اور گنگا کی ڈولفن میں کیا کوئی فرق ہے؟“ اس نے جواب دیا، ”سائیں! اس کا بہتر پتہ تو نذیر میرانی ہی دے سکتا ہے۔ انہون نے ڈولفن پر بڑا کام کیا ہے۔ اگلے پڑاؤ پر شاید اس سے ملاقات ہو سکے۔“ اس سے پہلے کہ وہ آگے کچھ کہتا مجھے داستان گو کی آواز سنائی دی، ”میری جان! کوئی کیا بتائے گا جو میں بتا سکتا ہوں۔ سنو، کچھ عرصہ پہلے ایک تحقیق کی گئی تھی، جس کی رپورٹ ابھی شائع ہوئی ہے۔ اس تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر جل براؤننگ تھے۔ ان کا تعلق university of saint andrew سے ہے۔ اس ٹیم میں کئی ممالک کے مرین لائف ماہرین شامل تھے۔ یہ رپورٹ 20 سالہ تحقیق کے بعد شائع کی گئی ہے اور اس میں یہ انکشاف ہوا کہ خطرے سے دو چار سندھو اور گنگا کی ڈولفن ایک نہیں بلکہ دو مختلف نسلوں سے تعلق رکھتی ہیں۔ اس تحقیق سے پہلے یہ خیال تھا کہ دونوں دریاؤں میں پائی جانے والی ڈولفن ایک ہی نسل سے ہے۔۔

”عالمی سائنسی جریدے مرین مئمل سائنس کی جانب سے جاری کردہ 2 دہائیوں کی تحقیق پر مشتمل رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ پاکستان کے دریائے سندھ اور بھارتی دریاؤں گنگا اور برہم پتر میں پائی جانے والی ڈولفن کی درجہ بندی کرنا ضروری ہے۔ جنوبی ایشیاء میں ڈولفن کی نسل کو کئی خطرات اور چیلنجز کا سامنا ہے۔ ان دریاؤں میں پائی جانے والی ڈولفن الگ الگ نسل ہیں۔تحقیق میں دونوں دریاؤں کی ڈولفن کی کھوپڑی اور دانتوں کی پیمائش کی گئی اور یہ رنگ سمیت دیگر جنیاتی فرق رکھتی ہیں۔ڈاکٹر جل کا کہنا ہے دونوں نسلوں کو بچانے کے لئے انتہائی اقدام کرنے لازمی ہیں۔

”مجھے خوشی ہے کہ ہماری تحقیق اور متعلقہ حکام کی کی بروقت کاروائی سے پچھلے چند برسوں میں ڈولفن کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ خوش کن ہے لیکن ابھی بھی ہمیں بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ اس رپورٹ کے بعد انڈس ڈولفن کی نسل کو بچانے اور دوستانہ ماحول مہیا کرنے میں مدد ملے گی۔ہاں! جہاں تک نذیر میرانی کا تعلق ہے، اس کا خاندان تین نسلوں سے میری ڈولفن کی رکھوالی اور تحفظ میں لگا ہے۔ اس کا والد یہی کام کرتا تھا اب نذیر بھی اور اپنے بیٹے کو بھی وہ یہی تربیت دے رہا ہے۔ نذیر اب تک تقریباً ایک سو پچاس (150) ڈولفن کو ریسکیو کر چکا ہے۔ ڈولفن خوراک اور پانی کی کمی کی وجہ سے قریبی نہروں میں چلی جاتی ہیں اور نذیر کی ریسیکو کی گئی ڈولفن بھی نہروں میں ہی چلی گئی تھیں، اگر ان کو دوبارہ میرے پانی میں نہ لایا جاتا تو یہ مر جاتیں۔ میرانی ماہی گیر قبیلہ ہے جس کا گزر مچھلی کے شکار پر ہے مگر نذیر کے والد نے اپنے آبائی پیشہ چھوڑ کر ڈولفن کے تحفظ کا شوق اپنایا اور اب اس کا بیٹا اور پوتا بھی اُسی کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔“

میں نے سندھو سے پوچھا، ”یار! تمہاری ڈولفن کو اندھا کیوں کہا جاتا ہے؟“ اس نے جواب دیا، ”سمندری ڈولفن کے برعکس میری ڈولفن کی آنکھیں صاف تصویر دیکھنے کے قابل نہیں ہوتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ڈولفن لاکھوں سالوں سے میرے گدلے پانی میں رہتی چلی آئی ہے، جہاں ویسے بھی صاف نظر نہیں آتا۔ طویل عرسے سے استعمال نہ ہونے کے باعث ارتقائی عمل کے تحت اس کی بنیائی ہی ختم ہو گئی ہے البتہ آنکھوں کی شکل برقرار ہے۔“

دن کی کم ہوتی روشنی اترتی شام کا پیغام ہے۔ بھوک بھی لگی ہے۔ ہمارے سامنے خشک زمین ابھرنے لگی ہے۔ رات یہیں قیام ہوگا۔ کشتی لنگر ڈال چکی ہے۔ چاچا گاموں اور مشتاق حسب معمول لکڑیاں جمع کرنے میں مصروف ہیں۔ رات کا کھانا مٹر چاول مچھلی اور روسٹ مرغابی۔درمیانے سائز کی چند مچھلیاں تھوڑی دیر ہی پہلے پیر بخش کے جال میں پھنسی ہیں۔ وہ ان کو صاف کرکے مصالحہ لگانے لگا ہے اور ہم کیمپ گاڑنے میں۔۔

کوہ سلیمان پر سورج کی ڈوبتی کرنیں جیسے رقص کر رہی ہیں۔ روشنی ہر لمحہ کم ہوتی جا رہی ہے۔ کچھ ہی دیر میں نارنجی رنگ کی پہاڑی چوٹیاں اندھیرے میں ڈوب جائیں گی۔ سندھو کا چمکتا پانی بھی اسی سیاہ اندھیرے میں گم جائے گا۔ گہری ہوتی خاموشی میں سندھو کا شور کچھ زیادہ محسوس ہو رہا ہے۔

پھیلتی رات کے ساتھ خنکی بڑھ رہی ہے۔ لکڑیوں کا الاؤ خنک رات میں راحت بخش ہے اور جنگلی جانوروں کو دور رکھنے کا آزمودہ نسخہ ہے۔ کھانے کی بھینی بھینی خوشبو نے بھوک اور چمکا دی ہے۔ زمینی فرش پر دستر خوان سجا ہے۔ واہ مٹر چاول، مچھلی اور بھنی ہوئی مرغابی۔ لگتا ہے کہ حضور بخش نے کھانا بنانے کی ساری مہارت اور ذائقہ ان پکوانوں میں اتار دیا ہے۔ لذیذ کھانا منٹوں میں ہی چٹ ہو گیا ہے۔ سبھی نے کھانے کی خوب تعریف کی مگر نین کی تعریف قابل ذکر ہے کہ وہ خود بھی بہت اچھا کھانا بناتی ہے، کشمیرن جو ٹھہری۔۔ چائے کا دور ختم ہوا تو ایک ایک کرکے سبھی سونے کی تیاری میں ہیں۔ واہ! آج چودھویں کا چاند ہے۔ (جاری ہے)

نوٹ: یہ کتاب ’بُک ہوم‘ نے شائع کی ہے، جسے ادارے اور مصنف کے شکریے کے ساتھ سنگت میگ میں قسط وار شائع کیا جا رہا ہے. سنگت میگ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close