سپریم کورٹ: آدھے کراچی پر قبضے، سندھ بھر میں سرکاری زمینوں سے قبضہ ختم کرانے کا حکم

نیوز ڈیسک

کراچی – سپریم کورٹ نے سرکاری زمینوں کے ریکارڈ کی کمپیوٹرائزیشن سے متعلق کیس میں سندھ بھر میں سرکاری زمینوں سے قبضہ ختم کرانے کا حکم دے دیا

چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں صوبائی دارالحکومت کراچی میں تجاوزات اور قبضے سے متعلق مختلف مقدمات کی سماعت کی

دوران سماعت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس گلزار احمد نے بورڈ آف ریونیو کے سینئر افسر سے استفسار کیا کہ کتنی سرکاری زمین واگزار کرائی؟ سینئر عہدیدار کی جانب سے تسلی بخش جواب نہ ملنے پر عدالت نے افسر کی سرزنش کی اور ریمارکس دیے کہ ہمارے ساتھ کھیل مت کھیلیں، آدھے سے زیادہ سندھ کی سرکاری زمینیں قبضے میں وہ نظر نہیں آتی؟ کونے کونے کی تصویریں لگا کر ہمیں بیوقوف بنانے کی کوشش کرتے ہیں؟

انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ کمیٹی کی کہانیاں ہمیں مت سنائیں، قبضہ ختم کرائیں، اینٹی انکروچمنٹ عدالتیں بھی کچھ نہیں کر رہیں، سکھر جیسے شہر میں ایک کیس ہے

دوران سماعت ریونیو کے سینئر افسر نے کہا کہ ہم رکارڈ کمپیوٹرائزڈ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں

اس دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ پورا حیدر آباد انکروچڈ ہے، حیدرآباد، لاڑکانہ، سکھر اور بے نظیر آباد میں کوئی کیس نہیں ہے، جبکہ پورے کراچی پر قبضے کے صرف نو کیسز ہیں

چیف جسٹس نے اکاؤنٹ جنرل کو مخاطب کرکے کہا کہ یہ افسران کیا کر رہے ہیں، صرف اپنے مفادات کا تحفظ کررے ہیں، کس کی خدمت کررہے ہیں یہ لوگ؟ کہیں اور جاتے ہیں تو فوری عمل درآمد ہوتا ہے

چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ یہ افسران قبضہ کراتے اور بھتہ لیتے ہیں، جو فیلڈ میں کام کرنے والے ہوتے ہیں وہ الگ ہوتے ہیں، سینئر ممبر کا تمغہ لگا لیا، لیکن سینئر رکن والا کام بھی کرنا ہے یا نہیں؟

دوران سماعت جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیے کہ ہم کسی کے ذاتی نہیں بلکہ ریاست کے ملازم ہیں، آپ شکایت کیوں نہیں بھیجتے؟ کیا مفادات ہیں آپ کے؟

جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیے کہ کیا آپ مافیا کے ساتھ ملے ہوئے ہیں؟ ان کا تحفظ کر رہے ہیں؟ آدھا کراچی قبضہ ہوا ہے، ملیر، گلستان جوہر، یونیورسٹی روڈ سب دیکھ لیں

چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ یہ جو پندرہ اور بیس منزلہ عمارتیں بن گئیں، کیا یہ قانونی ہیں؟ آپ کو نہیں نظر آتا کہ سب غیر قانونی ہیں اور ریونیو کی ملی بھگت سے بنی ہیں سب جعلی کاغذات پر بنائی، ملیر ندی اور کورنگی برج کے پاس دیکھیں

 

جس پر ریونیو افسر نے کہا کہ کورنگی میں کارروائی شروع کر رہے ہیں

چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ ’اب تو آپ کے لیے وہاں کے ریٹ بڑھ گئے ہوں گے، اب تو کہیں گے سپریم کورٹ کا حکم ہے، گرانے کا زیادہ ریٹ ہوں گے۔’

جسٹس قاضی محمد امین نے ریمارکس دیے کہ ’سینئر عہدیدار کا کنڈکٹ قابل افسوس، ہے اے جی صاحب، جب یہ عدالتی حکم پر عمل نہیں کر رہا تو یہ کیا کرے گا؟’

چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ جائیں جو نام نہاد موٹر وے بنایا ہے وہاں سب قبضہ ہے، بحریہ ٹاؤن کے پیچھے اور اطراف میں زمینوں پر کیا ہو رہا نظر نہیں آتا؟

سپریم کورٹ نے سرکاری زمینوں سے قبضہ ختم کرنے سے متعلق سینئر ممبر کی رپورٹ مسترد کرتے ہوئے ریونیو افسر کو عدالتی حکم پر مکمل عمل درآمد کرانے، سندھ بھر میں سرکاری زمینوں سے قبضہ ختم کرانے اور ایک ماہ میں جامع رپورٹ پیش کرنے کا حکم دے دیا.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close