سپریم کورٹ نےپاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما اور سندھ اسمبلی کے اسپیکر آغا سراج درانی کو قومی احتساب بیورو (نیب) کے کو گرفتاری دینے حکم دے دیا.
جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل عدالت عظمیٰ کے 3 رکنی بینچ نے آغا سراج درانی کی ضمانت سے متعلق درخواست کی سماعت کی.
جسٹس عمر عطا بندیال نے آغا سراج درانی کے وکیل کی جانب سے ٹرائل کورٹ کے سامنے سرنیڈر کرنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ٹرائل کورٹ کے سامنے سرینڈر کرنے کا حکم نہیں دے سکتے.
ان کا مزید کہنا تھا کہ آغا سراج درانی نیب کے سامنے سرینڈر کریں گے تو درخواستِ ضمانت ٹیک اپ کر لیں گے۔
اس پر وکیل نے کہا کہ ان کے مؤکل نے عدالت کے سامنے سرینڈر کر دیا ہے، ٹرائل کورٹ کے سامنے سرینڈر کرنے کی اجازت دے دیں۔ جس پر جسٹس سجاد علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ اس طرح کے سرینڈر کو عدالت تسلیم نہیں کرتی۔
خیال رہے کہ 25 نومبر کو کراچی کی احتساب عدالت نے اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی اور دیگر 10 ملزمان کے وارنٹ گرفتاری دوبارہ جاری کیے تھے۔
ملزمان 13 اکتوبر کو سندھ ہائی کورٹ سے عبوری ضمانت کی درخواست مسترد ہونے کے بعد سے مبینہ طور پر مفرور تھے.
احتساب عدالت میں آمدن سے زائد اثاثوں اور بدعنوانی کے ریفرنس کی سماعت میں ضمانت پر موجود 3 ملزمان پیش ہوئے تھے لیکن آغا سراج سمیت دیگر 10 ملزمان پیش نہیں ہوئے تھے.
آغا سراج درانی پر الزامات
خیال رہے کہ نیب نے آغا سراج درانی، ان کی اہلیہ، بچوں، بھائی اور دیگر پر مبینہ طور پر غیر قانونی طریقوں سے بنائے گئے ایک ارب 61 کروڑ روپے کے اثاثے رکھنے کا الزام عائد کیا تھا.
اسپیکر سندھ اسمبلی کو قومی احتساب بیورو (نیب) نے مبینہ طور پر معلوم آمدن سے زائد منقولہ اور غیر منقولہ اثاثے بنانے کی تحقیقات کے سلسلے میں فروری 2019 میں اسلام آباد کی ایک ہوٹل سے گرفتار بھی کیا تھا۔
بعدازاں 21 فروری کو انہیں کراچی کی احتساب عدالت میں پیش کیا گیا تھا جہاں عدالت نے ان کا ریمانڈ منظور کیا اور اس میں کئی مرتبہ توسیع ہوئی.