برلن / چلی / سان تیاگو / ٹیکساس – ماہرینِ فلکیات کی ایک عالمی ٹیم نے زمین سے 31 نوری سال دوری پر ایک ایسا سیارہ دریافت کیا ہے، جس کا بیشتر حصہ لوہے سے بنا ہے جبکہ وہ اتنا گرم ہے کہ وہاں لوہا بھی پگھلنے لگے
اس نئے دریافت ہونے والے سیارے کا نام ’’جی جے 367 بی‘‘ (GJ 367b) ہے اور یہ جنوبی آسمان کے ’’ویلا‘‘ نامی جھرمٹ میں ایک ستارے (جی جے 367) سے بہت قریب رہتے ہوئے اس کے گرد چکر لگا رہا ہے
اس دریافت کی تفصیل ریسرچ جرنل ’’سائنس‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہوئی ہے
فلکیاتی مشاہدات سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ مذکورہ سیارے کے جس حصے کا رُخ اس کے مرکزی ستارے کی طرف ہوتا ہے، وہاں پر سطح کا درجہ حرارت تقریباً پندرہ سو ڈگری سینٹی گریڈ ہوجاتا ہے، جس کی وجہ سے وہاں موجود لوہا بھی شاید پگھلی ہوئی حالت میں ہو۔ واضح رہے کہ زمینی ماحول میں لوہا 1538 ڈگری سینٹی گریڈ پر پگھل جاتا ہے
ماہرین کو اس سیارے کے اوّلین شواہد ’’ٹرانزٹنگ ایگزوپلینٹ سروے سٹیلائٹ‘‘ (ٹی ای ایس ایس) سے حاصل شدہ ڈیٹا کے تجزیے میں ملے۔ ٹی ای ایس ایس، ناسا کا بنایا ہوا سیارچہ ہے جسے بطورِ خاص دوسرے ستاروں کے گرد سیارے ڈھونڈنے کے لیے خلاء میں بھیجا گیا ہے
ابتدائی شواہد کے بعد طاقتور زمینی دوربینوں کی مدد سے بھی اس سیارے کے مقام، اپنے مرکزی ستارے سے اس کی قربت، اس کی کیمیائی ترکیب اور درجۂ حرارت وغیرہ جیسی دوسری خصوصیات کے بارے میں مزید معلومات جمع کی گئیں اور ان کی اطمینان بخش حد تک تصدیق کی گئی
اسی دوران یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ مذکورہ سیارے میں دیگر عناصر کے مقابلے میں لوہے (آئرن) کی مقدار بہت زیادہ ہے۔ یعنی ہم اسے ’’لوہے کا سیارہ‘‘ بھی قرار دے سکتے ہیں
اس تفصیلی تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ ’’جی جے 367 بی‘‘ اپنے مرکزی ستارے سے بہت قریب ہے اور یہ صرف سات گھنٹے چالیس منٹ میں اس کے گرد ایک پورا چکر لگا لیتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں اس سیارے کا ’’ایک سال‘‘ صرف سات گھنٹے چالیس منٹ میں مکمل ہوجاتا ہے
سائنسدانوں نے یہ بھی اندازہ لگایا ہے کہ ’’جی جے 367 بی‘‘ کی جسامت ہماری زمین کے مقابلے میں لگ بھگ پچیس فیصد کم ہے، جبکہ کمیت کے اعتبار سے یہ ہماری زمین سے پینتالیس فیصد کم ہے
ان معلومات کی بنیاد پر سائنسدانوں نے تخمینہ لگایا ہے کہ اس سیارے کی کثافت (مادّے کا گاڑھا پن) 8 گرام فی مکعب سینٹی میٹر ہے۔ سیارہ زمین کی کثافت (5.5 گرام فی مکعب سینٹی میٹر) کے مقابلے میں یہ تقریباً 46 فیصد زیادہ ہے
اتنے زیادہ لوہے کے ساتھ یہ سیارہ کس طرح وجود میں آیا ہوگا؟ اس سوال کے جواب میں فی الحال سائنسدانوں کے پاس صرف مفروضات ہیں، جن سے پتا چلتا ہے کہ پتھریلے سیاروں کی تباہی سے ان کے درمیان میں لوہے کا مرکز آزاد ہوسکتا ہے، جو بعد میں کسی اور پتھریلے سیارے سے ٹکرا کر اس میں لوہے کی مقدار بڑھانے کی وجہ بن سکتا ہے۔ البتہ، یہ بات ابھی صرف ایک مفروضہ ہے جس کے صحیح یا غلط ہونے کے بارے میں فی الحال کوئی ٹھوس شہادت موجود نہیں ہیں.