جاسوسی کا الزام، فوجی عدالت نے شہری ادریس خٹک، تین سابق فوجی افسروں کو قیدکی سزا سنا دی

نیوز ڈیسک

اسلام آباد : فوجی عدالت نے شہری ادریس خٹک اور تین ریٹائرڈ فوجی افسروں کو جاسوسی کے الزام میں دس سے چودہ برس قید بامشقت کی سزا سنائی ہے

ذرائع کے مطابق چاروں افراد کے خلاف جاسوسی  کے الزامات پر آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کارروائی کی گئی۔ ادریس خٹک کو 14 برس، لیفٹیننٹ کرنل (ر) فیض رسول کو 14 برس، لیفٹیننٹ کرنل (ر) اکمل کو 10 برس اور میجر (ر) سیف اللہ بابر کو 12 برس قید سخت کی سزا سنائی گئی ہے

ذرائع کے مطابق ادریس خٹک کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی جہلم میں کی گئی، جبکہ سابق فوجی افسروں کے خلاف مقدمہ راولپنڈی میں چلایا گیا۔ ادریس خٹک پر بڑا الزام پاکستان میں امریکی ڈرون حملوں کے لئے گراؤنڈ انٹیلی جنس فراہم کرنا ہے

ادریس خٹک کے بھائی اویس خٹک نے بتایا کہ انہیں جمعہ کو فون کال کرکے بتایا گیا کہ ان کے بھائی کو ڈسٹرکٹ جیل جہلم منتقل کر دیا گیا ہے

اس سوال پر کہ کیا کسی سویلین کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا جا سکتا ہے، ذرائع نے بتایا کہ مخصوص حالات میں سویلین کے خلاف فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی کارروائی ہو سکتی ہے

کورٹ مارشل کا دفاع کرتے ہوئے ذرائع کا کہنا تھا کہ جاسوسی کا ملزم چاہے عسکری ادارے سے ہو یا پھر کوئی سویلین، فیلڈ جنرل کورٹ مارشل اس کے مقدے کی سماعت کرسکتا ہے

سیکیورٹی ذرائع نے بتایا کہ ’فیلڈ جنرل کورٹ مارشل میں ادریس خٹک پر جاسوسی اور حساس معلومات لیک کرنے کا الزام ثابت ہوا جس بنا پر انہیں 14 سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی‘۔ یہ فیصلہ رواں ہفتے جہلم میں مقدمے کی سماعت مکمل ہونے پر سنایا گیا

سزا پر عمل درآمد کے لیے ادریس خٹک کو جہلم ڈسٹرکٹ جیل منتقل کردیا گیا ہے

ذرائع کے مطابق ادریس خٹک پر پاکستان آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکریٹس ایکٹ 1923ء کے تحت مقدمہ چلایا گیا۔ ان پر غیرملکی جاسوسی اداروں کو حساس معلومات فراہم کرنے کا الزام تھا

ذرائع کے مطابق ادریس خٹک ایپلیٹ ٹریبونل کے سامنے اپیل کرسکتے ہیں اور اس کے بعد ان کے پاس آرمی چیف سے بھی اپیل کرنے کا موقع ہوگا

واضح رہے کہ ادریس خٹک ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ساتھ وابستہ رہے اور وہ سابقہ قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے حوالے سے تحقیقات کرچکے ہیں

حساس اداروں نے انہیں 13 نومبر 2019 کو اسلام آباد سے پشاور جاتے ہوئے صوابی انٹرچینج کے قریب گرفتار کیا تھا

ان کے خاندان کی جانب سے چھ ماہ طویل عوامی مہم اور پشاور ہائی کورٹ میں ان کی برآمدگی کی درخواست دائر کرنے کے بعد 16 جون 2020 کو وزارت دفاع نے یہ تسلیم کیا کہ وہ فوج کی حراست میں ہیں اور ان پر آفیشل سیکریٹس ایکٹ کے تحت مقدمہ کیا گیا ہے

بعد ازاں ادریس خٹک کے بھائی نے پشاور ہائی کورٹ میں فوجی عدالت کی جانب سے ان کے مقدمے کی سماعت روکنے کی درخواست دائر کی تاہم 28 جنوری 2021 کو ہائی کورٹ نے یہ اپیل مسترد کردی

دریں اثنا راولپنڈی میں بھی فیلڈ جنرل کورٹ مارشل نے تین ریٹائرڈ فوجی افسران کو جاسوسی اور حساس معلومات لیک کرنے کے الزام میں قید بامشقت کی سزائیں سنائیں

ذرائع کے مطابق لیفٹننٹ کرنل ریٹائرڈ فیض رسول کو 14 سال قید بامشقت، لیفٹننٹ کرنل ریٹائرڈ اکمل کو 10 سال قید بامشقت اور میجر ریٹائرڈ سیف الدین کو 12 سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی۔ ذرائع کے مطابق ان جرائم کے ارتکاب کے وقت یہ تینوں افراد ریٹائر ہوچکے تھے

ادریس خٹک کی سزا پر ردعمل دیتے ہوئے ایمنسٹی انٹرنیشل کے ڈپٹی ساؤتھ ایشیا ڈائریکٹر تیاگی روام پاتھیرانا نے کہا کہ پاکستانی حکام کی جانب سے ادریس خٹک پر عائد الزامات اور مقدمے کے حوالے سے ان کے وکیل اور گھر والوں کو اندھیرے میں رکھا گیا۔ یہ نہ صرف ان کے منصفانہ ٹرائل کے حق کی خلاف ورزی تھی بلکہ اس طرح ان کے لیے اپنی قانونی حکمت عملی ترتیب دینا بھی ناممکن بنادیا گیا

انہوں نے کہا کہ اگر اس سزا کی تصدیق ہوگئی تو یہ 2 سال سے جاری ناانصافی کے عمل کی شرم ناک انتہا ہوگی

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق ادریس خٹک کے خلاف مقدمے کے حوالے سے بہت ہی محدود معلومات جاری کی گئی ہیں۔ ادریس خٹک کے وکیل کے مطابق مقدمے کی کارروائی میں ’سنگین خامیاں‘ موجود تھیں

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پاکستانی حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ادریس خٹک کے گھر والوں کو مقدمے کی تفصیلات سے آگاہ کریں، ادریس خٹک کو وکیل تک رسائی فراہم کریں اور انہیں سول عدالت کے سامنے پیش کریں تاکہ ان کی گرفتاری اور حراست کے قانونی ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں فیصلہ کیا جاسکے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close