محبت کا جوگ

مجنوں گورکھپوری

کہانی کی کہانی

’’ایک ایسے شخص کی کہانی ہے، جسے ایک روز دریا پر گھومتے وقت ایک بیحد خوبصورت لڑکی دکھائی دیتی ہے۔ دوبارہ جب وہ اس لڑکی کی تلاش میں جاتا ہے تو وہ اسے کہیں نہیں ملتی۔ اس لڑکی کا اس پر ایسا نشہ ہوتا ہے کہ وہ شب و روز اسی کے خیالوں میں کھویا رہتا ہے۔ کچھ دنوں بعد دریا کے اسی کنارے پر اسے ایک سادھو ملتا ہے۔ سادھو اسے اس لڑکی سے ملنے کی ایسی ترکیب بتاتا ہے کہ جس کے پورا ہوتے ہی اس کی زندگی بدل جاتی ہے۔‘‘

میں کوئی ادیب نہیں ہوں، نہ میری علمی استعداد بہت زیادہ ہے اور نہ میں کسی خاص طرز انشا کا مالک ہوں۔ یہ عمر میں پہلی بار ہے کہ عوام کے سامنے اپنےحالات اور اپنی تحریر پیش کر رہا ہوں، مجھے واقعات کو ترتیب وار بیان کرنا بھی نہیں آتا اور پھر ایسے واقعات جو خود میرے ذہن میں کسی خاص ترتیب کے ساتھ موجود نہ ہوں۔ مجھے جو کچھ یاد ہے وہ خواب کی طرح یاد ہے، ممکن ہے میرے پڑھنے والے ان اوراق میں کوئی دلچسپی کی بات نہ پائیں۔ لیکن میں اپنے واقعات کو بغیر قلم بند کیے ہوئے نہیں رہ سکتا۔ اس لیے کہ اگر میرے وکلا نے مجھے دیوانہ اور فاترالعقل ثابت کرکے مجھے رہائی نہ دلوائی ہوتی تو آج انہی واقعات کی بدولت عدم آباد کاراستہ لیے مجھے برسوں ہو گئے ہوتے۔ چھ سال تک میں بنارس کے پاگل خانے میں بند رہا اور مجھے وہاں سے چُھوٹے ہوئے مشکل سے دو سال کا عرصہ گزرا ہے۔ ڈاکٹروں نے اگرچہ مجھے صحت دماغ کی سند دے دی ہے لیکن میرے جاننے والوں کا خیال ہے کہ اب بھی مجھ میں جنون کے کچھ اثرات باقی ہیں، کاش یہی ہوتا! لیکن یہ تو واقعہ ہےاور سنگین ترین واقعہ۔ میں اس کو یاد کرتا ہوں تو میرے کلیجے میں ہوکیں اٹھنے لگتی ہیں۔

میں نے اس سے پہلے پاگل خانہ میں بھی اپنی سرگزشت لکھ ڈالنے کا ارادہ کیا مگر چونکہ اب تک واقعات کاصحیح علم خود مجھ کو نہ تھا اس لیے نہ لکھ سکا۔ تقریباً ایک ہفتہ ہوا کہ وہ مجھے مسلسل معلوم ہوئے ہیں اور میری سرگزشت اب آپ کے سامنے ہے۔

میں گھر کا خوش حال ہوں، انٹرنس تک انگریزی تعلیم پائی ہے، عربی میں بھی کچھ شدبد ہے، بچپن سے میری صحت خراب رہتی ہے۔ اس لیے سلسلہ تعلیم کو آگے نہ بڑھا سکا، ماں باپ نے اسکول سے نام کٹواکر گاؤں پر بٹھادیا، میں اپنی جائیداد کے انتظام میں لگ گیا اور اس میں شک نہیں کہ کھیت کھلیان کی آب و ہوا میرے لیے بہت بڑی حد تک صحت بخش ثابت ہوئی۔ دن بھر میں ضروری کاموں میں لگا رہتا تھا اور رات کو قصہ کہانی سے جی بہلانے کے لیے پڑھا کرتا تھا۔ یا کبھی کبھی شعر کہا کرتا تھا۔ شعر کیا کہتا تھا دو مصرعے موزوں کر لیا کرتا تھا۔ میرا خیال ہے کہ اس کے لیے کسی خاص علمی استعداد کی ضرورت نہیں، صرف ذوق کافی ہے۔

شام کو میں روز جنگل اور دریا کی سیر کو جایا کرتا تھا۔ ایک دن شام کو گرمی کے زمانہ میں تقریباً پانچ بجے میں حسب معمول گھر سے نکلا اور دریا کی طرف چلا جو میرے گاؤں سے کوئی دومیل کے فاصلہ پر ہے، میں اونچے نیچے راستہ کو طے کرتا ہوا چلا جا رہا تھا، میں کسی خیال میں محو تھا، شاید کوئی شعر موزوں کر رہا تھا، مجھے یہ بھی خبر نہ تھی کہ میں کہاں ہوں، دریا کے کنارے پہنچ کر مجھے ہوش آیا اور میں نے دیکھا کہ سامنے دریا کے کنارے کنارے راہبوں کا ایک گروہ چلا آ رہا ہے، مجھے یاد پڑا کہ میلے کا دن ہے۔ میلہ یہاں سے تین کوس اُتّر پورب اس دریا کے کنارے ہر سال ہوا کرتا ہے اور دو دور سے دیہاتی آکر اس میں شریک ہوا کرتے ہیں۔ راہبوں کا یہ گروہ جب قریب آیا تو میری نظر ایک سولہ سترہ سال کی لڑکی پر پڑی جو سب سے آگے آگے چل رہی تھی۔ میں اس میں محو ہو گیا اور جب تک اس کو دیکھ سکا دیکھتا رہا اور پھر دیر تک خلا میں اس طرف دیکھتا رہا جس طرف وہ گئی تھی۔ آپ اس سے میری ازخودرفتگی کا اندازہ لگا سکتے ہیں، مجھے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ وہ میری ساری ہستی کو سمیٹ کر اپنے ساتھ لے گئی ہے۔ اس نے بھی مڑ مڑ کر کئی بار مجھ کو دیکھا تھا اور مجھے یقین ہے کہ وہ میری مبہوت نگاہوں کی داد دے رہی تھی۔ میں نے اس کے خیال کو دور کرنے کی بہت کوشش کی، لیکن جتنا ہی اس کو بھولنا چاہتا تھا اتنا ہی وہ اور یاد آتی تھی، اس کی یاد میرے لیے نام خدا ہوکر رہ گئی تھی۔ میں نے اس کو بہت تلاش کیا مگر اس کا پتہ نہ چلا۔ رفتہ رفتہ میری یہ حالت ہوئی کہ ہر وقت اٹھتے بیٹھتے سوتے جاگتے وہی میری نظر کے سامنے رہتی۔ میں دن دوپہر بیداری کی حالت میں اس کے خواب دیکھنے لگا۔

اب میں شام کو روز دریا کی طرف جانے لگا۔ میرے لیے اب کہیں اور دلچسپی نہ تھی۔ میں اسی جگہ جاکر گھنٹوں اس کو یاد کیا کرتا جہاں اس سے میری آنکھیں دوچار ہوئی تھیں۔ میری نگاہوں میں اس جگہ کو ایک خاص حرمت حاصل تھی۔

اس طرح کوئی پندرہ دن گزر گئے، میرے جنون میں ذرہ برابر کمی نہیں ہوئی۔ میں اس مقدس ’’منزل‘‘ پر دیر تک سکوت کے عالم میں عشق کی نماز ادا کیا کرتا تھا۔ ایک روز حسب معمول اسی جگہ بیٹھا ہوا تھا، سورج ایک سرخ گولہ بنکر مغربی افق تک پہنچ گیا تھا، دریا کی روانی میں سستی پیدا ہوچلی تھی، موجیں تھک گئی تھیں، مجھ پر بھی ایک غنودگی کی کیفیت طاری تھی، یکایک میں نے دیکھا کہ وہ پھر آ رہی ہے، اس دفعہ وہ تنہا تھی اور اس طرف سے آرہی تھی جدھر اس دن میں نے اس کو جاتے دیکھا تھا، میرے اندر جذبات کا ایک طوفان برپا ہو گیا اور میں بے ساختہ اس کی طرف دوڑ پڑا اور پھر۔۔۔؟ پھر کچھ نہ تھا۔ وہ وہاں نہ تھی، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ دریا کی بے شمار موجوں میں کہیں غائب ہو گئی ہے۔ میں یہ ماننے کے لیے تیار نہ تھا کہ یہ سب میرے حواس کا دھوکا تھا۔ میں نے ادھر ادھر آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنا شروع کیا۔ اتنے میں میں نے دیکھا کہ مجھ سے چند قدم پر میرے بائیں طرف گیروا لباس پہنےہوئے ایک سادھو کھڑا ہے۔ میں سمجھ گیا کہ یہ وہی سادھو ہے جو یہاں سے چند بیگہوں کےفاصلے پر ایک نہایت اونچے ٹیلے پر اپنی کٹیا بنائے ہوئے ہے۔ یہ ٹیلا اتنا بلند ہے کہ باڑھ کے زمانہ میں بھی جب کہ ہر طرف پانی ہی پانی ہو جاتا ہےاس کا آدھے سے زیادہ حصہ سطح آب سے اوپر ہوتا ہے۔ سادھو دن رات اسی کٹی میں رہتا تھا اور کہیں آتا جاتا نہ تھا۔ وہ گردونواح میں کافی شہرت رکھتا تھا۔ لوگ اس کو نقد اور غلہ لاکر دے جاتے تھے اور شاید اسی پر اس کی گزر اوقات تھی، میں نے اس کا نام سنا تھا، میرے لیے اس میں کوئی خاص قابل توجہ بات نہ تھی۔

میرا ہیجان کچھ ایسا بڑھا ہوا تھا کہ میں نے سادھو کو دیکھتے ہی گستاخانہ لہجہ میں پوچھا، ’’کیوں؟ وہ کہاں گئی؟‘‘ سادھو نے کہا، ’’بچہ! تم کس کو پوچھتے ہو؟ یہاں تو میرے سوا دیر سےکوئی نہیں ہے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ مسکراتا ہوا میری طرف بڑھا میں اپنے سوال کو شاید اور درشتی کے ساتھ دہراتا، مگر اس کی مسکراہٹ میں ایک عجیب و غریب کیفیت تھی جس کو میں بیان نہیں کر سکتا، میری آنکھیں جھک گئیں، میں اپنے سر میں ایک غیرمعمولی تکان محسوس کرنے لگا اور اسی جگہ بیٹھ گیا۔ سادھو نے میرے پاس آکر پوچھا، ’’بچہ! تم کو کیا ہوا ہے؟ میں روز تم کو یہاں بے خبری کے عالم میں دیکھتا ہوں، آخر تمہیں اس جگہ سے کیوں انس ہے؟ آج تم دوڑے ہوئے کہاں جارہے تھے؟ اور یہ کس کے بارے میں پوچھ رہے تھے؟‘‘ میں اب اس سے آنکھیں ملاتے ہوئے گھبراتا تھا۔ میں نے سر نیچے کیے ہوئے جواب دیا، ’’مہاراج اپنا راستہ لو مجھے کچھ نہیں ہوا ہے۔‘‘

’’ہوا تو تم کو بہت کچھ ہے اور مجھے خوب معلوم ہے کہ کیا ہوا ہے لیکن میں خود تمہاری زبان سے تمہارا حال سننا چاہتا ہوں، دیکھو مجھے اپنا دوست سمجھو، مجھ سے دل کی بات نہ چھپاؤ، میں تمہارے کام آ سکتا ہوں۔‘‘

سادھو یہ کہہ کر میرے سر پر ہاتھ پھیرنے لگا، جس سے میرے دماغ میں سکون پیدا ہونےلگا۔ میں بات کی بات میں اس خواہش سے مغلوب ہوگیا کہ سادھو کو اپنے راز سے آگاہ کردوں۔

میں نے اپنا حال مفصل بیان کر دیا اور میرے دل کا بار بہت کچھ ہلکا ہو گیا۔ میں نے اس لڑکی کا حلیہ بھی بیان کر دیا، سادھو اپنی گھنی اور لمبی داڑھی اپنے ہاتھ میں لے کر کچھ سوچنے لگا۔ میں اس کی صورت کو غور سےدیکھنے لگا۔ اس کی صورت سےایک خاص جلال ٹپکتا تھا۔ یہی جلال تھا جس نے مجھے اس کے سامنےایسا بے بس کر دیا تھا کہ میں اس کو اپنا رازدار بنانے کے لیے مجبور ہو گیا۔

تھوڑی دیر بعد سادھو نے ایک گہری سانس لی۔ معلوم ہوتا تھا کہ اس ایک سانس میں نہ جانے کتنے راز پوشیدہ ہیں۔ میں اب اس سے ایک موانست محسوس کر رہا تھا۔ میں سراپا گوش بن کر اس کے جواب کا انتظار کرنے لگا۔ آخر کار اس نے کہا، ’’اگر میں یہ کہوں کہ اس کا اس دنیا میں کہیں وجود نہیں اور وہ تمہارے خواب کی رہنے والی ہے اور تم دراصل اس کو خواب ہی میں دیکھا کرتے ہو، تو تم میری بات کو تسلیم نہیں کروگے اور شاید مجھ سے چڑ بھی جاؤ۔ لیکن ادھر دیکھو! تمہاری عمر زیادہ سے زیادہ بیس برس کی ہوگی، میں تم سے تین سال بڑا ہوں۔ کم سے کم اتنا تو مان ہی لوگے کہ زندگی اور زندگی کے واقعات کا تجربہ مجھ کو زیادہ ہے۔ میں جو کچھ سمجھتا ہوں اور جو کچھ کہتا ہوں، اس کے صحیح ہونے کا امکان، تم جو کچھ سمجھتے ہو یا کہتے ہو، اس کے مقابلہ میں کہیں زیادہ ہے۔ ہاں تو میں یہ کہہ رہاتھا کہ وہ تمہارے خواب کی پری ہے اور تم اگر اس کو پا سکتے ہو تو خواب ہی کی دنیا میں۔ یہاں اس بات کو بھی سمجھ لو کہ دوسروں کی طرح میں خواب کی اصلیت سے انکار نہیں کرتا۔ خواب بھی اسی طرح ایک حقیقت ہے جس طرح ہمارے ہوش و حواس کی زندگی۔ لیکن دونوں حقیقتوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ اس دنیا کی حقیقت خواب کی دنیا کے لیے ایک واہمہ ہے، بالکل اسی طرح جس طرح خواب کی حقیقت اس دنیا کے لیے ایک دھوکا ہے، تم اگر چاہو تو میں تمہاری مدد کر سکتا ہوں، اگر تم اس دنیا سے قطع نظر کرنا گوارا کرو تو میں ہمیشہ کے لیے تم کو اس سے ملا دوں۔‘‘

میں نے کچھ جواب نہیں دیا، میں چپ چاپ اس کا منھ تکتا رہا، اس نے پھر کہنا شروع کیا، ’’تم کو میری باتوں کا اعتبار نہیں آتا۔ اچھا کم از کم مجھ کو ایک ہفتہ کا موقع دو، گھر والوں سے کچھ بہانہ کرکے چپکے سے میری کٹی میں چلے آؤ اور ایک ہفتہ یہاں رہو۔ ایک ہفتہ کے لیے وہ تمہاری ہوگی۔ اس وقت تم کو معلوم ہو جائےگا کہ میں نے جو کچھ کہا وہ کہاں تک سچ ہے۔ پھر اگر تم کہوگے تو مدت العمر کے لیے میں تم کو اس سے ملادوں گا۔ بولو! منظور ہے؟‘‘

میں نے بغیر سوچے سمجھے کہہ دیا، ’’ہاں منظور ہے۔‘‘ اس کے بعد سادھو مجھ کو لے کر اپنی کٹی میں گیا اور وہاں تھوڑی دیر تک مجھے ایسے کمالات دکھاتا رہا کہ میرے ہوش اڑ گئے۔ چونکہ ان کو میری داستان سے کوئی تعلق نہیں ہے اس لیے ان کو بیان کرنا بیکار ہے۔ دنیا ان کو شعبدہ بازی سمجھےگی، مگر میں ان کی حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا۔ اس کے بعد سادھو نے مجھ کو رخصت کیا، چلتے چلتے اس نے کہا، ’’لیکن قبل اس کے کہ تم میرے کہنے پر عمل کرو میں تم کو دو باتیں بتا دینا چاہتا ہوں۔ ایک تو یہ کہ تم کو اس تجربہ کے لیے اپنے کو صدق دل اور عقیدت مندی کے ساتھ میرے حوالہ کردینا پڑےگا۔ دوسرے یہ کہ ساتویں دن کے بعد جب تم ہوش میں آؤگے تو تمہاری زندگی خطرہ میں ہوگی۔ اگر اس خطرہ سے تم بچ کر نکل گئے تو آئندہ اس قابل ہو جاؤگے کہ ساری عمر اس کے ساتھ رہو۔ کل ان سب باتوں پر اچھی طرح غور کرکے آنا۔‘‘

میں اب کیا سوچتا سمجھتا؟ میں تو بُری طرح اس سادھو کے قبضہ میں تھا اور اس ’’خواب کی پری‘‘ سے ملنے کے لیے بیتاب تھا۔

دوسرے روز ازسرنو ارادہ کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ سادھو کا خیال مجھ پر اس طرح مسلط رہا کہ صبح سے شام کرنا میرے لیے پہاڑ ہو گیا۔ خدا خدا کرکے شام ہوئی اور وہاں سے یہ کہہ کر کہ ’’میں ایک دوست سے ملنے جارہا ہوں اور ایک ہفتہ وہاں رہوں گا‘‘ چل کھڑا ہوا، میرے ساتھ سوا ایک دری اور چادر کے کچھ نہ تھا۔ میں نے اپنے ساتھ کسی ملازم کو نہیں لیا اور اکیلا اسٹیشن کی طرف چلا۔ جب کچھ دور نکل گیا اور یہ اطمینان ہوا کہ اب کوئی دیکھنے والا نہیں ہے تو سادھو کی کٹی کی طرف مڑا۔

سادھو مجھے دیکھ کر اسی طرح مسکراتا ہوا اٹھا اور مجھے اپنی کٹی کے اندر لے گیا۔ ہرچند کہ اس وقت ادھر سے کسی کے گزرنےکا اندیشہ نہ تھا پھر بھی سادھو نے کہا، ’’بہتر یہ ہے کہ ہم لوگ باہر نہ رہیں تاکہ تمہیں کوئی یہاں دیکھ نے سکے۔‘‘ اس کے بعد وہ مختلف قسم کی باتیں کرتا رہا۔ مجھے معلوم ہوگیا کہ زندگی کی نت نئی حقیقتوں پر اس کو پورا عبور حاصل ہے۔ مجھے اس دو دن کے اندر یقین ہوگیا تھا کہ زندگی اور فطرت کے اسرار کتابوں میں نہیں مل سکتے۔ وہ انسان کے اندر موجود ہیں، انسان کا کام ان کو پالینا ہے۔

جب آٹھ بج گئے اور اندھیرا کافی ہو چلا تو سادھو نے ایک بار مجھ سے پوچھا، ’’ہاں تو تم نے آگا پیچھا اچھی طرح سوچ لیا ہے؟‘‘

میں نے کہا، ’’مہاراج تم اپنا عمل شروع کرو میں تیار ہوں۔‘‘ سادھو نے کچھ پھل اور ایک پیالہ دودھ رکھ کر کہا، ’’اچھا اس کو کھالو، یہ ’ساتوک‘ کھانا ہے، یہ انسان کو ہلکا اور لطیف بناتا ہے۔ آج اگر تم اس سے بھاری غذا کھاؤ تو تمہارے حق میں مفید ثابت نہ ہو۔‘‘ مجھے دودھ سے نفرت تھی، لیکن میں نے کھایا اور نہیں کہہ سکتا کہ اس میں کیسی لذت ملی۔ اس کے بعد سادھو نے اپنا عمل شروع کیا۔ وہ میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنے لگا، رہ رہ کر وہ اپنے ہاتھ کو میرے جسم سے کوئی ایک ہاتھ کے فاصلہ پر رکھ کر میرے سر سے پاؤں کی طرف لے جاتا تھا اور زیر لب کچھ کہتا بھی جاتا تھا، تھوڑی دیر کے بعد میں ایسا محسوس کرنے لگا کہ ہوا میں تیر رہا ہوں اور پھر۔۔۔

پریماؔ اب میری تھی۔ میں نے اس کے لیے گھر تج دیا تھا، سارے کنبے سے منھ موڑ لیا تھا اور خوش تھا کہ میں اپنی پچھلی زندگی کو بھول گیا تھا۔ پریماؔ نے مجھے تندرست جوان اور خوبصورت بنا دیا تھا، اس نے میرے لیے کیا کچھ ایثار نہیں کیا تھا، اس نے میرے لیے اپنی ذات پات اور دھرم کو چھوڑ دیا۔ محبت اب ہم دونوں کا دھرم تھا، ہم لوگ ایسی جگہ تھے جو اس جگہ سے بہت کچھ ملتی جلتی تھی جہاں میں نے پہلی بار اس کو دیکھا تھا۔ لیکن اب وہ اس دنیا کی سرزمین نہیں معلوم ہوتی تھی جس میں میں اس سے پہلے رہتا تھا۔ یہاں مذہب و ملت کا جھگڑا نہ تھا۔ زمین و آسمان کی بلائیں اس جگہ نہیں پہنچ سکتی تھیں، ہم دو کے علاوہ تیسرے کا یہاں کوئی دخل نہ تھا۔ میں یہاں کا راجہ تھا اور پریماؔ میری رانی، میں اس سرزمین کو پریم نگر کہوں گا، پریم نگر ایک سدا بہار ملک تھا، یا یوں کہو کہ وہاں کی خزاں میں بھی ایک نشاط ایک ہستی، ایک طراوٹ تھی۔ پریم نگر میں جس طرف نظر اٹھتی تھی نت نئے پھول اور رنگ برنگ کے سرسبز اور شاداب درخت اور پودے دکھائی دیتے تھے۔ وہاں کی ندی نالوں کی موسیقی میں ایک فردوسی کیفیت تھی جس کو میں نے کبھی اس دنیا میں محسوس نہیں کیا۔ پریم نگر کی راتیں ڈراؤنی نہیں تھیں، بلکہ ان میں بھی ایک دلکشا تنویر تھی، وہاں محبت سے کبھی طبیعت سیر نہیں ہوتی تھی اور نہ کسی چیز سے جی اکتاتا تھا جیسا کہ اس دنیا کا قاعدہ ہے۔ اور میری پریما؟ پریما پہلے سے زیادہ حسین تھی۔ اس میں ایک لاہوتی دلنوازی آ گئی تھی۔ وہ اب عورت نہ تھی بلکہ ایک دیوی تھی۔ شاعروں نےجتنے سراپا لکھے ہیں، مصوروں نے جتنی تصویریں کھینچی ہیں، سنگ تراشوں نے جتنے مجسمے بنائے ہیں، دنیا والوں نےجتنی دلفریب صورتیں دیکھی ہیں ان میں سے حسین ترین خصوصیات کو الگ کر لیجیے اور یہ سب کچھ اور ان سے بھی زیادہ میری پریماؔ میں موجود تھیں۔ اس کی آنکھیں غیرفانی وفا و محبت سے معمور تھیں۔

پریماؔ ہر وقت میری خدمت میں لگی رہتی تھی اور میں اس کی۔ ہم ہر احتیاج سے آزاد اور ہر فکر سے بےخبر ایک دوسرے کے لیے راحت و مسرت کے نئے نئے پہلو نکالا کرتے تھے۔ میں دن رات اس کو دیکھا کرتا تھا اور وہ مجھ کو، میری جان اس کی آنکھوں میں تھی اور اس کی جان میری آنکھوں میں، میں اس کے نام کی سانس لیتا تھا، وہ میرے نام کی۔ وہ اکثر کہا کرتی تھی، ’’پیارے! نہ جانے کتنی عمریں میں یہاں تمہارے انتظار میں گزار چکی ہوں۔ میں تمہارے لیے بنائی گئی تھی، مجھے یقین تھا کہ تم مجھ کو کبھی نہ کبھی ضرور ملوگے، آخرکار میں تم کو پا گئی۔ اب تم میرے ہو اور میں تمہاری اور یہ زمین و آسمان، چاند و سورج، دن رات، جنگل جھاڑی، ندی نالے، غرض کہ تمام چیزیں ہماری ہیں۔‘‘ اور میں جواب دیتا، ’’پریماؔ! ہاں اب میں ہوں اور تم اور یہ کائنات، نہ تم مجھ سے جدا ہوگی نہ میں تم سے، اور نہ ہم اس دنیا کو چھوڑ کر کہیں جائیں گے۔‘‘

پریماؔ جس وقت میرے جسم کو چھوتی یا مجھے چومتی تو اس سے میرے دل کی رگوں میں ہیجان نہیں پیدا ہوتا تھا، بلکہ میری روح اور روح کی ایک ایک تہہ میں ایک لطیف لہر دوڑ جاتی تھی اور میں اس میں ایک سکون و راحت کی کیفیت پاتا تھا۔

میں جس دنیا کو پیچھے چھوڑ آیا تھا اس کی آلودگیوں، اس کی تاریکیوں اور اس کی مصیبتوں کی ایک ہلکی سی یاد باقی تھی۔ بعض اوقات بےاختیار جی چاہتا تھا کہ ایک بار میں پھر اسی دنیا میں پہنچ جاؤں اور دنیا والوں کو محبت اور شاعری کا پیغام سناؤں۔

’’دیکھیے انسانیت اس کو کہتے ہیں۔ زندگی یہ ہے، تمہارے افکار و آلام، تمہارے بے معنی جھگڑوں، بکھیڑوں اور تمہاری گندگیوں کانام زندگی نہیں ہے جس کو تم انسانیت سمجھے ہوئے ہو، جس کو تم زندگی کہتے ہو وہ ایک قسم کی بیماری ہے، ہاں وہ ایک روحانی کوڑھ ہے۔‘‘

کبھی کبھی مجھ پر اس پیغمبری کا جنون اس طرح سوار ہو جاتا تھا کہ میں اپنی موجودہ زندگی کی راحتوں کو چھوڑ دینے کے لیے بھی تیار ہوجاتا تھا۔ مجھے حسرت تھی کہ دنیا کو پریم نگر بنا دوں۔ پریم نگر میں اگر کبھی میرے اندر کوئی تمنا پیدا ہوئی تو یہ اور کبھی کوئی فکر محسوس ہوئی تو یہ لیکن میری یہ حالت بھی دیر پا نہ ہوتی تھی۔ پریما مجھے فکر مند دیکھ کر محبت میں بہلا لیتی۔ وہ کہتی، ’’میرے سرتاج! پریم نگر جی کڑھانے کی جگہ نہیں ہے، بیکار فکر نہ کرو۔ تم دنیا کو جیسا بنانا چاہتے ہو وہ ہوکے رہےگی، یہ فتنے فساد، یہ رسمی جھگڑے، یہ گندگیاں رہنے کی نہیں، لیکن ہر بات کے لیے ایک وقت ہوتا ہے، ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ دنیا اندھیرے کو چھوڑ کر اجالے کی طرف آئے۔‘‘

اس کے بعد پریما مجھے پریم نگر کی بے شمار رنگینیوں کی طرف متوجہ کرکے کہتی، ’’دیکھو چاندنی کی مدھم کرنیں کیا کہہ رہی ہیں، سنو یہ قمریاں کیا کہتی جارہی ہیں، ادھر دیکھو ہنس کا جوڑا بیٹھا ہوا ہے۔ دونوں آپس میں کچھ باتیں کر رہے ہیں۔ سامنے دیکھو بھونرے نے پھول کے کان میں کچھ کہا، ذرا ندی کے گیت سنو اور ان لہروں کو دیکھو کنارے کی طرف کیسا خوش خوش اور تیزی کے ساتھ آتی ہیں اور کنارے سے مل کر کھو جاتی ہیں۔ اور پھر ذرا اس طرف نظر اٹھاؤ زمین اور آسمان گلے مل رہے ہیں۔‘‘

یہ کہہ کر وہ میرے گلے میں باہیں ڈال دیتی اور مجھے بوسہ دے کر کہنے لگتی، ’’ہاں پیارے محبت ہر چیز کی اصلیت ہے، محبت قدرت کی روح ہے۔ محبت آدمیت کی جان ہے، محبت نہ ہو تو ہرچیز مایا ہے یا جیسا کہ تم کہتے ہو زندگی ایک قسم کا کوڑھ ہے، محبت کی فتح ضروری ہے، جس دنیا کے لیے تم ابھی اپنا دل دکھاتے رہے ہو اس پر وہ ایک نہ ایک دن فتح پائےگی، اور وہ دنیا بھی ایک دن پریم نگر ہو جائےگی۔‘‘

اس طرح میرے خیال میں نہ جانے کتنی رات گز گئی، ہماری زندگی کی مسرتوں میں کوئی تغیر نہیں ہوا، ہم اسی طرح چہکتےرہے۔ لیکن ایک دن جب کہ ہم دریا کے کنارے بیٹھے ہوئے موجوں سے کھیل رہے تھے پریما یکایک سہم کر مجھ سے لپٹ گئی اور ایک طرف اشارہ کرنے لگی۔ میں نے دیکھا تو اس طرف ایک ہیبت ناک اندھیرا چھایا ہوا تھا جو تیزی کے ساتھ ہماری طرف بڑھ رہا تھا، معلوم ہوتا تھا کہ آندھی آ رہی ہے۔ پریم نگر کے لیے یہ ایک بالکل نئی بات تھی، میں بھی گھبرا گیا۔

آندھی خاک اڑاتی ہوئی بہت قریب آ گئی اور میں نے دیکھا کہ ایک ڈاکو تلوار سوتے ہوئے دوڑا چلا آ رہا ہے۔ میں نے چاہا کہ پریما کو الگ کرکے اس ڈاکو کو روکوں، لیکن پریما مجھ سے اور بھی لپٹ گئی۔ دیکھتے دیکھتے ڈاکو کی تلوار پریما کے سینے میں تھی اور پریما زمین پر، مجھے اپنی غضبناکی میں پریما کا بھی خیال نہیں رہا۔ میں ڈاکو پر جھپٹا، لیکن ڈاکو مجھ سے زیادہ قوی تھا، اس نے میری گرفت سے نکل کر ایک وار مجھ پر کیا اور میں۔۔۔!

اب میرے سامنے کچھ نہ تھا، میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر ادھر ادھر دیکھ رہا تھا۔ دیر کے بعد میں نے دیکھا کہ سادھو بیٹھا میرے منھ پر پنکھا جھل رہا ہے، اس نے پھر اسی طرح مسکراکر کہا، ’’اٹھو تمہارے خواب کی میعاد پوری ہو گئی، کہو کیسی سیر تھی؟‘‘ اب میں اچھی طرح اپنے ہوش میں تھا، میں نے کہا، ’’مہاراج! میں ہمیشہ اسی سیر میں رہنا چاہتا ہوں۔‘‘ سادھو نے جواب دیا، ’’ابھی نہیں، ابھی جس خطرہ کا ذکر میں نے کیا تھا اس سے تم محفوظ نہیں ہو۔ اس سےبچ لینا تو زیادہ کی ہوس کرنا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ پھر مسکرایا اور کہا، ’’اچھا اب اپنے گھر کا راستہ لو۔‘‘

میں اسی خواب کی لذت میں محو چلا جارہا تھا کہ میرے کانوں میں یہ آواز پڑی، ’’نہ جانے بےچاری کو کس نے قتل کیا اور کیوں؟‘‘ میں نے چوک کر دیکھا تو دو راہی باتیں کرتے جا رہے تھے۔ میں نے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ وہاں تقریباً ڈھائی کوس کے بعد ایک گاؤں ہے، وہاں ایک نوجوان خوبصورت عورت رات قتل ہوئی ہے، اس کے شوہر نے قاتل کو پکڑ لیا تھا مگر وہ پھر اس کی گرفت سے نکل گیا، شوہر قاتل کو پہچانتا ہے، اس کا خیال ہے کہ اس نے پہلے بھی اس کو کہیں دیکھا ہے۔ پولیس تلاش کر رہی ہے مگر قاتل کا ابھی تک پتہ نہیں۔ امید ہے کہ وہ جلد پکڑ لیا جائےگا، اس لیے کہ اتنی دیر میں وہ کہیں دور نہیں گیا ہوگا۔‘‘

نہ جانے کس جذبہ سے مغلوب ہوکر میں نے اس گاؤں کا پتہ پوچھا، راہیوں نے کہا، ’’جدھر سے آپ آ رہے ہیں اسی طرف ذرا پچھم دب کر سیدھے چلے جائیے۔ کوئی ڈھائی کوس کے بعد وہ گاؤں آپ کو خود مل جائےگا، اس لیے کہ سارے گاؤں میں ایک ہلچل مچی ہوئی ہے۔‘‘ میرے پاؤں خودبخود اس سمت کو اٹھ گئے۔

اس گاؤں میں پہنچتے پہنچتے دوپہر ہو گئی، ابھی سرحد سے باہر ہی تھا کہ دو سپاہیوں نے مجھ کو غور سے دیکھا اور حراست میں لے لیا، قاتل کا حلیہ مجھ سے ملتا تھا، میں کشاں کشاں بیچ گاؤں میں تھانیدار کے سامنے لایا گیا۔ میں حیرت زدہ سب کا منھ تک رہا تھا۔ اتنے میں ایک شخص مجنونانہ بھیڑ کو پھاڑتا ہوا میری طرف بڑھا اور کہنے لگا، ’’ہاں یہی ہے۔‘‘ اس کی آنکھوں سے شعلے نکل رہے تھے۔

تھانہ دار نے لاش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مجھ سے پوچھا، ’’تم نے اس کو کیوں قتل کیا؟‘‘ اب میری نظر لاش پر پڑی اور میری حواس بجانہ رہے، یہ تو پریما تھی۔ اس کی صورت بالکل ویسی ہی تھی جیسی رات تک پریم نگر میں تھی اور اس کے سینے پر اسی جگہ زخم تھا جہاں رات اس ڈاکو نے تلوار ماری تھی۔ میں بے اختیار لاش سے لپٹ گیا اور رو رو کر کہنے لگا، ’’یہ تو میری پریما ہے، اس کو تو رات اس ڈاکو نے مارا ہے۔‘‘

پریما کا شوہر یہ کہتا ہوا میری طرف لپکا، ’’مکار! اب آیا ہے باتیں بنانے تاکہ لوگ تجھ کو بے گناہ سمجھیں۔‘‘ اگر لوگ اس کو پکڑ نہ لیتے تو نہ جانے وہ میرے ساتھ کیا سلوک کرتا۔ وہ مجھ پر بالکل اسی طرح جھپٹا تھا جس طرح رات میں ڈاکو پر جھپٹا تھا۔

میرے حواس پھر درست ہو گئے اور اب میں نے کہا، ’’یہ سب اس بدمعاش سادھو کا کیا ہوا ہے جو اس کٹی میں رہتا ہے۔ پریما کا قاتل وہی ہے۔‘‘ اس کے بعد میں نے اپنا سارا قصہ بیان کر دیا، اس پر سب لوگ کھل کھلاکر ہنس پڑے۔

تھانے دار نے کہا، ’’یا تو قتل کے احساس سے اس کا دماغ خراب ہو گیا ہے، یا پھر اس کو مکاری خوب آتی ہے۔ لیکن اسی کے ساتھ انھوں نے اس سادھو کو طلب کرایا۔

سادھو سے لوگ اچھی طرح واقف تھے اور اس کو خدا رسیدہ سمجھتے تھے۔ اس کے آتے ہی سب اس کے قدم لینے لگے۔ تھانے دار نے بھی اس کو اپنی بغل میں ایک مونڈھے پر بٹھلایا۔ سادھو نے مجھے دیکھتے ہی کہا، ’’بچہ! میں کہتا تھا کہ تمہارا دماغ خراب ہو رہا ہے، میں تم سے روز کہتا تھا کہ اس جگہ آکر نہ بیٹھا کرو، تم نے نہیں سنا آخرکار اپنے کو اس نوبت کو پہنچایا۔‘‘

سامنے ایک ڈنڈا پڑا ہوا تھا، میں نے اس کو اٹھاکر چاہا کہ سادھو کا سر پاش پاش کر دوں، مگر سپاہیوں نے مجھ کو پکڑ لیا۔ سادھو مسکرایا اور تھانہ دار اور دوسروں کو مخاطب کرکے کہنے لگا، ’’یہ میری کٹی کے پاس روز دریا کے کنارے شام کو آکر پہروں دم بخود بیٹھے رہا کرتے تھے۔ مجھے بہت جلد معلوم ہو گیا کہ ان کا دماغ خراب ہو رہا ہے میں نے ان کو وہاں آنے سے بارہا منع کیا، لیکن انھوں نے میرا کہنا نہیں مانا۔ ایک ہفتہ سے یہ نظر نہیں آتے تھے۔ آج ان کو اس حالت میں دیکھ رہا ہوں۔‘‘ اس پر پریما کے شوہر نے اچھل کر کہا، ’’بس بس ٹھیک ہے میں نے بھی اس کو پہلی دفعہ اسی دریا کے کنارے دیکھا تھا جب کہ ہم لوگ شام کے وقت میلہ سے لوٹ رہے تھے۔‘‘ اب مجھ سے کچھ نہیں کہا جاتا تھا۔ سادھو کی افترا پردازی پر میں حیران رہ گیا، سادھو نے پھر کہا، ’’میری کٹی سے کچھ دور پر ایک گاؤں ہے وہیں کے زمیندار کے لڑکے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اگر انھوں نے اس لڑکی کو قتل کیا ہے تو ہوش و حواس کی حالت میں نہیں۔‘‘

میں حوالات میں تھا اور میرے گھر رونا پیٹنا پڑا تھا۔ خواب کو حقیقت کی ضد بتایا جاتا ہے۔ میں غور کرتا تھا کہ دونوں اضافی چیزیں معلوم ہوتی تھیں، مجھے سب کچھ خواب معلوم ہو رہا تھا اور اس سات روز کا خواب ایک ناقابل انکار حقیقت۔میرے گھروالے میرے مقدمہ میں ٹھیکری کی طرح روپے پھینک رہے تھے۔ وکلا اپنا سارا زور صرف کر رہے تھے، آخرکار بڑی مشکل سے پاگل ثابت کیا جاسکا۔ میرے گواہوں میں سادھو بھی تھا، سادھو نے مجھے فاترالعقل ثابت کرنے میں کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھا۔ میرا جی چاہتا تھا کہ میں سادھو کو کچا چبا جاؤں۔

حوالات سے چھوٹا تو پاگل خانے میں جھونک دیا گیا اور وہاں چھ سال رہا، اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسے عجیب و غریب واقعات نے اور پھر پاگل خانہ کی فضا نے مجھے اب واقعی پاگل بنادیا تھا۔ خدا خدا کرکے وہاں سے نجات ملی اور میں پاگل خانے سے نکل کر اپنے گھر آیا۔ کاش! میں سچ مچ پاگل ہوتا۔ کون جانے پاگلوں کا دماغ کتنا صحیح ہوتا ہے اور ان کی دنیا عقل والوں کی دنیا کے مقابلہ میں حقیقت سے کس قدر زیادہ قریب ہوتی ہے۔

مجھے گھر آئے ہوئے کوئی پندرہ دن ہوئے ہوں گے، گھر والے اب تک خوشیاں مناتے تھے، منتیں پوری کی جا رہی تھیں، خیراتوں کا سلسلہ جاری تھا۔ دور دور سے میرے چاہنے والے مجھے دیکھنے آرہے تھے اور میں ایک عجوبۂ روزگار بنا بیٹھا تھا، ایک روز شام کے وقت میں نےدیکھا کہ وہی سادھو اسی لباس میں اور اسی آن بان کے ساتھ چلا آ رہا ہے۔ گزشتہ خوفناک واقعات جن کو میں بھولنے کی کوشش کر رہا تھا ایک ایک کرکے دفعتاً میرے سامنے ہو گئے اور میرے بدن میں شعلے بھڑکنے لگے۔ سادھو کے ہونٹوں پر وہی مسکراہٹ تھی۔

میں نے ارادہ کر لیا کہ اب کی اس ’’آدم ابلیس‘‘ کی پوری خبر لوں گا۔ لیکن آپ سوچیے میں کیا اور میرا ارادہ کیا، سادھو قریب آیا تو اس کی مسکراہٹ اور اس کی نگاہوں نے پھر میرے اندر ایک سکون کی کیفیت پیدا کر دی اور میرا غصہ بہت بڑی حدتک خودبخود ٹھنڈا ہو گیا۔ میں نے اس کی طرف سے آنکھیں پھیر لیں۔ سادھو نے کہا، ’’میں اب تک اس لیے نہیں آیا کہ تم اچھی طرح آرام کر لو تب آؤں۔ میں تم کو دیکھنے اور تم سے ایک نہایت ضروری بات کہنے آیا ہوں۔‘‘

میں نے بات کاٹ کر کہا، ’’بس خیریت اسی میں ہے کہ تم میرے سامنے سے فوراً چلے جاؤ، میں نے تمہاری ضروری بات بہت سنی۔‘‘

سادھو نے بےپروائی کے ساتھ جواب دیا، ’’بچہ! خیریت تو ہر حال میں ہے اور میں تم کو وہ بات سناکر جاؤں گا، تم نہ سنوگے تو درودیوار کو سناجاؤں گا۔‘‘ یہ کچھ اس لہجہ میں کہا گیا کہ میں پھر بے قابو ہو گیا اور پتھر کی مورت کی طرح سادھو کی بات کا انتظار کرنے لگا۔ سادھو نے مشکل سے اتنا کہا کہ، ’’پریما کا قاتل میں ہوں‘‘ کہ میں پھر بیچ و تاب کھانے لگا۔ میں نے کہا، ’’بدمعاش! میں تو جانتا تھا کہ تو ہی قاتل ہے۔ ٹھہر میں ابھی تجھ کو گرفتار کراتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر میں نے چاہا کہ کسی کو آواز دوں مگر سادھو نے یہ کہہ کر میری زبان بند کر دی، ’’بیکار بے عقلی کی باتیں نہ کرو، مجھے قاتل کوئی نہیں کہےگا اور تم کو لوگ پھر پاگل سمجھنے لگیں گے۔‘‘ اس کے بعد اس نے جو سرگزشت بیان کی وہ یہ ہے،

’’میں قوم کا چھتری ہوں۔ میرا نام ہرنام سنگھ ہے۔ میں اسی گاؤں کا رہنے والا ہوں جہاں پریما رہتی تھی۔ پریما کی ماں میری بیوی تھی، میں شادی سے پہلے بھی اس کی محبت کرتا تھا۔ اسی محبت کی بناپر میں نے اس سے شادی بھی کی۔ اس کے لیے گھربار چھوڑا، اپنے پرائے ہوئے، پربھا کے سوا میرا کوئی نہ تھا۔ پربھا بھی مجھے جی جان سے چاہتی تھی۔ آہ! اب یہاں مجھے کوئی نہیں جانتا۔ کوئی نہیں جانتا، کوئی نہیں پہچانتا کہ میں وہی ہرنام سنگھ ہوں۔ ہاں تو عرصہ تک ہماری محبت دن دونی رات چوگنی ہوتی گئی۔ میں ساری دنیا کو پربھا میں بھولا ہوا تھا۔ لیکن آخر کار وہ دن بھی آ گیا جب کہ میں نے محسوس کیا کہ پربھا میری طرف سے بے نیاز ہوتی جا رہی ہے۔ یہ بے نیازی روز بروز بڑھتی گئی۔ میں اپنی داستان کو طوالت نہ دوں گا۔ مجھے بہت جلد معلوم ہو گیا کہ ہمارے گاؤں کے زمیندار ٹھاکر سنگھ کو پربھا سے تعلق ہے۔ پہلے تو میں نے اس کو غلط سمجھنا چاہا لیکن واقعہ واقعہ رہا۔ میرا خون کھولنے لگا، میں پربھا کو مار ڈالنے کی فکر میں تھا، پربھا کو شبہ ہو گیا، اس نے ٹھاکر سنگھ کو آگاہ کر دیا۔ ٹھاکر سنگھ نے اب اس کو کھلم کھلا اپنے مکان میں رکھ لیا۔ میں نے قانون سے مدد مانگی مگر عدالت اس کے لیے ہے جس کو عدالت کی ضرورت نہیں۔ قانون اسی کی مدد کرتا ہے جو قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ ٹھاکر سنگھ ایک بار سوخ زمیندار اور بڑا روپے والا تھا۔ میں ایک مفلس و نادار کاشتکار، میری سنوائی نہیں ہوئی۔ پربھا ٹھاکر سنگھ کے گھر رہی۔ میں اس صدمہ کی تاب نہ لاسکا اور اپنا منھ کالا کرکے پردیس نکل گیا۔‘‘

یہ اب سے پچیس چھبیس برس کا واقعہ ہے۔ میں نے دنیا تج دی اور سادھو ہوکر سادھوؤں کے ساتھ رہنے سہنے لگا۔ انھیں سادھوؤں کے ساتھ میں ان کمالات کا ماہر ہوا جن کا مشاہدہ تھوڑا بہت تم کر چکے ہو۔ میں لوگوں کے دل کی باتیں جان سکتا ہوں، دوسروں کو ان کے ارادہ سے باز رکھ سکتا ہوں اور سب سے بڑا کمال وہ ہے جس نے اس معاملہ میں میری مدد کی۔ یعنی میں دوسرے کے قالب میں داخل ہو سکتا ہوں۔ بشرطیکہ وہ مجھ پر بھروسہ کرکے اپنے کو سپرد کردے۔ اب میں نے قسم کھائی کہ میں پربھا اور ٹھاکر سنگھ سے انتقام لوں گا اور اس کے لیے جتنے کمالات اس درمیان میں حاصل کیے ہیں سب کام میں لاؤں گا۔ میں اس نیت سے پھر یہاں آیا مگر مجھے معلوم ہوا کہ پربھا اور ٹھاکر سنگھ دونوں مر چکے ہیں اور ٹھاکر سنگھ سے پربھا کی ایک لڑکی ہے جس کو ٹھاکر سنگھ کے گھر والوں نے نکال باہر کیا ہے اور اس کی شادی ہو چکی ہے۔ میں نے اس لڑکی کو دیکھا اور مجھے معلوم ہو گیا کہ ماں کی طرح اس میں بھی بےوفائی ہے۔ میں نے قسم کھائی کہ اپنا بدلہ اس لڑکی سے لوں گا۔ یہ تمھاری پریما تھی۔ سال بھر تک مجھے کوئی ایسا نہ ملا جس کو میں اپنا آلہ بناتا۔ آخرکار مجھے موزوں ترین شخص ملا۔ یعنی تم۔ میں نے اپنا قالب تم کو دیا اور تمہارا قالب خود لے کر اس کو قتل کر آیا۔ اس کے شوہر نے مجھے پکڑ لیا تھا مگر میں بھاگ نکلا۔ میں نے سات دن بعد اس کو اس لیے قتل کیا کہ تم اتنے دنوں تک اس کے ساتھ لطف اندوز ہولو، قتل کے ساتھ تمہارا ہوش میں آ جانا یقینی تھا۔‘‘

’’میں بیچ میں نہ ٹوکو، میں خود تمہارے ہر سوال کا جواب دے دوں گا۔ یہ دنیا ہی جھوٹ سے آباد ہے۔ یہ کچھ تمہارا پریم نگر تو ہے نہیں، پھر اگر میں نے جھوٹ سے ایک فساد برپا کیا تو کیا؟ مجھے معلوم ہے کہ تم پریما کو چاہتے ہو مگر بچہ اس سے اس دنیا میں ملنا ٹھیک نہ تھا، وہ یہاں ایک مٹی ہوئی محبت کی یادگار تھی، اس سے پریم نگر ہی میں ملنا تمہارے حق میں زیادہ اچھا ہے۔‘‘

’’میں اپنا وعدہ پورا کرنے یہاں آیا ہوں۔ کہو تو ہمیشہ کے لیے تم کو تمہاری پریما سے ملادوں۔ لیکن تمہارے گھر والوں اور خود تمہارے لیے بہتر یہ سمجھتا ہوں کہ تم ہر مہینے ایک ہفتہ کے لیے اس سے ملا کرو۔ آئندہ سے ایسا ہی ہوگا، پریم نگر اور اس دنیا کا برابر مقابلہ کرتے رہوگے تو اس سے کم از کم یہ فائدہ ہوگا کہ اس دنیا میں اس کی آلائشوں اور برائیوں سے بہت کچھ بچتے رہوگے۔ اب مجھے تم سے کچھ زیادہ نہیں کہنا ہے۔ میں جاتا ہوں۔ اب مجھے اپنی ذات سےانتقام لینا ہے۔‘‘ سادھو بغیر مجھ سے رخصت ہوئے اٹھ کھڑا ہوا اور چل دیا، میں سکتے کےعالم میں دیر تک اس کو دیکھتا رہا۔

صبح کے وقت ایک شور تھا کہ ہرنام سنگھ نامی جوان جو برسوں سے غائب تھا آج اس کی لاش سادھو کی کٹی کے سامنے ملی ہے، موت خنجر کے ایک زخم سے واقع ہوئی تھی جو عین اسی جگہ تھا جہاں اس دن پریما کے دیکھا گیا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی افواہ تھی کہ سادھو کا کہیں پتہ نہیں ہے۔ لوگوں کو سادھو پر طرح طرح کے شبہے تھے۔ میں بھی ندی کے کنارے پہنچا تو دیکھا کہ نہ وہ سادھو ہے نہ سادھو کا جلال۔ ایک نہایت معمولی داڑھی منڈا شخص زمین پر مردہ پڑا تھا اور لوگوں کا ایک طوفان برپا تھا۔ بعضوں نے مجھ سے سادھو کے متعلق سوالات کرنا شروع کیا، میں وہاں سے گھبراکر بھاگ نکلا۔

سادھو مجھے جو برکت دے گیا تھا وہ اب بھی میرے پاس ہے۔ میں ہر مہینہ ایک ہفتہ کے لیے پریم نگر چلا جاتا ہوں اور وہاں پریما کے ساتھ اسی طرح بلاؤں سےمحفوظ زندگی بسر کرتا ہوں۔ اب پریم نگر کا مطلع کبھی غبار آلود نہیں ہوتا۔ اب وہاں آندھیاں نہیں آتیں۔ میں چاہتا ہوں کہ ہمیشہ کے لیے پریم نگر اور پریما کا ہو جاؤں مگر شاید میرے حق میں بقول اس سادھو کے وہاں مہینہ میں ایک ہی ہفتہ رہنا بہتر ہے۔

لوگ کہتے ہیں کہ ہر مہینہ ایک ہفتہ کے لیے مجھ پر خواب کا دورہ پڑا کرتا ہےاور میں چوبیس گھنٹہ بے حس و حرکت پڑا سویا کرتا ہوں۔ ڈاکٹروں نے اس کو ایک قسم کی بیماری بتایا ہے۔ پہلے تو انھوں نے اس بیماری کانام بہت بڑا اور بھیانک بتایا تھا، شاید ’’ٹڑی پینوسومائسس‘‘ (TRY PANOSOMUASIS) یا اسی طرح کا کوئی نام تھا۔ وہ کہتے تھے کہ یہ مرض ایک قسم کے جراثیم سے پیدا ہوتا ہے جو دماغ میں گھس جاتے ہیں۔ یہ مرض مہلک ہوتا ہے۔

اب جب کہ دو سال سے یہ مرض بدستور قائم ہے اور میں مرا نہیں تو انہوں نےاپنی رائے بدل دی اور اب ’’نعاس‘‘ (SOMNULEUCE) یعنی معمولی خواب کی بیماری تشخیص کی۔ میں خود اس کو ایک ’’مقدس راز‘‘ سمجھتا ہوں اور اس سے زیادہ کہنا نہیں چاہتا،

’’زہے مراتب خوابے کہ بہ زبیداری ست‘‘

بشکریہ ریختہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close