انسانی زندگی لینا اتنا آسان ہو سکتا ہے، کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ کیا زندگی کی وقعت ایک الزام کی رہ گئی ہے؟
جمعے کو سیالکوٹ میں ہجوم نے توہین مذہب کے الزام میں سری لنکا کے شہری پریانتھا کمارا کو تشدد کر کے ہلاک کرنے کے بعد ان کی لاش کو آگ لگا دی۔
جن افراد کو حراست میں لیا گیا ہے ان میں سے ایک درجن کے قریب وہ افراد بھی شامل ہیں جنہیں کچھ عرصہ قبل تحریک لبیک کے احتجاجی دھرنے سے پہلے خدشہ نقض امن کے تحت حراست میں لیا گیا تھا۔
ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فیکٹری مینیجر کے ڈسپلن اور کام لینے کی وجہ سے کچھ ملازمین فیکٹری مینیجر سے نالاں تھے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کچھ غیر ملکی کمپنیوں کے وفد نے فیکٹری کا دورہ کرنا تھا۔ سری لنکن فیکٹری مینیجر نے مشینوں کی مکمل صفائی کاحکم دیتے ہوئے مشینوں سے مذہبی سٹکرز اتارنے کا کہا تھا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مبینہ طور پر جب فیکٹری ملازمین نے سٹکر نہیں ہٹایا تو مینیجر نے خود ہٹا دیا۔
توہین مذہب یقیناً ایک گھناؤنا جرم ہے اور اس کی سزا اسلامی جمہوریہ پاکستان کے قوانین میں ہے۔ لوگ اگر اس قانون کے حوالے سے بات کرتے ہیں تو ان کو واجب القتل قرار دے دیا جاتا ہے۔ لیکن اصل بات تو یہ ہے کہ مخالفت توہین مذہب کے قانون کی نہیں ہوتی بلکہ اس کے غلط استعمال پر ہوتی ہے۔
کیا یہ بات 13 اپریل 2017 کے واقعے سے ظاہر نہیں ہو گئی تھی کہ اس قانون کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے جب مردان میں واقع عبدالولی خان یونیورسٹی میں مشال کو توہین مذہب کے الزام میں مار ڈالا گیا۔ جو اس بدنصیب کے دوست تھے ان کو اپنی مسلمانیت کا یقین کلمہ پڑھ کر اور اپنے والدین کے حج پر جانے کے بارے میں بتا کر دینا پڑا۔
کیا سپریم کورٹ کے حکم پر کی جانے والی تحقیقات میں ثابت نہیں ہوا کہ مشال پر لگائے جانا والا الزام بے بنیاد تھا؟ ان پر حملہ کرنے والے 60 افراد میں سے 33 کو جیل ہوئی جبکہ ایک کو سزائے موت جس کو بعد میں عمر قید میں تبدیل کر دیا گیا۔
رواں سال مئی ہی میں دارالحکومت اسلام آباد میں دو بھائیوں پر بھی الزام لگایا گیا۔ ہجوم نے پولیس سٹیشن پر دھاوا بولا اور مطالبہ کیا کہ، بقول پولیس کے، ’ان بھائیوں کو ہمارے حوالے کیا جائے اور ہم فیصلہ کریں گے کہ ان کو کیا سزا دی جائے۔‘
کیا آسیہ بی بی کا کیس ہم بھول گئے ہیں۔ کیا گذشتہ سال طاہر احمد نسیم کو پشاور کی عدالت کے اندر ایک 17 سالہ نوجوان نے گولی مار کر ہلاک کرنے کو بھی ہم بھول گئے ہیں۔ اور اسی نوجوان کو ایک ہیرو بنا دیا گیا جس کے ساتھ وکلا اور پولیس نے تصاویر بنوائیں۔
حقیقت تو یہ ہے کہ کسی نے بھی کسی پر توہین مذہب کا الزام لگا دیا تو اس ملک کی زمین اس کے لیے تنگ ہو جاتی ہے۔ الزام لگنے کے بعد وہ شخص اس علاقے میں نہیں رہ سکتا اور اس کو نقل مکانی کرنی پڑتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود اس کو زندگی میں سکون نہیں آتا۔ اپنے ملک میں وہ لوگ جہاں مرضی چلے جاتے، توہینِ مذہب کے الزام کی تلوار باقی ساری زندگی ان کے سروں پر لٹکتی رہتی۔ وہ ایک ایسے معاشرے میں زندہ رہنے کی کوشش کرتے جہاں مذہبی قانون سازی پر عقلی بحث ناممکن ہے۔
یہ بھی ہو سکتا تھا کہ ان کا انجام لاہور ہائیکورٹ کے ریٹائرڈ جسٹس عارف اقبال بھٹی جیسا ہوتا جنہیں 1997 میں اس لیے قتل کر دیا گیا تھا کہ انہوں نے تین سال پہلے سلامت مسیح اور رحمت مسیح کو توہین مذہب مقدمے سے بری کیا تھا۔ ان کے قاتل نے اعترافی بیان میں یہ کہا تھا کہ جسٹس عارف اقبال کو اس لیے قتل کیا گیا چونکہ انہوں نے توہین مذہب کے قصوروار کو آزاد کر دیا تھا۔
توہینِ مذہب کے ملزم کے لیے صرف ایک راستہ ہی رہ جاتا ہے اور وہ ہے ملک سے فرار۔ جیسے آسیہ بی بی نے کیا۔ آسیہ بی بی کوئی پہلی پاکستانی نہیں جنہوں نے اس طرح کے الزام کے بعد ملک چھوڑا ہے۔ یونس شیخ نامی ایک ڈاکٹر پر بھی 2000 میں توہین کا الزام لگا اور 2003 میں بری ہوتے ہی انہیں یورپ کا رخ کرنا پڑا۔ اسی طرح 2012 میں رمشا مسیح کے ساتھ ہوا۔ مقدے سے بری ہونے کے بعد انہیں کینیڈا میں سیاسی پناہ مل گئی۔
آزاد وہ لوگ ہیں جنہوں نے آسیہ پر جھوٹے الزام لگائے اور اپنی تقریروں میں بار بار آسیہ کے بری ہونے کے باوجود ان کو واجب القتل قرار دیتے رہے۔
آزاد وہ لوگ ہیں جنہوں نے آسیہ بی بی کے مقدمے کا فیصلہ کرنے والے ججوں کے قتل پر لوگوں کو اکسایا اور اسی بات پر فوج میں بھی بغاوت کا کہا۔
آزاد وہ لوگ ہیں جن کی دھمکیوں اور توہین مذہب کے الزامات لگانے کی صلاحیت سے ڈرتے ہوئے توہین مذہب قوانین کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے کوئی قدم اٹھانا قانون سازوں کے لیے بھی ناممکن ہو جاتا ہے۔
آزاد وہ لوگ ہیں جنہوں نے قتل کی دھمکیاں دے کر قومی اسمبلی کی رکن شیری رحمان کو توہین رسالت بل میں ترمیم (غلط استعمال سے متعلق) کروانے کی سفارشات سے باز رکھا۔
موجودہ صورت حال میں پاکستان کسی طور بھی اس خطرناک مسئلے پر مذہبی شدت پسندوں سے نہیں نمٹ سکتا، چاہے کسی پر بھی غلط الزام لگیں یا کوئی شخص بے قابو ہجوم کے ہاتھوں ہلاک ہو جائے۔
جب تک اس مسئلے سے نمٹنا ممکن نہیں ہوتا، تب تک آسیہ بی بی یا کسی بھی دوسرے ایسے انسان کے لیے یہاں کوئی آزادی نہیں ہے اور مشال خان اور پریانتھا کمارا جیسے لوگ ہجوم کے ہاتھوں جان گنواتے رہیں گے اور ہم صرف مذمت ہی کرتے رہیں گے۔
بشکریہ انڈپینڈنٹ