کراچی – ایک یورپی تھنک ٹینک نے عالمی بینک کو پاکستان میں توانائی کے شعبے میں درپیش مشکلات کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے
تفصیلات کے مطابق تھنک ٹینک کا واضح طور پر یہ کہنا ہے کہ عالمی بینک نے قرضوں کے پروگرام کے لیے درکار اقدمات کے تحت مہنگے اور نقصان پہنچانے والے ایندھن سے بجلی کی پیداوار پر زور دیا
ری کورس نامی اس تھنک ٹینک نے ’ورلڈ بینکس ڈیولپمنٹ پالیسی فنانس (ڈی پی ایف) 21-2015: اسٹک ان کاربن رَٹ‘ نامی رپورٹ میں کہا ہے کہ انڈونیشیا اور پاکستان میں ہونے والی تحقیقات سے یہ بات سانے آئی ہے کہ عالمی بینک ’قدرتی گیس کے استعمال میں اضافہ کر رہا تھا اور کوئلے سے بجلی بنانے والے توانائی کے شعبے کی مدد کر رہا تھا‘
رپورٹ میں کہا گیا کہ چالیس کروڑ ڈالر مالیت کے ’پروگرام فار افورڈایبل اینڈ کلین انرجی (پیس) 2021/22‘ کا مقصد ماحول دوست توانائی کی جانب جانے میں پاکستان کی مدد کرنا تھا
اس پروگرام کے پیشگی اقدامات کے طور پر حکومت پاکستان کو یہ وعدہ کرنا تھا کہ وہ 2030ع تک 66 فیصد قابل تجدید توانائی پر منتقل ہوجائے گا اور یہ کام انڈیکیٹو جنریشن کیپیسٹی ایکسپینشن پلان (آئی جی سی ای پی) کے ذریعے کیا جائے گا
تاہم بعد میں قابل تجدید تونائی کے ذرائع کا ہدف 30 سے 33 فیصد سے کم کر کے 17 فیصد کردیا گیا
رپورٹ کے مطابق اس منصوبے میں نئی قسم کے ہائڈرو پاور منصوبے، تھر کول سے چلنے والے منصوبے، کے-3 ایٹمی بجلی گھر کا منصوبہ اور ہوا اور سورج کی توانائی سے چار ہزار میگاواٹ بجلی کی پیداوار کے منصوبے شامل تھے
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ ڈی پی ایف کے حوالے سے شفافیت اور احتساب کا خیال نہیں رکھا گیا
2021 میں پاکستان ایک ارب چالیس کروڑ ڈالر مالیت کے تین ڈی ایف پی کے پیشگی اقدامات پورے کرنے کے حوالے سے بنیادی اصلاحات کا دوسرا سال مکمل کر رہا ہے
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’ہمارے تجزیے کے مطابق پی ڈی ایف کے لیے درکار پیشگی اقدامات دراصل قابل تجدید توانائی پر منتقل ہونے کی پاکستان کی صلاحیت کے لیے نقصان دہ ہیں‘