ہتک عزت مقدمہ: وزیراعظم کی خواجہ آصف کےخلاف آن لائن گواہی، پاکستان میں ایسے مقدمات بے نتیجہ کیوں رہتے ہیں؟

نیوز ڈیسک

اسلام آباد – وزیراعظم عمران خان نے اپنے دفتر سے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کے سامنے وڈیو لنک کے ذریعے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ آصف کے خلاف نو سال قبل دائر کیے گئے ہتک عزت کے مقدمے کی گواہی دی

ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج محمد عدنان کی زیر صدارت ڈیجیٹل طور پر منسلک عدالت کے سامنے اپنا بیان رکارڈ کرواتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کے رہنما کی جانب سے شوکت خانم میموریل ٹرسٹ کے فنڈز کے ذریعے خورد برد اور منی لانڈرنگ کے بارے میں لگائے گئے الزامات بے بنیاد ہیں جن سے انہیں کم از کم دس ارب روپے کا نقصان پہنچا

یاد رہے خواجہ آصف نے یہ الزامات پنجاب ہاؤس میں ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے لگائے تھے، جس کے بعد اسی روز ایک ٹی وی پروگرام میں انہیں دہرایا تھا

اپنے مقدمے میں عمران خان نے یکم اگست 2012 کی پریس کانفرنس کا حوالہ دیا جس میں مسلم لیگ (ن) کے رہنما نے الزام لگایا تھا کہ پی ٹی آئی کے سربراہ شوکت خانم ٹرسٹ کو زکوٰۃ، فطرانہ یا عطیات کی شکل کی میں دی گئی بڑی رقم ‘ریئل اسٹیٹ جوئے’ میں ہار گئے ہیں

مذکورہ الزامات کو ’جھوٹے اور ہتک آمیز‘ قرار دیتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ شوکت خانم ہسپتال کی سرمایہ کاری کی اسکیموں پر فیصلے ان کی مداخلت کے بغیر ایک ماہر کمیٹی نے کیے تھے

پریس کانفرنس کے دوران مسلم لیگ (ن) کے رہنما نے کہا تھا کہ شوکت خانم ٹرسٹ کے پینتالیس لاکھ ڈالر کے فنڈز سے بیرون ملک سرمایہ کاری کی گئی

اپنی درخواست میں عمران خان نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کے رہنما نے جان بوجھ کر اور بدنیتی سے جھوٹے بیانات دیے جس کا مقصد پاکستان کے اندر اور باہر ان کی ساکھ کو نقصان پہنچانا تھا

درخواست میں کہا گیا تھا کہ خواجہ آصف نے پریس کانفرنس کے دوران درخواست گزار کا موازنہ ’ڈبل شاہ‘ سے کیا، جو کہ ایک بدنام زمانہ دھوکہ باز ہے، جس نے جھوٹ کی بنیاد پر لوگوں کا پیسہ نکلوا کر انہیں ان کی محنت سے کی گئی بچت سے محروم کردیا تھا

اپنے دفتر سے وڈیو لنک کے ذریعے عدالت کے سامنے گواہی دیتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ وہ 1991 سے 2009 تک شوکت خانم ٹرسٹ کے سب سے بڑے انفرادی عطیہ دہندہ تھے اور جس سرمایہ کاری کے خلاف الزامات لگائے گئے تھے وہ بغیر کسی نقصان کے ٹرسٹ نے پوری واپس حاصل کرلی تھی

اس دوران وزیراعظم کے وکیل سینیٹر ولید اقبال کمرہ عدالت میں موجود تھے

عمران خان نے ایک حلف نامے کے ذریعے کہا کہ شوکت خانم ٹرسٹ پر لوگوں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچانے کے لیے من گھڑت اور بے بنیاد الزامات کا استعمال کیا گیا

بیان حلفی میں انہوں نے کہا کہ میرا محتاط اندازہ ہے کہ مدعا علیہ [خواجہ آصف] کے اوپر بیان کردہ ہتک آمیز بیانات کی وجہ سے معاوضے کے حوالے سے مجھے پہنچنے والے ضرر، چوٹ اور نقصان کی حد دس ارب روپے ہے

انہوں نے کہا کہ مدعا علیہ کے جھوٹے، گمراہ کن اور انتہائی ہتک آمیز بیانات کے نتیجے میں آبادی کا ایک بڑا حصہ ان جھوٹے الزامات پر یقین کر کے گمراہ ہوا

وزیراعظم حلف نامے میں کا کہنا تھا کہ بہت سے لوگوں نے مجھ سے اور شوکت خانم ٹرسٹ کے امور کے حوالے سے دیگر لوگوں سے رابطہ کر کے اپنے تحفظات اور خدشات کا اظہار کیا

انہوں نے مزید کہا کہ شوکت خانم ٹرسٹ کے عطیات دہندگان نے مجھ سے الزامات کے حوالے سے وضاحتیں مانگنا شروع کردیں، ان جھوٹے اور ہتک آمیز بیانات نے بہت سے لوگوں کے اندازے میں میری ساکھ کو کم کیا جو ان بیانات پر یقین کرنے سے گمراہ ہوئے اور اس سے لوگوں کے ذہنوں میں میری مالی سالمیت اور شوکت خانم ٹرسٹ کے معاملات کے بارے میں شکوک پیدا ہوئے

وزیراعظم عمران خان نے عدالت کو آگاہ کیا کہ شوکت خانم ٹرسٹ دنیا میں کینسر کے علاج کا منفرد اور واحد مفت ہسپتال چلا رہا ہے اور ایک فلاحی ادارے پر بے بنیاد اور من گھڑت الزامات لگانا بدقسمتی ہے

انہوں نے اس یقین کا اظہار کیا کہ عدالت بے بنیاد کیس پر ایک مثالی فیصلہ دے گی اور ایک مثال قائم کرے گی

پاکستان میں ہتکِ عزت کے مقدمات منطقی انجام تک کیوں نہیں پہنچتے؟

پاکستان میں جب کبھی کوئی بڑی شخصیت کسی کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ دائر کرتی ہے تو یہ بحث شروع ہو جاتی ہے کہ ان کیسز کے فیصلے کیوں نہیں ہوتے اور برطانیہ اور امریکا کی مثالیں دے کر پوچھا جاتا ہے کہ وہاں عدالتیں ایسے مقدمات میں فوری انصاف کیسے فراہم کرتی ہیں۔
حالیہ عرصے میں ایک بڑے مقدمے میں برطانیہ میں ہالی وڈ اداکار جونی ڈیپ اخبار ’دی سن‘ کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ ہار گئے تھے

جریدے ’دی سن‘ نے جونی ڈیپ پر اہلیہ کو تشدد کا نشانہ بنانے کا الزام لگاتے ہوئے اُنہیں وائف بیٹر (بیوی پر تشدد کرنے والا شخص) قرار دیا تھا۔ جس پر اداکار نے جریدے کے خلاف لندن ہائی کورٹ میں ہتکِ عزت کا دعویٰ دائر کیا تھا

برطانیہ کی ہی عدالتوں میں رواں برس تین پاکستانیوں کے ہتک عزت کے مقدمات چلے اور ان پر فیصلے آئے

دو مقدمات میں پاکستانی نیوز چینل کو معافی مانگنا پڑی جبکہ ایک مقدمے میں وزیراعظم عمران خان کی سابق اہلیہ ریحام خان نے پاکستانی نژاد برطانوی شہری اور وزیراعظم عمران خان کے سابق معاون خصوصی ذوالفقار بخاری (زلفی بخاری) سے غیر مشروط معافی مانگی

ان مقدمات کے فیصلے پاکستان میں کئی دن زیر بحث رہے کیونکہ اس میں ٹی وی چینل اے آر وائے کا مواد برطانیہ میں نشر کرنے والے نیو وژن نے مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما اسحاق ڈار سے تحریری معافی مانگی تھی

رواں ہفتے جسٹس ریٹائرڈ وجیہہ الدین احمد کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کی ذاتی رہائش گاہ بنی گالہ کے اخراجات کے حوالے سے بیان پر حکومت نے ان کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ دائر کرنے کا اعلان کیا

جبکہ اسی دوران نو برس پرانے ہتک عزت کے ایک مقدمے میں وزیراعظم عمران خان بیان ریکارڈ کرنے کے لیے ای کورٹ کے ذریعے اسلام آباد کی عدالت میں پیش ہوئے یہ مقدمہ 2012 میں عمران خان نے مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ آصف کے خلاف دائر کیا تھا۔ خواجہ آصف نے عمران خان پر شوکت خانم ٹرسٹ کے فنڈز کے غلط استعمال کا الزام لگایا تھا

اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کا وزیراعظم عمران خان کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ بھی عدالت میں طویل عرصے سے زیرِ سماعت ہے

گلوکارہ میشا شفیع کے گلوکار علی ظفر پر ہراساں کرنے کے الزام اور علی ظفر کی جانب سے میشا شفیع کے خلاف ہتک عزت کے مقدمے کا بھی ٹرائل جاری ہے اور پاکستانی میڈیا پر ہائی لائٹ ہوتا رہتا ہے

اس حوالے سے سپریم کورٹ میں پریکٹس کرنے والے قانون دان فیصل چوہدری ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ہتک عزت کے سول اور فوجداری دونوں قانون موجود ہیں اور کتابوں کی حد تک یہ بڑے پاور فُل قوانین ہیں، مگر مسئلہ ہمارے عدالتی نظام کا ہے جو آؤٹ ڈیٹڈ ہے

انہوں نے کہا کہ دیگر ملکوں کے قوانین کا جائزہ لیا جائے تو ہمارا قانون بھی ویسا ہی ہے، مگر وہاں کیسز کی فیس کی مد میں جو ہرجانہ یا جرمانہ ہوتا ہے اس سے بڑا فرق پڑتا ہے

اسلام آباد کی نجی یونیورسٹی میں قانون پڑھانے والے قانون دان اور پروفیسر شرافت علی کہتے ہیں کہ کہ مسئلہ یہ ہے کہ معاشرے میں ہتک عزت کو کچھ سمجھا ہی نہیں جاتا۔ اسی طرح جتنے بھی ہتک عزت کے مقدمات دائر ہوتے ہیں، ان میں  سے زیادہ تر میں شواہد رکارڈ کرنے تک بات پہنچتی ہی نہیں

فیصل چوہدری اس رائے سے اتفاق نہیں کرتے، ان کا کہنا ہے کہ زیادہ تر عدالتی طریقہ کار کی وجہ سے فیصلے تاخیر کا شکار ہوتے ہیں۔ ہماری اعلیٰ عدلیہ ہر شعبے کی اصلاح پر زور دیتی ہے صرف اپنی ماتحت عدالتوں میں ریفارمز پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی

انہوں نے کہا کہ جب تک ماتحت عدالتوں کو ہتک عزت کے مقدمات کے لیے حساس نہیں کیا جائے گا تب تک یہ معاملات ایسے ہی رہیں گے

ہائی کورٹ میں پریکٹس کرنے والے نوجوان وکیل عمر گیلانی کہتے ہیں کہ اس معاملے پر اہل علم اور سرکار سے ریسرچ کے لیے فنڈڈ اداروں کو اس پر باقاعدہ تحقیق کرنا چاہیے۔
’اس کے لیے مختلف عدالتوں میں زیر سماعت ہتک عزت کے مقدمات کی فائلیں دیکھنا چاہئیں تاکہ معلوم ہو کہ ایک کیس کا فیصلہ ہونے میں اوسطا کتنے برس لگتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ لا کمیشن کو اس پر ریسرچ کرنا چاہیے اور اس موضوع پر سنجیدہ گفتگو ہونا چاہیے

انہوں نے کہا کہ ایک وجہ ہمارا قانونی نظام ہے، ہتک عزت کے مقدمات کا ایک حصہ دیوانی یا سول ہوتا ہے اور ایک ریسرچ کے مطابق پاکستان میں سول کیس کو سپریم کورٹ سے حتمی فیصلہ ہونے تک پچیس برس کا عرصہ درکار ہوتا ہے

ہتک عزت کے قوانین کے تحت مؤثر کارروائی کیوں نہیں ہوتی؟ اس پر شرافت علی نے بتایا کہ ہتک عزت کے کیس کو اکثر اوقات فائل کرنے والے ہی سنجیدہ نہیں لیتے۔ یہ ایک سماجی رویہ ہے کہ یہ کیس برائے کیس ہوتا ہے. ’ہتک عزت کا نوٹس دے دیا، چار خبریں شائع ہو گئیں، اس کے بعد ایک اور نوٹس، اور پھر دعویٰ دائر کر دیا۔ بہت کم ہوگا کہ یہ مقدمات شواہد رکارڈ کرنے کے مرحلے تک پہنچیں۔‘

شرافت علی نے کہا کہ عدالتوں کو کمزور اس وقت کہیں جب طریقہ کار مکمل ہو جائے

ان کا کہنا ہے کہ ایک وجہ ہتک عزت کو ثابت کرنا مشکل ہونا بھی ہے۔ کسی کے بیان سے دعویٰ دائر کرنے والے کا کیا کیا نقصان ہوا، یہ ساری چیزیں عدالت میں ثابت کرنا ہوتی ہیں تب عدالت ہرجانے کا فیصلہ دیتی ہے

فیصل چوہدری ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ قوانین پر عمل نہ ہونا اصل مسئلہ ہے۔ عدالتوں کا بہت بڑا کردار ہے۔ معاملے میں میڈیا بھی ہے، وکلا تنظیمیں بھی ذمہ دار ہیں۔ مختلف گروہ اپنی طاقت کے بل بوتے پر اپنی بات منواتے ہیں، صرف قانون کے زور پر تو کچھ نہیں ہوتا۔‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close