پشاور – قبائلی اضلاع کے انضمام کے بعد خیبرپختونخوا میں ہونے والے پہلے بلدیاتی انتخابات کے غیر سرکاری غیر حتمی نتائج کے مطابق حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے مقابلے اپوزیشن جماعتوں کو مشترکہ طور پر برتری حاصل ہے
خیبر پختونخوا میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے مکمل اور حتمی سرکاری نتائج آنے سے قبل ہی سوشل میڈیا پر یہ تاثر قائم ہو رہا ہے کہ تحریک انصاف کا گڑھ سمجھے جانے والے صوبے میں حکومتی جماعت کی مقبولیت میں کمی آئی ہے, جس کا اعتراف کرتے ہوئے حکومتی وزرا نے مہنگائی کو مورد الزام ٹھہرایا ہے
غیر حتمی نتائج کے مطابق صوبے کے 17 اضلاع کی 66 تحصیلوں میں سے 52 کے موصول ہونے والے غیر حتمی نتائج میں پی ٹی آئی 15 نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہی
جس کے بعد جمعیت علمائے اسلام (ف) 13، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) 9، مسلم لیگ (ن) 2 جبکہ جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی ایک ایک نشست حاصل کرنے میں کامیاب رہیں
سیاسی جماعتوں کے علاوہ آزاد امیدواروں نے بھی نمایاں کامیابیاں حاصل کرتے ہوئے 13 نشستیں حاصل کی ہیں
ابتدائی نتائج کے مطابق جے یو آئی (ف) کوہاٹ اور پشاور میں میئر جبکہ اے این پی مردان کے سٹی میئر کی نشست حاصل کرتی ہوئی نظر آرہی ہے تاہم الیکشن کمیشن کی جانب سے حتمی نتیجہ آنے کے بعد اس کی تصدیق ہوسکے گی
17 اضلاع کی 66 تحصیلوں میں انتخابات کا اعلان ہوا تھا، تاہم بنوں، درہ آدم خیل اور صوبائی کی ایک ایک تحصیل پر انتخاب ملتوی ہوا
چھ سال کے وقفے کے بعد اتوار کو منعقد ہونے والے مقامی حکومتوں کے انتخابات کے پہلے مرحلے میں تشدد اور حملوں کے واقعات میں پانچ افراد ہلاک ہو گئے، جبکہ کچھ پولنگ اسٹیشنز کو تباہ کر دیا گیا
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 17 اضلاع کے ایک کروڑ 26 لاکھ 68 ہزار رجسٹرڈ ووٹرز کے لیے 9 ہزار 223 پولنگ اسٹیشن قائم کیے تھے، جبکہ کچھ علاقوں میں گڑبڑ کی وجہ سے ووٹنگ ملتوی کرنی پڑی، جن میں باجوڑ میں خودکش دھماکا، بنوں میں پولنگ عملے کا اغوا، کرک میں تصادم اور کوہاٹ میں وفاقی وزیر شبلی فراز کی گاڑی پر ہجوم کا حملہ شامل ہے
تاہم، ای سی پی کے دو مراحل میں بلدیاتی انتخابات کرانے کے فیصلے کی وجہ سے مجموعی انتظامات 2015ع کے انتخابات کے مقابلے میں بہتر تھے
ای سی پی کے مطابق صوبے کے 17 اضلاع میں مجموعی طور پر 2 ہزار 32 امیدوار پہلے ہی ولیج اور نیبرہڈ کونسلوں کی نشستوں پر بلامقابلہ منتخب ہو چکے ہیں جن میں 217 جنرل کونسلرز، 876 خواتین، 285 کسان، 500 نوجوان اور 154 اقلیتی نشستیں شامل ہیں
کے پی کے 17 اضلاع یعنی بونیر، باجوڑ، صوابی، پشاور، نوشہرہ، کوہاٹ، کرک، ڈیرہ اسمٰعیل خان، بنوں، ٹانک، ہری پور، خیبر، مہمند، مردان، چارسدہ، ہنگو اور لکی مروت میں مجموعی طور پر ایک کروڑ 26 لاکھ 68 ہزار ووٹرز ہیں، جن میں 70 لاکھ مرد اور 55 لاکھ خواتین شامل ہیں
قبائلی اضلاع خیبر، مہمند اور باجوڑ میں پہلی مرتبہ مقامی حکومتوں کے انتخابات ہوئے ہیں
تحریک انصاف کے صوبائی وزرا شوکت یوسفزئی اور عاطف خان سے جب مقامی صحافیوں نے نتائج پر سوال کیا کہ تحریک انصاف کو اپ سیٹ کیوں ہو رہا ہے, تو انہوں نے مہنگائی کو مورد الزام ٹھہرایا
شوکت یوسفزئی نے کہا کہ ‘ہار جیت ہوتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ ہمارے لیے مہنگائی کی وجہ سے مشکلات رہیں۔ اس حکومت پر کسی قسم کی کرپشن کا الزام نہیں لگا۔ صرف مہنگائی ہے جس کی وجہ سے لوگ مشکلات کا شکار ہیں۔ہماری کوشش ہے کہ دو تین مہینے میں مہنگائی کو کم کیا جائے۔ عمران خان کو بھی اس بات کا احساس ہے۔ کچھ ایسا ہی جواب عاطف خان نے دیا جن کے مطابق ‘جس طرح کے نتائج آئے ہیں اس کی اصل وجہ مہنگائی ہے۔’
لیکن دوسری جانب یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ان نتائج کے پیچھے ٹکٹوں کی تقسیم اور اندرونی لڑائیوں کا بھی ہاتھ ہے
کوہاٹ کی بات کی جائے تو دوسرے نمبر پر آزاد امیدوار ہیں جن کا تعلق پی ٹی آئی سے ہے جبکہ تیسرے نمبر پی ٹی آئی کے اپنے ٹکٹ ہولڈر امیدوار ہیں ۔ بی بی سی کو مقامی ذرائع نے بتایا کہ مقامی کارکنوں نے پارٹی قیادت کے ٹکٹ دینے کے فیصلے کو مسترد کیا ہے
خیبر پختونخوا اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر محمود جان نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے اس موقف کی تائید کی اور کہا کہ میرے اپنے حلقے کا ایم این اے نور عالم خان اپنے سالے، جو جے یو آئی کا امیدوار تھا، کی کھلم کھلا حمایت کر رہا تھا۔ ساتھ والے حلقے میں بھی ایم پی اے ایک آزاد امیدوار کی حمایت کر رہا تھا
انہوں نے کہا کہ جن کو بلے نے عزت دی وہ کچھ روپوں اور اپنے مقاصد کے لیے بک گئے ہیں اور انھوں نے پارٹی کو سپورٹ نہیں کیا
دوسری جانب تجزیہ نگاروں کے مطابق پشاور اور کچھ دیگر اضلاع میں پی ٹی آئی کے امیدواروں کے چناؤ پر جماعت کے اندر اختلافات رہے ہیں جن کی وجہ سے حکمران جماعت اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر پائی
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اس کے برعکس جے یو آئی ایف نے تین سالوں میں محنت کی اور لوگوں سے رابطے بحال رکھے جس کی وجہ سے ان کی کارکردگی اچھی رہی
واضح رہے کہ ماضی میں جے یو آئی ایف خیبر پختونخوا صوبے کے جنوبی اضلاع تک ہی محدود دہی لیکن اس مرتبہ مقامی حکومتوں کے انتخابات میں صوبے کے مرکزی علاقوں جیسے پشاور، چارسدہ اور صوابی میں اپنی پوزیشن بہتر کرنے میں کامیاب ہوئی ہے
یہ بات بھی اہم ہے کہ ماضی میں جمعیت دیگر مذہبی جماعتوں کے ساتھ مل کر کامیابی حاصل کرتی رہی لیکن اس مرتبہ تمام مذہبی جماعتیں اپنے طور پر مقابلے میں اتریں اور بعض حلقوں میں جمعیت اور جماعت اسلامی کے امیدوار آگے پیچھے رہے
واضح رہے کہ خیبر پختونخوا میں سال 2013 کے بعد سے پی ٹی آئی واحد بڑی جماعت کے طور پر سامنے آئی تھی اور صوبائی اور قومی اسمبلی کے ساتھ ساتھ ماضی میں بلدیاتی انتخابات میں بھی پی ٹی آئی کا ہی پلڑا بھاری رہا.