نیدرلینڈز – فائیو جی (5G) نیٹ ورکس سے تحفظ فراہم کرنے کی دعوے دار گلے کے ہار یا بریسلٹ وغیرہ جیسی اشیاء خود بجی انتہائی خطرناک ریڈیائی لہروں کی حامل قرار دی گئی ہیں
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یورپی ملک نیدرلینڈ میں نیوکلیئر سیفٹی اور تابکار شعاعوں سے حفاظت کے ادارے (اے این وی ایس) نے ایک تنبیہ جاری کی ہے کہ مارکیٹ میں دستیاب قریب دس پراڈکٹس میں نقصان دہ ‘آئنائزنگ ریڈی ایشن’ (جو مادے کی آئنائزیشن کا سبب بن سکتی ہے) ہوتی ہیں اور پہننے والوں تابکاری سے متاثر ہو سکتے ہیں
اتھارٹی نے لوگوں سے اپیل کی ہے کہ وہ ایسی مصنوعات ہرگز نہ پہنیں، جنہیں طویل مدت تک استعمال کیا جائے تو صحت کے اعتبار سے اس کے نقصانات شدید ہوں گے
اتھارٹی کے مطابق ان مصنوعات میں انرجی آرمر نامی سلیپنگ ماسک ، گلے میں پہنے جانے والے مخصوص ہار اور بریسلٹ شامل ہیں
میگنیٹک ویلنس نامی بچوں کی بریسلیٹ بھی شعاعوں کی تابکاری کرتی پائی گئی ہے۔ ڈچ اتھارٹی کا کہنا ہے کہ ‘اسے اب دوبارہ مت پہنیں۔ اسے ایک محفوظ انداز میں دور رکھ دیں اور واپس کرنے کی ہدایات کا انتظار کریں۔’
اس نوعیت کی ایسی کئی اشیا مارکیٹ میں دستیاب ہیں جو جدید فائیو جی موبائل نیٹ ورک سے ‘محفوظ رکھنے’ کا دعویٰ کرتی ہیں۔ تاہم ان میں سے بعض ہار اور دیگر چیزوں میں تابکاری کی صلاحیت ہوسکتی ہے۔
ادارے نے لوگوں کو ایسی مصنوعات استعمال نہ کرنے کی تجویز دی ہے کیونکہ ان سے طویل مدتی نقصانات ہوسکتے ہیں
واضح رہے کہ فائیو جی ٹیکنالوجی کے خلاف سازشی نظریات ہونے کی وجہ سے مارکیٹ میں اینٹی فائیو جی ڈیوائسز عام ہوگئی ہیں
مئی 2020 میں برطانوی حکام نے 339 پاؤنڈ کی ایک ایسی یو ایس بی کی فروخت بند کروا دی تھی، جو فائیو جی سے ‘محفوظ’ رکھنے کا دعویٰ کرتی تھی
ای کامرس ویب سائٹ ایمازون پر ‘اینٹی ریڈی ایشن اسٹیکر’ یعنی تابکاری سے بچانے والے اسٹیکر بھی بیچے جا رہے ہیں
اے این وی ایس نے اپنی ویب سائٹ پر ایسی اشیا کی فہرست جاری کی ہے، جن میں تابکاری کی صلاحیت ہے
جبکہ دوسری جانب عالمی ادارہ صحت کے دعوے کے مطابق فائیو جی موبائل نیٹ ورک محفوظ ہیں اور بنیادی طور پر یہ موجودہ تھری جی اور فور جی سگنلز سے مختلف نہیں
ادارے کے مطابق موبائل نیٹ ورکس میں نان آئنائزنگ ریڈیو ویوز استعمال ہوتی ہیں جو ڈی این اے کو نقصان نہیں پہنچاتیں
اس کے باوجود ایسے لوگوں کی جانب سے اس کے ٹرانسمیٹرز پر حملے کیے گئے ہیں جو اسے نقصان دہ خیال کرتے ہیں
فائیو جی کو ضرر رساں سمجھنے والے حلقوں کے مطابق فائیو جی جہاں تیز ترین انٹرنیٹ فراہم کررہی ہے وہیں اس کے مضر اثرات بھی خطرناک ہوسکتے ہیں کیونکہ اب تک کے ’جی نیٹس‘ میں 7 سو میگا ہرٹس سے لے کر 6 سو گیگا ہرٹس کی فریکوئنسی استعمال ہورہی ہے لیکن فائیو جی میں یہ فریکوئنسی 28 سے 100 گیگا ہرٹس کے درمیان موجود ہوگی اور یہ فریکوئنسی انسانی صحت پربہت سے مضر اثرات پر مرتب حاصل ہے
کچھ عرصہ قبل دنیا بھر سے 250 سائنسدانوں نے اقوامِ متحدہ میں ایک پٹیشن دائر کی تھی، جس میں اسمارٹ فون سے تیزی سے نکلنے والی ریز اور شعاعوں سے کینسر کے مرض میں منتقل ہونے کا انکشاف کیا گیا ہے
اقوامِ متحدہ میں جمع کرائی گئی اس پٹیشن پر عالمی ادارہ برائے صحت (ڈبلیو ایچ او) نے بھی دستخط کیے تھے، ماہرین نے مزید خبردار کیا ہے کہ اسمارٹ فون یا پھر ریڈیو سے جو تیزی سے نکلنے والی شعاعیں برقی مقناطیسی میدان پیدا کرتی ہیں، جو انسانی صحت اور ماحول کے لیے نہایت مضر ثابت ہوسکتی ہیں. جن میں کینسر کے بڑھتے ہوئے خطرات، خطرناک مالیکیولز کا اخراج، جینیاتی نقصانات، تولیدی نظام کی فعالیت میں تبدیلیاں، سیکھنے اور یادداشت کے عمل میں کمزروی شامل ہیں
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ فریکوئنسی انسانی صحت کے اعصابی نظام پر اثرا انداز ہو گی جس سے حواسِ خمسہ میں خرابی کا اندیشہ ہے اور یہ انسانی رویوں میں تبدیلی کا شاخسانہ بھی ثابت ہوسکتی ہیں جیسے جھنجھلاہٹ، پریشانی یا غصے میں اضافہ ہونا ہے، ان میں سے کئی امراض فور جی کے ساتھ ہی نمودار ہوچکے ہیں تو فائیوجی میں ان کی ہلاکت خیزی اوربھی زیادہ ہوگی کیوںکہ فور جی، تھری جی سے 10 گناہ تیز تھا تو فائیو جی، فور جی سے ایک ہزار گنا تیزی سے کام کرسکے گا.