بھاؤ تاؤ (افسانہ)

سعیدبلوچ

کام سے واپس آتے ہوئے گھر سے قریبی چوک پہ ایک پھلوں کی ریڑھی پر موٹرسائیکل روکی اور اس سے کیلے کا بھاؤ پوچھا تو اس نے ایک سو بیس روپے درجن بتائے لیکن سنت مبارکہ کو مدنظر رکھتے ہوئے بھاؤ تاؤ کیا تو پہلے پہل تو وہ ظالم مہنگائی اور بچت نہ ہونے کا رونا رویا، خیر پھر مجھے موٹرسائیکل کو کک مارتا دیکھ کر وہ ایک سو دس روپے درجن پر رضامند ہو گیا۔

میں ریڑھی والوں کی نفسیات سے خوب واقف ہوں۔ یہ پہلے ضد پہ ڈٹے رہتے ہیں لیکن جب گاہک جانے لگتا ہے تو پھر کم پیسوں پہ راضی ہو جاتے ہیں۔

بہر کیف دو درجن کیلے لیے اور بیس روپے کم کرانے میں کامیاب رہا۔ ایک ہزار روپے کا نوٹ اسے تھمایا۔ اس نے اپنی پوٹلی ٹٹولی تو اس میں سے بقایا دینے سے بھی کم روپے نکلے شاید اس کی ابھی اتنی زیادہ سیل نہیں ہوئی تھی۔ پھر وہ پیسے کھلے کرانے چلا گیا۔
اتنے میں تقریباً ایک پچاس سال کا فقیر آیا اور کچھ مدد طلب کی۔ اس کی مفلوک الحالی سے متاثر ہو کر اسے اپنی جیب سے بھاؤ تاؤ سے کم کرائے بیس روپے پکڑا دیے اور وہ دو تین رٹی رٹائی دعائیں دیتا ہوا رخصت ہو گیا۔ یقین کریں دل میں ایک راحت سی اترتی محسوس ہوئی۔

اسی اثناء میں وہ ریڑھی والا پیسے کھلے لے کر آ گیا۔ اس سے بقایا پیسے لیے اور پھر ساتھ والے کتاب گھر سے بچوں کی تین کاپیاں خریدیں۔ کاپیاں لے کر موٹر سائیکل موڑی تو سامنے والے کھمبے کی اوٹ میں وہی فقیر بیٹھا نظر آیا جس کو میں نے بیس روپے دیے تھے۔ وہ اپنی جمع پونجی گننے میں مصروف تھا۔ ایک ہزار والے دو نوٹ، پانچ سو والا ایک نوٹ، سو سو والے آٹھ نوٹ، پچاس والے سات نوٹ اور پھر تقریباً پینتیس چالیس نوٹ دس بیس والے بھی تھے۔ جبکہ دوسری جیب بھاری سکوں سے بھری ہوئی تھی۔ میں اس کی کمائی دیکھ کر ششدر رہ گیا۔

پھر ایک نظر دور کھڑے اسی پھلوں کی ریڑھی والے کو دیکھا، جس سے میں نے بھاؤ تاؤ کیا تھا۔ حسن اتفاق وہ بھی تقریباً اس فقیر کا ہم عمر ہی تھا۔۔

مجھے محسوس ہوا کہ فقیر کو پیسے دیتے ہوئے دل میں جو راحت اتری تھی، وہ میرے دل میں تیر بن کر پیوست ہو گئی ہے۔

روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں روپے اینٹھنے والے بہروپیے فقیر کو میں نے وہ پیسے لٹا دیے، جن پر محنت سے کمانے والے کا حق زیادہ تھا۔

میرا ضمیر مجھے اندر سے نوچنے لگا کہ تجھ سے کسی محنت کش کی حق تلفی سرزد ہوئی ہے۔۔۔

اگر اونچی دکانوں پر بھاؤ تاؤ کرنا اپنی عزت اور شان کے خلاف ہے، تو پھر بھاؤ تاؤ کی سنت مبارکہ کے نام پر ان بےچارے کمزور محنت کشوں کا استحصال کیوں؟

چنانچہ میں نے موٹر سائیکل پھلوں کی ریڑھی کی جانب موڑی دی اور بھاؤ تاؤ سے کم کرائے بیس روپے کے ساتھ ساتھ ایک سو روپے مزید بھی اس محنت کش کی بند مٹھی میں پکڑا دیے اور اس سے سخت بھاؤ تاؤ پر معذرت طلب کرتے ہوئے، اس عمر میں اس کی محنت مزدوری کو سراہا۔

وہ میرے اس رویے پر روہانسا سا ہو گیا اور آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر دعائیں دینے لگا۔ اس کی دل سوز دعائیں سن کر شرمساری سے میرا سر مزید جھک گیا۔ پھر اچانک ہی سینے میں پیوست ہو کر چبھنے والی وہی راحت مجھے دوبارہ سے خوشگوار احساس دینے لگی اور راحت کا ایک سمندر سا میرے دل میں امڈ آیا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close