بلوچستان میں بس کے مالک نے اپنی ڈیڑھ کروڑ مالیت کی بس کو آگ کیوں لگادی؟

ویب ڈیسک

لسبیلہ – بلوچستان کے ضلع لسبیلہ کے علاقے وندر میں اتوار کو ایک ٹرانسپورٹر نے اپنی ایک قیمتی بس کو کوسٹ گارڈز کی چیک پوسٹ پر ’احتجاجاً‘ نذرِ آتش کر دیا تھا، جس کے بعد اس واقعے کی وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی

اس حوالے سے بس کے مالک حاجی داد محمد اچکزئی کا کہنا ہے کہ ‘کوئی پاگل ہے جو خود سے اپنی ڈیڑھ کروڑ روپے مالیت کی بس کو آگ لگا دے، لیکن میں نے ایسا کر دیا، کیونکہ میں مجبور ہوں۔’

انہوں نے اپنی بس کو کوسٹ گارڈز کی چیک پوسٹ پر نہ صرف نذرآتش کیا، بلکہ کسی کو آگ بجھانے بھی نہیں دی جس کے باعث بس مکمل طور پر تباہ ہو گئی

داد اچکزئی نے چیک پوسٹ کے عملے پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ اس چیک پوسٹ پر کوسٹ گارڈز کا عملہ نہ صرف ٹرانسپورٹروں کو تنگ کرتا ہے بلکہ ان کی وجہ سے مسافر بھی تنگ ہوتے ہیں

بس کو جلانے کے بعد ٹرانسپورٹرز نے احتجاج کر کے کوئٹہ کراچی ہائی وے کو بلاک کیا تھا، تاہم ڈپٹی کمشنر لسبیلہ سے مذاکرات کے بعد انہوں نے اپنا احتجاج ختم کر دیا

اگرچہ کوسٹ گارڈز کے حکام کی جانب سے باقاعدہ طور پر کوئی بیان سامنے نہیں آیا، تاہم فورس کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ٹرانسپورٹر کے الزامات بے بنیاد ہیں۔ ایک دوسرے اہلکار کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے پریس ریلیز جاری کی جائے گی

عموماً حادثاتی طور پر کسی چیز کو آگ لگ جائے یا کوئی جذبات میں آ کر اپنی کسی چیز کو آگ لگا دے، تو لوگ اپنی مدد آپ کے تحت بھی آگ کو بجھانے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن کوسٹ گارڈز کی چیک پوسٹ پر بس کو جلانے سے متعلق جو وڈیو وائرل ہوئی، اس میں بس کے پاس ایسی کوئی کوشش نظر نہیں آرہی تھی

بعض ایسی اطلاعات ہیں کہ فائر بریگیڈ کا عملہ آگ بجھانے کے لیے جائے وقوعہ پر پہنچا تھا، لیکن وہاں احتجاج کرنے والے افراد نے ان کو آگ نہیں بجھانے دی

وڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ”المحمود کمپنی“ کی اس بس سے آگ کے شعلے اور دھواں بلند ہو رہا ہے

بس کے قریب لوگوں کے درمیان ایک شخص ہے، جس کے ہاتھ میں لوہے کی ایک چھڑی ہے، وہ پشتو زبان میں کہہ رہا ہے ”اس نے مجبوری میں یہ کیا ہے۔“

یہ شخص جو کہ بس کا مالک داد محمد اچکزئی ہے اپنی گفتگو میں یہ دعویٰ بھی کر رہا ہے کہ ’کوسٹ گارڈز والے ان سے ڈیڑھ لاکھ روپے مانگتے ہیں‘۔ ساتھ ہی ساتھ وہ دوسرے لوگوں سے یہ کہہ رہا ہے کہ جلنے والی بس کی وڈیو بناﺅ

وہ یہ بھی کہہ رہا ہے کہ کوسٹ گارڈز کا کام سمندر اور ساحل پر ہوتا ہے، مگر ان لوگوں نے روڈ پر اپنی چیک پوسٹ بنائی ہوئی ہے

بس جلانے کے واقعے کے بعد ٹرانسپورٹروں نے المحمود کمپنی کے مالک حاجی داد محمد کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے اپنی بسیں کوئٹہ کراچی ہائی وے پر کھڑی کر کے انہیں بند کر دیا

ٹرانسپورٹروں کے احتجاج کے باعث اس اہم شاہراہ پر ٹریفک کئی گھنٹے تک بند رہی، جس کی وجہ سے مسافروں اور سفر کرنے والے دیگر افراد کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑا

ٹرانسپورٹروں کے ساتھ ڈپٹی کمشنر لسبیلہ نے مذاکرات کر کے ان کا احتجاج ختم کروایا

فون پر رابطہ کرنے پر ڈپٹی کمشنر لسبیلہ افتخار بگٹی نے بتایا کہ انہوں نے ٹرانسپورٹروں کو یہ بتایا کہ ان کے جو مسائل ہیں ان کے حوالے سے کوسٹ گارڈز کے حکام سے ان کے مذاکرات کروا کر انہیں حل کروایا جائے گا

بس کے مالک اور بس کو نذر آتش کرنے والے حاجی داد محمد اچکزئی نے بتایا کہ ان کی بس 2016 ماڈل کی تھی اور اس کی قیمت ڈیڑھ کروڑ روپے تھی

ان کا کہنا تھا کہ وہ کوسٹ گارڈ کے عملے کے رویے سے تنگ آ گئے، جس کی وجہ سے انہوں نے اپنی قیمتی بس کو جلا دیا کیونکہ اب ان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا

داد اچکزئی کا کہنا تھا کہ بسوں میں جو لوگ سفر کرتے ہیں ان پر یہ لوگ اعتراض کرتے ہیں ۔ کبھی یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ مسافر افغان ہیں اور کبھی کہتے ہیں کہ یہ ازبک ہیں، ان کو مت اٹھاﺅ۔

انہوں نے الزام لگایا کہ جو بسیں کراچی جاتی ہیں، ان کو تلاشی کے نام پر اس چیک پوسٹ پر ڈیڑھ سے دو گھنٹے تک روکا جاتا ہے جس کے باعث ان میں سفر کرنے والے مسافروں بالخصوص خواتین اور بچوں کو شدید پریشانی اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے

حاجی داد محمد اچکزئی نے دعویٰ کیا کہ اس رویے کی وجہ سے بسوں میں سواریوں کی تعداد کم ہوگئی ہے، جس کی وجہ سے ٹرانسپورٹروں کو نقصان ہورہا ہے

انہوں نے الزام لگایا کہ اگر ٹرانسپورٹر نقصان سے بچنے کے لیے چند تھان کپڑوں کے یا اس طرح کی کوئی اور چیز لے جائیں تو ان سے پیسے طلب کیے جاتے ہیں

ان کا کہنا تھا کہ وہ بسوں میں کوئی ممنوعہ اور غیر قانونی چیز نہیں لے جاتے ہیں اور ان میں وہ چیز لے جاتے ہیں جو کہ پاکستان کی مارکیٹوں میں موجود ہوتی ہیں

داد اچکزئی کا کہنا تھا کہ ڈرائیور یا ٹرانسپورٹرز جو تھوڑی بہت چیزیں ان گاڑیوں میں لے جاتے ہیں۔ اگر یہ لوگ ان کو اسمگلنگ کا سامان سمجھتے ہیں تو ان کو سرحد پر روک دیا جائے تاکہ یہ ملک کے اندر نہ آسکیں

حاجی داد محمد نے کہا اب مجبوری کے عالم میں انہوں نے اپنی ایک بس جلائی اور اگر ٹرانسپورٹروں اور مسافروں کو تنگ کرنے کا سلسلہ جاری رہا تو وہ اپنی دوسری بسوں کو بھی جلادیں گے

کوسٹ گارڈز کی جانب سے اس واقعے کے حوالے سے سرکاری طور پر کوئی موقف نہیں دیا گیا

ٹرانسپورٹر کے الزامات کے حوالے سے کراچی میں کوسٹ گارڈز کے ہیڈکوارٹر میں فون پر جب فورس کے آفیسر میجر شہباز سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ اس سلسلے میں فورس کی جانب سے پریس ریلیز جاری کی جائے گی

لیکن اس رپورٹ کی اشاعت تک کوئی پریس ریلیز جاری نہیں کی گئی جبکہ اس دوران موبائل فون پر کوسٹ گارڈز کے پی آراو محمد سرفراز سے رابطے کی کوشش کی گئی تاہم انہوں نے کال وصول نہیں کی اور واٹس ایپ پر یہ پیغام بھیجا کہ وہ چھٹی پر ہیں

اگرچہ کوسٹ گارڈز کے حکام کی جانب سے باقاعدہ طور پر موقف نہیں دیا گیا تاہم فورس کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ٹرانسپورٹر کے الزامات کو بے بنیاد قرار دیا ہے

انہوں نے بس جلانے کے اقدام کو ٹرانسپورٹر کی جانب سے فورس کو بد نام کرنے کی ایک سوچی سمجھی سازش قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکومت کی جانب سے فورس کو جو فرائض تفویض کیے گئے ہیں وہ سرانجام دیے جا رہے ہیں

انہوں نے دعویٰ کیا کہ انہی مسافر بسوں میں اسمگلنگ کا سامان ہونے کے علاوہ منشیات بھی ہوتی ہیں اور ان سے اسمگلنگ کا سامان اور منشیات برآمد ہوتی بھی رہی ہیں

اہلکار نے بتایا کہ بعض لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ان سے کوئی بھی پوچھ گچھ نہیں کی جائے اور وہ ہر چیز اپنی مرضی کے مطابق کریں جوکہ ممکن نہیں ہے کیونکہ قانون میں کسی بھی غیر قانونی کام کی کوئی اجازت نہیں ہے

واضح رہے کہ بلوچستان میں امن و امان کی خراب صورتحال کے باعث شاہراہوں پر بڑی تعداد میں چیک پوسٹیں قائم کی گئی ہیں

ان چیک پوسٹوں کے بارے میں لوگوں کی جانب سے زیادہ شکایات کی جاتی ہیں

بلوچستان کے ساحلی ضلع گوادر میں حق دو تحریک کے زیر اہتمام جو حالیہ احتجاج ہوا، اس کے مطالبات میں سے ایک مطالبہ غیر ضروری چیک پوسٹوں کے خاتمے کا بھی تھا

انہی شکایات کے پیش نظر دوسری مرتبہ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ منتخب ہونے کے بعد میرعبدالقدوس بزنجو نے اسمبلی کے اجلاس سے جو پہلا خطاب کیا اس میں انہوں نے بلوچستان بھر سے غیرضروری چیک پوسٹوں کے خاتمے کا اعلان کیا تھا

جب چیک پوسٹوں کے خاتمے کے اعلان پر عمل درآمد سے متعلق بلوچستان کے مشیر برائے داخلہ امور میر ضیاءاللہ لانگو سے پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا بلوچستان میں مجموعی طور پر اس نوعیت کی آٹھ سے زائد چیک پوسٹیں تھیں

ایک سوال پر انہوں نے بتایا کہ لیویز، پولیس اور ایف سی کی بہت بڑی تعداد میں چیک پوسٹوں کو ختم کیا گیا ہے تاہم بلوچستان میں جو صورتحال ہے اس کے پیش نظر بعض مقامات پر چیک پوسٹیں رکھنا ضروری ہے تا کہ ممنوعہ اور غیر قانونی اشیا کی نقل و حمل کو روکا جاسکے

انہوں نے بتایا کہ آئندہ یہ حکمت عملی بنائی جارہی ہے کہ ہر ضلع میں ہائی ویز پر چیک پوسٹوں کی تعداد انتہائی کم ہو اور جو بھی ہوں وہ تمام فورسز کی مشترکہ چیک پوسٹ ہوں تاکہ تمام فورسز کے اہلکار مشترکہ طور پر تلاشی کا کام کریں

انہوں نے بتایا کہ لسبیلہ میں کوسٹ گارڈز کے اس چیک پوسٹ کے بارے میں بھی جائزہ لیا جائے گا اور یہ دیکھا جائے گا کہ اس کے حوالے سے لوگوں کی جائز شکایات کو کس طرح سے کم کیا جاسکتا ہے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close