خواتین کو ہر صورت حقوق دیے جائیں: طالبان کے سپریم لیڈر کا فتویٰ

ویب ڈیسک

قندھار – افغانستان پر کنٹرول رکھنے والے طالبان نے اپنے سپریم لیڈر ہبت اللہ اخوانزادہ کے نام سے ایک فتویٰ جاری کیا ہے، جس میں وزارتوں کو خواتین کے حقوق پر ’سنجیدہ کارروائی کرنے‘ کی ہدایت کی گئی ہے، تاہم فتوے میں لڑکیوں کی تعلیم کے بارے میں کوئی بات نہیں کی گئی

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اگست میں افغانستان پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد طالبان کے سپریم لیڈر کی جانب سے جاری کردہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا فتویٰ ہے

اپنے فتوے میں طالبان کے سپریم لیڈر ہبت اللہ اخونزادہ نے کہا ہے کہ امارت اسلامیہ کی لیڈرشپ تمام متعلقہ اداروں کو ہدایت کرتی ہے کہ خواتین کو حقوق دلانے کے لیے سنجیدہ کارروائی کریں

فتوے میں شادی اور بیواؤں کے حقوق کا خاص طور پر ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ کوئی شخص زبردستی کسی خاتون سے شادی نہیں کر سکتا

اسی طرح بیوہ خاتون کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ان کو شوہر کی وراثت میں سے حصہ دیا جائے گا

طالبان کے سپریم لیڈر کی جانب سے وزارت ثقافت و اطلاعات کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ تحریری اور آڈیو میں اپنے ذرائع سے خواتین کے حقوق سے متعلق مضامین شائع کریں اور ساتھ ہی مصنفین اور کارکنوں کو خواتین کے حقوق سے متعلق مفید مضامین شائع کرنے کی ترغیب دیں تاکہ علما اور عوام کی خواتین کے شرعی حقوق کے بارے میں توجہ مبذول کرائی جا سکے اور جاری ظلم و ستم کو روکا جا سکے

جاری ہدایات کے مطابق وزارت حج و مذہبی امور علما کی حوصلہ افزائی کرے تاکہ وہ اپنے خطوط کے ذریعے لوگوں کو خواتین کے حقوق کے بارے میں آگاہی دیں اور یہ تبلیغ کریں کہ خواتین پر ظلم کرنا اور انہیں ان کا حق نہ دینا اللہ کی ناراضگی، عذاب اور غصے کا سبب بنے گا

اس کے علاوہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’سپریم کورٹ تمام عدالتوں کو لازمی ہدایت جاری کرے کہ وہ خواتین کے حقوق خصوصاً بیواؤں کے حقوق اور ان کے جبر کے لیے درخواستوں پر مناسب اور اصولی انداز میں غور کریں تاکہ خواتین کو ظلم سے نجات اور ان کے شرعی حقوق کے حصول سے محروم نہ کیا جا سکے

خیال رہے کہ عالمی امدادی ایجنسیوں نے امداد کی بحالی کے لیے خواتین کے حقوق کے احترام کو اہم شرط کے طور پر طالبان کے سامنے رکھا ہے

طالبان کے سپریم لیڈر کے فتوے میں لڑکیوں کے تعلیم حاصل کرنے کے بارے میں کچھ نہیں کہا گیا، جس کو عالمی برادری افغانستان کے ایک اہم مسئلے کے طور پر دیکھتی ہے

موجودہ افغان حکومت کو اپنے ملک میں خواتین کے حقوق خصوصا تعلیم اور ملازمت کے حوالے سے بین الاقوامی شدید دباؤ اور تنقید کا سامنا ہے

طالبان سربراہ کے فرمان کے اہم نکات

نکاح/ شادی کے لیے بالغ خواتین کی رضامندی ضروری ہے۔ (اگرچہ، دونوں برابر ہونے چاہییں جن میں بغاوت کا کوئی خطرہ نہ ہو۔)

کوئی بھی خواتین کو زبردستی یا دباؤ ڈال کر شادی کرنے پر مجبور نہیں کر سکتا۔

عورت جائیداد نہیں، بلکہ نیک اور آزاد انسان ہے۔ کوئی بھی اسے امن معاہدے یا دشمنی کو ختم کرنے کے بدلے کسی کو نہیں دے سکتا۔

شوہر کی وفات کے بعد شرعی عدت (چار ماہ اور دس راتیں) گزر جانے کے بعد، بشمول رشتے دار کوئی بھی بیوہ سے زبردستی شادی نہیں کر سکتا۔

بیوہ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ شادی کرے یا اپنے مستقبل کا خود تعین کرے/ منتخب کرے. (اگرچہ مساوات اور بغاوت کی روک تھام کے اصول کو مدنظر رکھنا چاہیے)

بیوہ کا یہ شرعی حق ہے کہ وہ اپنے نئے شوہر سے ’مہر‘ کا مطالبہ کرے

بیوہ کو اپنے شوہر، بچوں، باپ اور رشتہ داروں کی جائیداد میں وراثت کا حق اور مقررہ حصہ حاصل ہے اور کوئی بھی بیوہ کو اس کے حق سے محروم نہیں کر سکتا

زیادہ شادیوں والے (ایک سے زائد بیویاں) تمام عورتوں کو شرعی قانون کے مطابق حقوق دینے اور ان کے درمیان انصاف قائم رکھنے کے پابند ہیں.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close